مسائل ملت

مسلمانوں کے موجودہ مسائل کا قرآنی حل ––––––  یہ وہ موضوع ہے جس پر مجھے اظہار خیال کی دعوت دی گئی ہے۔ یہ سوال بظاہر ایک سادہ سا سوال معلوم ہوتا ہے۔ مگر نظری اعتبار سے سادہ ہونے کے باوجود، عملی اعتبار سے وہ سادہ سوال نہیں۔ قرآن میں اگرچہ اس کا واضح جواب موجود ہے، مگر اس جواب کو پانا اور اس کو اختیار کرنا بلا شبہ ایک نہایت پیچیدہ مسئلہ ہے۔

"آج کون سی تاریخ ہے"اس سوال کا جواب معلوم کرنا ہو تو ہر شخص اس کو نہایت آسانی کے ساتھ جان لے گا۔ اگر آپ کو معلوم ہو کہ آج سنیچر کا دن ہے اور فروری کا مہینہ ، تو اپنی دیوار کا کیلنڈر دیکھ کر آپ نہایت آسانی کے ساتھ جان لیں گے کہ آج کیا تاریخ ہے ۔ آپ کیلنڈر میں فروری کا صفحہ کھولیں گے اور پھر سنیچر کے خانہ میں دیکھیں گے تو آپ کو فورا ً معلوم ہو جائے گا کہ آج فروری ۱۹۹۰ کی دس تاریخ ہے۔

مگر قرآن سے اس طرح ٹکنیکل انداز میں مذکورہ سوال کا جواب معلوم کرنا ممکن نہیں۔ آپ کے پاس پور اقرآن موجود ہو ۔ آپ عربی زبان جانتے ہوں ، حتی کہ آپ کسی مدرسہ میں شیخ التفسیر کے عہدے پر فائز ہوں تب بھی یہ پیچیدگی بدستور باقی رہے گی۔

 اس کی وجہ کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کلینڈر سے تاریخ نکالنے کا معاملہ صرف ایک فنی معاملہ ہے۔ مگر مسلمانوں کے مسائل کا قرآنی حل جاننے کا معاملہ، اسی کے ساتھ امتحان کا معاملہ بھی ہے۔ اس کا امتحان کا معاملہ ہونا اس کو انتہائی آسان ہونے کے باوجود ، انتہائی مشکل بنا دیتا ہے۔

سنت امتحان

قرآن میں بتایا گیا ہے کہ انسان کی پیدائش کا مقصد امتحان ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کر کے موجودہ دنیا میں اس لیے   رکھا ہے کہ اس کا امتحان لے ( الملک  ۲) موجودہ دنیا کی تمام چیزیں اسی مقصدِ حیات کے مطابق بنائی گئی ہیں۔ اسی کا ایک پہلو یہ ہے کہ ہر ہدایت کے ساتھ ہمیشہ ایک شبہ کا عنصرelement to doubt)) موجو د رہتا ہے۔ تاکہ آدمی کا امتحان لیا جائے کہ وہ خدا کی دی ہوئی عقل سے شبہ کا پر دہ پھاڑتا ہے یا نہیں۔ اس دنیا میں ہدایت صرف اس شخص کو ملتی ہے جو شبہ کے پر وہ کو پھاڑ کر سچائی کو اس کی بے حجاب صورت میں دیکھ سکے۔ جو شخص اس امتحان میں پورانہ اترے اس کو موجودہ دنیا میں کبھی ہدایت نہیں ملے گی۔

اس سلسلہ میں قرآن کی ایک آیت پر غور کیجئے :

وہ کہتے ہیں کہ پیغمبر پر کوئی فرشتہ کیوں نہیں اتارا گیا۔ اور اگر ہم فرشتہ اتاریں تو پھر معاملہ کا فیصلہ ہو جائے۔ اس کے بعد انھیں کوئی مہلت نہ ملے۔ اور اگر ہم کسی فرشتہ کو پیغمبر بنا کر بھیجتے تب بھی اس کو آدمی ہی کی صورت میں بھیجتے ۔ اور لوگوں کو اسی شبہ میں ڈال دیتے جس شبہ میں وہ اب مبتلاہور ہے ہیں (الانعام ۹ )

اس سے معلوم ہوا کہ خدا کی ہدایت کبھی اس طرح بر ہنہ صورت میں نہیں آتی کہ آدمی کے لیے   اس میں کچھ بولنے کی گنجائش ہی باقی نہ رہے۔ فرشتہ اگر اپنی اصل صورت میں خدا کا پیغام لے کہ ظاہر ہو جائے تو کون ہو گا جو اس کے نمائندہ ٔخدا ہو نے پرشبہ کرے۔ اس لیے   خدا اپنے پیغام کی پیغام رسانی کا کام انسانوں میں سے کسی انسان کے ذریعہ کرتا ہے تاکہ پیغام کی سچائی کے باوجود اس میں شبہ کا ایک پہلو باقی رہے۔

یہی اس دنیا کے لیے   خدا کاقانون ہے۔ یہاں جب بھی ہدایت ظاہر ہوتی ہے، اس میں شبہ کا ایک پہلو بھی ضرور شامل رہتا ہے۔ یہی آدمی کا امتحان ہے۔ آدمی کو یہاں شبہ کے پر دے کو پھاڑنا پڑتا ہے۔ جو آدمی شبہ کے پر دے کو پھاڑ دے، وہ ہدایت کو اس کی برہنہ صورت میں دیکھ لے گا اور جو آدمی شبہ کے اس پردے کو پھاڑنے میں ناکام رہے، وہ ہدایت کو پانے میں بھی ناکام رہے گا۔

 اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے اندر بصیرت کی صلاحیت رکھ دی ہے۔ یہ بصیرت گویا ایک قسم کی خدائی کسوٹی ہے ۔ جو لوگ خدا کی دی ہوئی بصیرت کو بے آمیز روپ میں استعمال کریں ، وہ اس امتحان میں کامیاب ہوتے ہیں۔ اور جو لوگ اس بصیرت کو بے آمیز روپ میں استعمال نہ کر سکیں وہ ناکام ہو کر رہ جاتے ہیں۔

مسائل کے قرآنی حل کو پہچاننے میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی ہے۔ کیوں کہ جب بھی قرآن کے حوالہ سے اس کا بتایا ہو احل پیش کیا جاتا ہے، تو خواہ وہ کتنا ہی مدلل اور مبرہن ہو ، اس میں شبہ کا ایک پہلو ہمیشہ موجود رہتا ہے۔ چنانچہ اکثر لوگ اس شبہ والے پہلو میں اٹک کر رہ جاتے ہیں۔ہدایت کے واضح ہو نے کے باوجود وہ اس کو اپنی زندگی میں اختیار نہیں کرپاتے۔

دور ِاول کی ایک مثال

  اس سلسلہ میں ایک مثال لیجئے۔ قدیم مکہ میں ایک شخص تھا۔ اس کا نام روایات میں الحارث بن عثمان بن نوفل بن عبد مناف بتایا گیا ہے۔ اس کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب توحید کی دعوت پیش کی تو اس نے اپنی قوم کی نمائندگی کرتے ہوئے آپ سے کہا: إِنَّا ‌لَنَعْلَمُ ‌أَنَّ ‌الَّذِي ‌تَقُولُ ‌حَقٌّ  وَلَكِنَّا ‌إِنِ ‌اتَّبَعْنَاكَ خِفْنَا أَنْ تُخْرِجَنَا الْعَرَبُ مِنْ أَرْضِ  مَكَّةَ (التفسیر المظہری،ج۷ص۱۷۴)ہم جانتے ہیں کہ آپ جو کچھ کہتے ہیں وہ بلاشبہ حق ہے۔ لیکن اگر ہم آپ کی پیروی کریں تو ہم کو ڈر ہے کہ عرب ہم کو مکہ کی سرزمین سے نکال دیں گے۔

شان نزول کی روایات کے مطابق ، قرآن کی سورہ نمبر ۲۸ میں اس کا جواب دیا گیا ہے۔ ارشاد ہوا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ اگر ہم آپ کے ساتھ اس ہدایت کی پیروی کریں تو ہم کو ڈر ہے کہ ہم کو ہماری زمین سے اُچک لیا جائے گا وَقَالُوٓاْ إِن نَّتَّبِعِ ٱلۡهُدَىٰ مَعَكَ ‌نُتَخَطَّفۡ مِنۡ أَرۡضِنَآۚ [القصص: 57]

قدیم مکہ میں وہاں کے لوگوں کی سردار ی اور معاش دونوں کا خاص ذریعہ شرک تھا۔ انھوں نے یہ کیا تھا کہ عرب کے تمام قبیلوں کے بت کعبہ میں رکھ دیے تھے۔ چنانچہ کعبہ میں ۳۶۰ مختلف بت جمع ہو گئے تھے۔ اس طرح مکہ کے لوگوں کو عرب کے تمام قبیلوں کی سرداری حاصل ہوگئی تھی۔ اسی کے ساتھ ان کو یہ معاشی فائدہ بھی تھا کہ عرب کے مختلف قبیلے اپنے اپنے بتوں پر نذر چڑھانے کے لیے   مکہ آتے تھے۔ یہ تمام نذرا نے مکہ والوں کو ملتے تھے۔ اس طرح شرک مکہ والوں کے لیے   بیک وقت قیادت کا ذریعہ بھی تھااور معاشیات کے حصول کا ذریعہ بھی۔

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ایک خدا کا پیغام ان کے سامنے پیش کیا تو ان کی فطرت نے اس کے برحق ہونے کی تصدیق کی۔ مگر ان کا ذہن اس سوال میں اٹک گیا کہ اگر وہ یہ کہیں کہ خدا صرف ایک ہے۔ بقیہ تمام دیو تا فرضی ہیں ، تو وہ اچانک تمام مشرک قبائل سے کٹ جائیں گے۔ اس کے بعد ان کی سرداری بھی ان سے چھن جائے گی اور ان کی معاش بھی۔ ہدایت کے واضح ہونے کے باوجود ایک شبہ ان کے لیے   قبولیت کی راہ میں رکاوٹ بن گیا۔

ہندستانی مسلمان

ہندستانی مسلمانوں کا حال بھی موجودہ زمانہ میں یہی ہو رہا ہے۔ مختلف شبہات کی بنا پر وہ قرآن سے رہنمائی لینے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ ان کے سامنے جب قرآن کی بات رکھی جاتی ہے تو وہ محسوس کرتے ہیں کہ قرآنی تعلیمات کے مطابق یہی بات درست ہے۔ مگر فورا ً ہی کچھ سوالات سامنے آکر انہیں اس کی طرف سے شبہہ میں ڈال دیتے ہیں۔ وہ اپنے شبہات کی بنا پر قرآن کو اپنانے میں ناکام ثابت ہوتےہیں۔

مثلا ً جب ان کے سامنے صبر و اعراض کی آیتیں پیش کی جائیں تو وہ اس شبہہ میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ اگر ہم قومی معاملات میں صبر و اعراض کا طریقہ اختیار کریں تو ہندو ہمارے اوپر دلیر ہو جائے گا۔ جب ان کے سامنے قرآن کا دعوتی اور تعمیری پیغام رکھا جائے تو انہیں یہ شبہ لاحق ہو جاتا ہے کہ اگر ہم سیاست کی مہم نہ چلائیں تو ہم ملک میں ہونے والے سیاسی عمل سے کٹ جائیں گے ۔ اگر ان سے یہ کہا جائے کہ ہند و تمہارے لیے   مدعو کا درجہ رکھتے ہیں اور مدعو سے مطالبہ اور احتجاج کو قرآن میں منع کیا گیا ہے، تو فوراً وہ یہ شبہہ پیش کر دیں گے کہ اگر ہم مطالبہ اور احتجاج کا طریقہ چھوڑ دیں تو اس ملک میں ہم اپنے دستوری حقوق سے محروم ہو کر رہ جائیں گے ۔ وغیرہ۔

 آج کے سوال کے بارے   میں اصل مشکل یہی ہے۔ قرآن بلاشبہ ایک کامل اور مفصل کتاب ہے۔ اس میں قیامت تک پیش آنے والے تمام سوالات کا واضح جواب موجود ہے۔ مگر اللہ تعالٰی کی سنت التباس (الانعام ۹) کی بنا پر ان تمام جوابات میں شبہ کا ایک عنصر بھی لازمی طور پر شامل ہے ۔ یہی وہ مقام ہے جہاں آج کا مسلمان جانچ کی میزان پر کھڑا ہوا ہے۔ اگر وہ شبہ کا پردہ پھاڑ کر قرآن کی طرف بڑھے تو وہ یقیناً اپنے مسائل کا قرآنی حل پالے گا۔ اور اگر وہ شبہ کی بات میں اٹک جائے تو کوئی بھی آیت یا کوئی بھی حدیث اس کو رہنمائی دینے کے لیے   کافی ثابت نہیں ہوگی۔

 اب میں مسلمانوں کے موجودہ مسائل کے قرآنی حل پر کلام کروں گا ۔ اس سلسلہ میں میری گفتگو کے تین حصے ہوں گے۔ اور ہر حصہ کی بنیا د قرآن کی ایک واضح آیت پر ہوگی۔

تحفظ کا مسئلہ

ہندوستان کےمسلمانوں ، خاص طور پر شمالی ہند کے مسلمانوں کے نزدیک ان کا نمبر ایک مسئلہ جان و مال کے تحفظ کا مسئلہ ہے ۔ وہ سب سے زیادہ اسی مسئلہ پر سوچتے ہیں۔ ان کی سرگرمیاں سب سے زیادہ اسی سوال پر مرتکز رہتی ہیں۔ اس سوال کو ذہن میں رکھ کر اگر ہم قرآن کو پڑھنا شروع کریں تو اس کو پڑھتے ہوئے ہم سورہ المائدہ کی اس آیت( نمبر ۶۷) پر پہنچیں گے جس میں تحفظ کے مسئلہ کا جواب نہایت واضح اور غیر مبہم انداز میں موجود ہے۔ وہ آیت یہ ہے:

يَٰٓأَيُّهَا ٱلرَّسُولُ بَلِّغۡ مَآ أُنزِلَ إِلَيۡكَ مِن رَّبِّكَۖ وَإِن لَّمۡ تَفۡعَلۡ فَمَا بَلَّغۡتَ رِسَالَتَهُۥۚ وَٱللَّهُ يَعۡصِمُكَ مِنَ ٱلنَّاسِۗ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يَهۡدِي ٱلۡقَوۡمَ ٱلۡكَٰفِرِينَ [المائدة: 67]  اے پیغمبر جوکچھ تمہارے اوپر تمہارے رب کی طرف سے اترا ہے اس کو پہنچا دو۔ اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو تم نے اللہ کے پیغام کو نہیں پہنچایا۔ اور اللہ تم کو لوگوں سے بچائے گا۔ اللہ یقینا ً منکر لوگوں کو راہ نہیں دکھاتا۔

 اس آیت پر غور کیجئے۔ اس میں عبارت النص کی سطح پر یہ بات نکل رہی ہے کہ عصمت من الناس کا راز دعوت الی اللہ میں چھپا ہوا ہے ۔ جب بھی مسلمانوں کو محسوس ہو کہ ان کے لیے   غیر اقوام کی طرف سے تحفظ کا مسئلہ پیدا ہو گیا ہے تو انھیں فوراً  دعوت الی اللہ کے کام میں مشغول ہو جانا چاہیے   اور اس کو اس کے تمام ضرور ی آداب کے ساتھ جاری رکھنا چاہیے  ۔ یہی تحفظ کے مسئلہ کا سب سے زیادہ یقینی حل ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ جب کوئی قوم مسلمانوں کے ساتھ دشمنی کرتی ہے تو عین اس وقت بھی اس کے لیے  ممکن نہیں ہوتا کہ وہ اپنے اندر خدا کی پیدا کی ہوئی فطرت کو بدل دے۔ یہ فطرت پیدائشی طور پر اسلام کی طالب ہوتی ہے۔ ہر آدمی اپنی ابتدائی فطرت کے اعتبار سے دینِ اسلام پر پیدا کیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کا ہر دشمن امکانی طور پر ان کا دوست ہوتا ہے۔ کیونکہ اگر اس کی سوئی ہوئی فطرت کو جگا دیا جائے تو وہ اسلام قبول کرلے گا۔ اور جب وہ اسلام قبول کرلے گا تو وہ بھی مسلمانوں کی ملت میں شامل ہو کر ان کا جزء بن جائے گا۔ اور اس کے بعد مسلمانوں کا مسئلہ اپنے آپ ختم ہو جائے گا۔

 تاریخ نے بار بار قرآن کے اس اصول کی تصدیق کی ہے۔ دور اول میں عرب کے مشرکین نے ابتداءً  رسول اللہ کی سخت مخالفت کی مگر آپ ان کی مخالفت کو نظر انداز کرتے ہوئے صبر اور حکمت کے ساتھ انھیں اسلام کی دعوت دیتے رہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ صرف بیس سال کے مختصر عرصہ میں تمام عرب قبیلوں نے اسلام قبول کر لیا۔ جو لوگ بظاہر آپ کے دشمن تھے ، وہ آپ کے دوست اور ساتھی بن گئے۔ اسلام کے سپاہی بن کر انھوں نے اسلام کی عالمی تاریخ بنائی۔

۱۳ ویں صدی عیسوی میں تاتاری قبائل ایک وحشی طوفان بن کر اٹھے اور انھوں نے سمرقند سے لے کر بغداد تک مسلمانوں کے تمام ملی نشانات کو مٹا ڈالا۔ بغداد کی عباسی خلافت ان کی فو جی یلغار کی تاب نہ لا کر ختم ہوگئی ۔

مگر اس کے بعد کیا ہوا۔ مسلمانوں کے قومی کھنڈر سے اسلام کی دعوتی قوت ظاہر ہونا شروع ہوئی۔ اسلام کے عقیدہ نے فاتح تاتاریوں کو مسخر کرنا شروع کیا۔ یہاں تک کہ پچاس برس میں پوری تاریخ بدل گئی مسلمانوں کے فاتح اسلام کے مفتوح بن گئے۔ ہلاکو نے مسلم دنیا کی جن مسجدوں کو ڈھایا تھا، اس کے پوتوں نے ان مسجدوں کو دوبارہ بنایا۔ اور ان مسجدوں میں خدائے واحد کے سامنے جھک کر اپنے عجز کا اعتراف کیا۔

اسلامی تاریخ کا یہی واقعہ ہے جس کا ذکر علامہ اقبال نے ۱۹۳۰ میں آل انڈیا مسلم لیگ (الہ آباد )کے اجلاس میں اپنا خطبہ ٔصدارت پڑھتے ہوئے اس طرح کیا تھا کہ –––––  مسلمانوں کی تاریخ سے مجھے یہ سبق ملا ہے کہ ان کی تاریخ کے نازک مواقع پر یہ اسلام تھا جس نے مسلمانوں کو بچایا نہ کہ مسلمانوں نے اسلام کو :

One lesson I have learnt from the history of Muslims. At critical moments in their history it is Islam that has saved Muslims and not vice versa.

یہی بات اقبال نے عوامی انداز میں اپنے اس شعر میں کہی ہے :

ہے عیاں فتنۂ تاتار کے افسانے سے      پاسباں مل گئے کعبہ کو صنم خانے سے

تاہم ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اقبال نے اس حقیقت کو ماضی کے اعتبار سے سمجھا۔ مگر اس کو انھوں نے حال کے اعتبار سے دریافت نہیں کیا۔ انھیں یہ تو دکھائی دیا کہ گزری ہوئی تاریخ میں اسلام کی دعوتی طاقت نے مسلمانوں کو بچایا ہے مگر حال کے اعتبار سے وہ اس طاقت کی اہمیت کو سمجھ نہ سکے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے ۱۹۳۰ میں جغرافی تقسیم پاکستان کو ہندستان کے مسلمانوں کا حل بتایا۔ حالاں کہ انہیں مسلمانوں کو یہ تلقین کرنا چاہیے   تھا کہ تم غیر اقوام کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کرو۔ اس کے بعد تمہارے مسائل اپنے آپ حل ہو جائیں گے جس طرح وہ ماضی میں حل ہو گئے۔

کسی قوم کے رہنما اور دانشور ہی وہ لوگ ہیں جو پوری قوم کا ذہن بناتے ہیں۔ ان کی تقریر یں اور تحریریں لوگوں کو کسی ایک طرف یا دوسری طرف لے جاتی ہیں۔ ہندستانی مسلمانوں کی مشکل یہ ہے کہ ان کے رہنماؤں اور دانشوروں میں دعوتی ذہن موجود نہیں ۔ وہ صرف قومی طرزِ فکر کو جانتے ہیں۔ اور ہمیشہ قومی طرزفکر کے مطابق لکھتے اور بولتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انھیں ملک کے قومی مسائل تو دکھائی دیتے ہیں۔ مگر انہیں ملک کے دعوتی امکانات نظر نہیں آتے ۔

اس کو سمجھنے کے لیے   ایک مثال لیجئے ۔ ہندستان میں کروروں کی تعداد میں وہ لوگ آباد ہیں جن کو اچھوت یا پست اقوام کہا جاتا ہے۔ ہندو مذہب اور روایات اس میں مانع ہیں کہ ان کو ملک میں برابر کا سماجی درجہ ملے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ مستقل طور پر مایوسی اور ذہنی انتشار میں مبتلارہتے ہیں۔

 ڈاکٹر مبیڈکر (۱۹۵۶-۱۸۹۳) ایک اچھوت خاندان میں پیدا ہوئے ۔ مگر انھوں نے ملک کے اندر اور ملک کے باہر اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ یہاں تک کہ وہ چوٹی کے دانشور بن گئے۔ اپنی ذہنی اور علمی خصوصیات کی بنا پر انھوں نے پوری اچھوت برادری میں واحد نمائندہ لیڈر کی حیثیت حاصل کرلی۔

ڈاکٹرا مبیڈ کر کو اس بات کی بہت زیادہ فکر تھی کہ وہ اپنی قوم کو اوپر اٹھائیں اور ان کو ملکی سماج میں برابری کا درجہ دیں۔ ہندو ازم اور ہندو سماج کا گہرا مطالعہ کرنے کے بعد وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ ہندو دائرہ میں رہتے ہوئے وہ اپنی قوم کو یہ درجہ نہیں دلا سکتے۔ دوسری طرف اسلام کے مطالعہ نے انھیں بتایا کہ یہ مطلوبہ درجہ ان کو اور ان کی قوم کو نہایت کامیابی کے ساتھ حاصل ہو سکتا ہے اگر وہ اسلام کے دائرہ میں داخل ہو جائیں۔ چنانچہ انھوں نے ارادہ کیا کہ وہ اپنی پوری برادری کے ساتھ اسلام قبول کر لیں۔

اس سلسلہ میں انھوں نے مختلف تقریریں کیں اور مضامین لکھے ۔ مثال کے طور پر انھوں نے اپنے ایک مضمون میں لکھا کہ مجھے ایسا لگتا ہے کہ اسلام پست طبقات کو وہ سب کچھ دیتا ہے جس کی انھیں ضرورت ہے۔ اقتصادی اعتبار سے اسلام کے ذرائع لا محدود ہیں۔ سماجی اعتبار سے مسلمان پور سے انڈیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ مسلمان ملک کے ہر صوبے میں موجود ہیں اور وہ پست طبقات کے نو مسلموں کی پوری مدد کر سکتے ہیں۔ سیاسی اعتبار سے پست طبقات وہ تمام حقوق پالیں گے جو مسلمانوں کوحاصل ہیں:

Islam, seems to give the Depressed Classes all they need. Financially, the resources behind Islam are boundless. Socially, the Mohammedans are spread all over India. There are Mohammedans in every province and they can take care of new converts from the Depressed Classes and render them all help. Politically the Depressed Classes will get all the rights which Mohammedans are entitled to. Politics of Conversion, New Delhi, 1986, p.321

واقعات بتاتے ہیں کہ ڈاکٹر امبیڈ کر اسلام کے بالکل قریب آچکے تھے اور عین ممکن تھا کہ وہ اپنی پوری برادری کے ساتھ اسلام قبول کر کے مسلمانوں کے گروہ میں شامل ہو جائیں۔ حتی کہ انھوں نے ۱۳ اکتوبر ۱۹۳۵ کو وہ اعلان کیا جس کو ایولا ڈیکلریشن (Yeola Declaration) کہا جاتا ہے۔ اس اعلان میں انھوں نے ۴۰  ملین ہریجنوں سے اپیل کی کہ وہ اپنے موجودہ مذہب کو چھوڑ کر دوسرےمذہب میں داخل ہو جائیں (صفحہ ۳۳۲ )

مگر مسلم لیڈروں میں سے کسی بھی قابل ذکر شخص نے ڈاکٹر امبیڈ کر کی طرف توجہ نہ کی حتی کہ کسی نے ان سے ملاقات کی ضرورت بھی نہ سمجھی ۔ دوسری طرف عین اسی زمانہ (۱۹۳۰ اور ۱۹۴۰ کے درمیان ) مسلمانوں نے بحیثیت قوم یہ مظاہرہ کیا کہ انھیں ملک کی تقسیم کے سوا کسی اور چیز سے کوئی دل چسپی نہیں ہے۔ مسلم رہنماؤں نے ہر یجنوں کو اسلام کے سایۂ رحمت میں داخل کرنے سے کوئی حقیقی دل چسپی نہ لی۔ انھوں نے اپنی ساری دل چسپی اس بات کے لیے   دکھائی کہ ملک سیاسی اعتبار سے دو حصوں (ہند و انڈیا، مسلم انڈیا) میں بانٹ دیا جائے۔

مسلمانوں کی یہ قومی پالیسی ڈاکٹر امبیڈکر کی امیدوں کے سراسر خلاف تھی۔ انھوں نے قدرتی طور پر یہ سمجھا کہ بٹوارہ کے بعد وہ اور ان کی قوم ہندو انڈیا میں باقی رہے گی۔ کیونکہ ہر یجن زیادہ تر اسی علاقہ میں آباد تھے۔ تقسیم کے بعد مسلمان اس حیثیت میں نہ ہوں گے کہ وہ ان کی کوئی مدد کر سکیں۔ دوسری طرف وہ تبدیلی ٔمذہب کے نتیجہ میں مستقل طور پر ہند و غضب ناکی کا شکار ہو کر رہ جائیں گے۔چنانچہ انھوں نے اسلام کے دائرہ میں داخل ہونے کا ارادہ ختم کر دیا۔

مسلم رہنماؤں میں اگر دعوتی ذہن ہوتا تو وہ سمجھتے کہ پست طبقات کو اسلام میں داخل کر کے اگر وہ ان کا درجہ اونچا کریں تو یہ خود ان کے لیے   بھی حد درجہ مفید ہو گا۔ اس کے بعد ان کی آبادی تک میں مجموعی طور پر تقریباً ۵۰ فی صد ہو جائے گی۔ اور اگر آئندہ تبلیغی عمل کو جاری رکھا جائے تو قریبی مستقبل میں وہ پچاس فیصد سے بھی زیادہ ہو سکتے ہیں ۔ حتی کہ اس کی ضرورت ہی باقی نہ رہے گی کہ وہ "پاکستان "کی صورت میں اپنے لیے   سیاسی پناہ کا ایک گوشہ تلاش کریں۔ مگر مسلم رہنماؤں کے غیرقرآنی ذہن کا یہ نقصان ہوا کہ انھیں قومی خطرات دکھائی دیے مگر انھیں دعوتی امکان نظر نہ آیا۔

دعوت الی اللہ سے عصمت من الناس کا فائدہ حاصل ہونا اتنا یقینی ہے کہ وہ کسی بر اہ راست کوشش کے بغیر اپنے آپ حاصل ہو سکتا ہے، بشرطیکہ مسلمان اپنی کسی نادانی سے اس کے عمل میں رکاوٹ ڈالنے کا سبب نہ بنیں۔

اس کا زندہ ثبوت ۱۹ ویں صدی اور پھر ۲۰ ویں صدی کے آغاز کی تاریخ ہے۔ واقعات بتاتے ہیں کہ اس زمانہ میں اسلام نہایت تیزی کے ساتھ ہندستان میں پھیل رہا تھا۔ ہر روز بلا مبالغہ ہزاروں آدمی اسلام میں داخل ہو رہے تھے۔ اگر اس عمل کو بدستور جاری رہنے دیا جاتا تو کسی اقبال یا جناح کی ضرورت نہ تھی جو بٹوارہ کی صورت میں مسلمانوں کے مسئلہ کا حل تجویز کرے۔ مگر پہلی عالمی جنگ (۱۸ - ۱۹۱۴ء) کے بعد مسلمانوں میں جو قومی تحریکیں اٹھیں، جس کا آخری عروج آل انڈیا مسلم لیگ تھی، اس نے سارا نقشہ بگاڑ دیا۔ ان تحریکوں نے انتہائی غیر دانش مندانہ طور پر ہندوؤں مسلمانوں کے درمیان اختلافی باتوں کو ابھارا۔ انھوں نے اپنی دھواں دھار کا رروائی کے ذریعہ دونوں قوموں میں نفرت کی ناقابلِ عبور دیوار کھڑی کر دی۔ مسلم لیڈروں کی یہی نفرت انگیز سیاست ہے جس نے اسلام کی اشاعت کے اس سیلاب کو روک دیا جو مغل سلطنت کے زوال کے بعدانیسویں صدی میں اس ملک میں جاری ہوا تھا۔

ہندستان میں مسلمانوں کو مستقبل کی تعمیر کے لیے   دو میں سے ایک کام کرنا تھا۔ یا تو وہ سچے داعی بن کر دوسری قوموں کو اپنا مدعو بناتے اور صبر اور حکمت کے ساتھ انھیں اسلام کی دعوت دیتے۔ اور اگر وہ ایسا نہیں کرسکتے تھے تو دوسرا کام ان کے کرنے کا یہ تھا کہ وہ اسلام کی فطری اشاعت کے عمل میں کوئی رکاوٹ نہ کھڑی کریں ۔ وہ اس معاملہ میں خاموش ہو جائیں اور اسلام کو اپنی ذاتی طاقت سے آگے بڑھنے کا موقع دیں۔

 مسلمان ان دونوں میں سے جو بھی طریقہ اختیار کرتے اس کا نتیجہ جلد یا بدیر ایک ہی نکلتا۔ مگر وہ نہ اسلام کے براہ راست داعی بن سکے اور نہ بالواسطہ معاون ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ایک صدی کی پرشور اور ہنگا مہ خیزسیاست کے باوجود ان کے حصہ میں کچھ نہ آیا۔

موجودہ مسلمان

آج بھی ہندستانی مسلمانوں کے مسئلہ کا حل یہی ہے ۔ اس موقع کو استعمال کرنے کا میدان اب بھی ان کے لیے   کھلا ہوا ہے۔ آج بھی اگر ان کے اندر داعیانہ ذہن پیدا ہو جائے تو آج بھی وہ اس میدان میں متحرک ہو کر اس کے تمام فائدے حاصل کر سکتے ہیں۔ سورہ المائدہ (۶۷) میں خدا کی جو سنت بتائی گئی ہے، وہ ایک ابدی سنت ہے۔ وہ جس طرح ماضی کے لیے   تھی ، اسی طرح وہ آج کے لیے   بھی ہے، اور وہ قیامت تک اسی طرح باقی رہے گی۔

انسان کی فطرت کبھی نہیں بدلتی۔ آج بھی جو انسان پیدا ہو رہے ہیں وہ یقیناً فطرۃ اللہ پر پیدا ہو رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آج کا انسان بھی اپنی پیدائشی فطرت کے تحت اس کا منتظر ہے کہ کوئی آئے اور اس کی فطرت کے دروازے کو کھٹکھٹائے ، تاکہ وہ اپنے خالق کے سکھائے ہوئے سبق کے مطابق اس کا جواب دے سکے۔

تاہم اس دعوتی امکان کو حاصل کرنے کے لیے   ایک شرط لازمی طور پر ضروری ہے، اور وہ صبر و اعراض ہے۔ مسلمانوں کو اس ملک میں داعی بننے کے لیے   یہ کرنا ہوگا کہ وہ دوسری قوم کے ساتھ اپنے تمام نزاعات کو یک طرفہ طور پرختم کر دیں۔ یہ ختم کرنا مصنوعی طور پر نہ ہو، بلکہ دل کی گہرائی کے ساتھ ہو۔ اب تک وہ دوسری قوم کو اپنا حریف بنائے ہوئے تھے۔ اب انہیں دوسری قوم کو اپنا دعوتی محبوب بنانا ہوگا۔ انھیں اس حدتک ان کا خیرخواہ بننا ہوگا کہ ان کے دل سے دوسری قوم کے لوگوں کے لیے   دعا ئیں نکلنے لگیں۔

جس دن مسلمان ایسا کریں گے، اسی دن اس ملک میں دعوتی عمل کا آغازہو جائے گا، اور اسی کے ساتھ وہ نتیجہ بھی ظاہر ہونا شروع ہو جائے گا جو دعوت الی اللہ کے ساتھ اللہ نے ابدی طور پر مقدر کر دیا ہے۔

عسر کے ساتھ یسر

قرآن میں ایک نہایت اہم اصول یہ بتایا گیا ہے کہ یہ دنیا کبھی یک طرفہ طور پر کسی کے لیے   غیر موافق نہیں ہو سکتی۔ خدا کے قانون کے مطابق، اس دنیا میں ہمیشہ مشکل کے ساتھ آسانی بھی موجود رہے گی۔ کوئی شخص یا قوم جب بھی کسی محرومی سے دوچار ہو تو یقینی طور پر وہیں اس کے لیے   امکانات اور مواقع کا نیا دروازہ بھی کھلا ہوا ہو گا ۔ یہ اصول قرآن کی اس آیت سے معلوم ہوتا ہے:

فَإِنَّ مَعَ ٱلۡعُسۡرِ يُسۡرًا إِنَّ مَعَ ٱلۡعُسۡرِ يُسۡرٗا [الشرح: 5-6]  پس بے شک مشکل کے ساتھ آسانی ہے  بے شک مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔

 یہ آیت واضح طور پر بتاتی ہے کہ اس دنیا میں نہ صرف یہ ہے کہ مشکل کا ایک کامیاب حل ہمیشہ موجود رہتا ہے۔ بلکہ مزید اطمینان بخش بات یہ ہے کہ مشکل کے مقابلہ میں حل کی مقدار دوگنا ہوتی ہے۔ یہی وہ بات ہے جو حدیث میں ان لفظوں میں بتائی گئی ہے کہ ‌لَنْ ‌يَغْلِبَ ‌عُسْرٌ يُسْرَيْنِ (الموطأ، 1621)( ایک مشکل دو آسانی پر غالب نہیں آسکتی )

 ہندوستان کے مسلم رہنما اور دانشور اپنی تحریروں اور تقریروں کے ذریعہ مسلسل یہ اعلان کر رہے کہ اس ملک میں مسلمانوں کے لیے   مشکلات ہیں۔ یہاں ان کے خلاف تعصب اور ظلم کیا جاتا ہے۔ ہرلکھنے اور بولنے والا روز انہ یہی بات دہرا رہا ہے۔

 مگر اس قسم کے بیانات خدا کی کتاب کے خلاف عدمِ اعتماد کا اظہار ہیں ۔ وہ ثابت کرتے ہیں کہ یہ مسلمان خدا کی کتاب کے بیانات پر یقین نہیں رکھتے۔ اگر انھیں خدا کی کتاب پر یقین ہوتا تو وہ مشکل پیش آنے کی صورت میں آسانی کو تلاش کرتے۔ اس کے بعد وہ جان لیتے کہ جہاں مشکل پائی جارہی تھی ، وہیں آسانی ( اس کا حل )بھی دگنا مقدار میں موجود تھا۔ اس کے بعد ان کے لیے   اعلان کرنے کی چیز مسئلہ کا حل ہوتا نہ کہ صرف مسائل اور مشکلات۔

ہند و مسئلہ

ہندستان کے مسلمانوں کا عام ذہن یہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہندو ان کے حق میں متعصب اور ظالم ہے ہندوؤں کے تعصب اور عناد نے ان کے لیے   ناقابلِ حل مسائل پیدا کر رکھے ہیں۔ اس ملک میں ان کے لیے   باعزت زندگی گزارنے کے تمام دروازے بند ہیں۔

مگر یہ رائے جن ہندوؤں کے تجربات کی بنیاد پر قائم کی گئی ہے وہ زیادہ تر عام قسم کے ہندو ہیں۔ وہ ہندو جو جلسہ اور جلوس کی بھیڑ میں اضافہ کرتے ہیں۔ جو سٹرکوں پر جمع ہو کر نعرہ لگاتے ہیں۔ جو فساد کے موقع پر لوٹتے اور جلاتے ہیں ۔ یہ سب ہندو عوام ہوتے ہیں نہ کہ ہند و خواص ۔مسلمانوں کو ہندو عوام یا ہندو فرقہ پرستوں کی طرف سے جو تجربہ ہو رہا ہے، اس کو وہ پوری ہند و قوم پر چسپاں کر دیتے ہیں اور سمجھ لیتے ہیں کہ ہند وسب کے سب ان کے مخالف ہیں۔

مگر یہ رائے خطرناک حد تک خلافِ واقعہ ہے ۔ ہندؤوں کا مذہبی طبقہ اور ہندو عوام دونوں میں بلاشبہ ایک ایسا گروہ ہے جو مسلمانوں کے ساتھ عناد رکھتا ہے۔مگر ہندوؤں کا خواص طبقہ جس نے جدید طرز پر تعلیم حاصل کی ہے، اس کی بہت بڑی اکثریت فرقہ وارانہ عناد اور شوشہ کی سیاست میں کوئی دل چسپی نہیں رکھتی۔ مزید یہ کہ یہی ہند و خواص ہیں جو اپنی تعلیم کی بنا پر ملک کے تمام کلیدی عہدوں پر قابض ہیں۔ وہی ملک کا پور اسیاسی اور اقتصادی نظام چلا رہے ہیں۔ اخبارات اور تمام اشاعتی ادارے انھیں کے تحت چل رہے ہیں۔

 اس معاملہ کی وضاحت کے لیے   یہاں میں ایک حوالہ دوں گا ۔ ٹائمس آف انڈیا(۹ فروری ۱۹۹۰) میں ایک مفصل آرٹیکل چھپا ہے۔ اس کے لکھنے والے مسٹر چندن مترا ہیں، اور اس کا عنوان ہے:

Militant Hinduism is self-limiting

مضمون نگار الہ آباد کے ماگھ میلہ (جنوری ۱۹۹۰) میں موجود تھے جہاں وشو ہندو پریشد نے اپنا "عظیم الشان "جلسہ کیا تھا۔ وہ وشو ہندو پریشد اور دوسری فرقہ پرست ہند و جماعتوں پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ انھوں نے اگر چہ "رام جنم بھومی " کا جذباتی اشو لے کر عوامی ہندؤوں کی ایک بھیڑ اپنے گرد جمع کرلی ہے اور نومبر ۱۹۸۹ کے الکشن میں وقتی کامیابی بھی حاصل کی ہے ، مگر مذہب کے نام پر اٹھنے والی ان ہندو جماعتوں کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ وہ ہندوؤں کے طبقہ ٔخواص کو اب تک اپنا ہم نوا نہ بنا سکے۔

وہ لکھتے ہیں کہ تاہم بی جے پی کا مسئلہ یہ ہے کہ دسیوں سال کی سخت کوشش کے باوجود وہ اس میں ناکام رہی ہے کہ سیکولر شہری ہندوؤں سے اپنے حق میں فکر ی جواز حاصل کر سکے جو کہ عوام کی رائےکو کنٹرول کرتے ہیں اور یہ بعید از قیاس ہے کہ مستقبل قریب میں وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب ہو سکے :

The BJP's problem, however, is that despite decades of strenuous effort, it has failed to acquire intellectual legitimacy from the secularized, urban Hindus who dominate public opinion. And it is unlikely to succeed in this endeavor in the foreseeable future.

مذہبی طبقہ اگر سچے مذہب پر ہو تو وہ انصاف پر کھڑا ہوا ہوتا ہے۔ مگر جب مذہبی طبقہ میں بگاڑ آجائے تو اس کے پاس تعصب کے سوا اور کوئی چیز نہیں ہوتی جس پر وہ اپنے آپ کو کھڑا کر سکے۔ ہندؤوں کا موجودہ مذہبی طبقہ حقیقۃ ً  ایک بگڑا ہوا مذ ہبی طبقہ ہے، اس لیے   اس کا مذ ہب تمام تر تعصب پر مبنی ہے۔ وہ مذہبی سچائی پر نہیں بلکہ مسلم عناد کی زمین پر کھڑا ہوا ہے۔

ہند و عوام کا معاملہ بھی ایک اور اعتبار سے یہی ہے ۔ ہندو عوام کی اکثریت جاہل اور غریب ہے۔ وہ ایک بے شعور انسانوں کی بھیڑ ہے۔ ایسے لوگوں کو کوئی بھی شوشہ کی بات کہہ کر بھڑ کا یا جا سکتا ہے ۔ اس کی ایک قریبی مثال یہ ہے کہ ہند و عوام پچھلی نصف صدی سے زیادہ تر کانگریس کو ووٹ دیتے آرہے تھے۔ مگر ۲۲ نومبر ۱۹۸۹ کو ہونے والے الکشن میں فرقہ پرست ہندو جماعتوں نے اپنے عوام کو یہ کہہ کر بھڑکا یا کہ راجیو گاندھی ایک سیکولر آدمی ہے۔ وہ خود پارسی کا لڑکا ہے، اور ایک عیسائی عورت سے   شادی کئے ہوئے ہے۔ اس کے ہوتے ہوئے اجودھیا میں مقدس رام مندر کی تعمیر نہیں ہو سکتی۔ یہ سن کر شمالی ہندکے ہندو بھڑک گئے اور انھوں نے مخالفانہ ووٹ دے کر راجیو گاندھی کی پارٹی کو شمالی ہند میں ہرا دیا ۔

ان اسباب سے مسلمانوں کے لیے   عقل مندی کی بات یہ ہے کہ وہ اختلافی معاملات کو ہندو خواص کی سطح پر لاکر حل کریں۔ وہ اس کو ہندو عوام (مذہبی طبقہ اور عوامی طبقہ )تک نہ جانے دیں۔

 موجودہ ہندو قوم میں دو مختلف طبقے کا ہونا قرآن کے اس اصول کے عین مطابق ہے کہ اس دنیا میں ہمیشہ عسر کے ساتھ یسر موجود رہتا ہے۔ ہندوؤں کا فرقہ پرست طبقہ اگر مسلمانوں کے لیے   عسر کے درجہ میں ہے، تو انھیں ہندوؤں کا جدید تعلیم یافتہ طبقہ مسلمانوں کے لیے   یسر کی حیثیت رکھتا ہے۔ مذہبی طبقہ کے اندر اگر مسلمانوں کے خلاف تعصب وعناد ہے، تو تعلیم یافتہ طبقہ اپنی روشن خیالی کی بنا پر مسلمانوں کے معاملہ میں انصاف کا اور حقیقت پسندی کا فیصلہ کرتا۔

مزید یہ کہ قانون الہی کے مطابق، یہاں بھی عسر کے مقابلہ میں یسر کی طاقت زیادہ ہے۔ہندوؤں کے فرقہ پرست طبقہ کے پاس صرف جذباتی نعرے ہیں۔ دوسری طرف جدید تعلیم یافتہ طبقہ کا حال یہ ہے کہ وہی ہر قسم کے علمی، انتظامی، اقتصادی اور صحافتی اداروں پر قابض ہے۔ اعلیٰ سطح کے تقریباً تمام فیصلے اسی کے دفتروں سے کئے جاتے ہیں۔

دو مسجدوں کا قصہ

 یہاں میں ایک تقابلی مثال پیش کرتا ہوں۔ اس سے اس اصول کی صداقت خالص عملی اورواقعاتی سطح پر ثابت ہوتی ہے۔ یہ اجودھیا اور دہلی کی مسجد کی مثال ہے۔

 بابری مسجد (اجودھیا )کا مسئلہ اپنی موجودہ شکل میں ۱۹۸۶ میں پید ا ہوا۔ اس کے بعد مسلمانوں نے مسلم رہنماؤں کی رہنمائی میں کیا کیا۔ وہ اس مسئلہ کو سڑک پر لے آئے، جلسہ اور جلوس، ریلی اور مارچ ، بائیکاٹ اور لاؤڈ اسپیکر کے شور کے ذریعہ انھوں نے اس مسئلے کو حل کرنےکی  کوشش کی۔ یہ طریقہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے ہندو عوام اور ہندو مذہبی طبقہ کی سطح پر مسئلہ کو حل کر نا تھا۔ چنانچہ وہ سراسر نا کام رہا۔

سڑک کی سیاست نے جوابی طور پر ہندوؤں میں اسی قسم کی شدید ترسیاست پیدا کی۔ ہندووں کے مذہبی طبقہ کو یہ موقع ملا کہ وہ جذباتی اپیلیں کر کے ہند و عوام کو بھڑکا دیں ۔ انھوں نے ہندو عوام سے کہا کہ ۱۹۴۷ میں ملک کے بٹوارے کو مان کر ہم نے مسلمانوں کے مقابلہ میں پہلی شکست کھائی تھی، اب اجودھیا میں رام جنم بھومی کی تعمیر کے سوال پر ہم مسلمانوں سے دوسری شکست (second defeat) کبھی قبول نہیں کریں گے۔

اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ شمالی ہند کے ہند و عوام بھڑک اٹھے ۔ جگہ جگہ خوں ریز فرقہ وارانہ فسادات ہوئے۔ عوامی ضد اور جوش نے مسئلہ کو پہلے سے بھی زیادہ پیچیدہ بنا دیا۔ جو چیز پہلے محدود مقامی مسئلہ کی حیثیت رکھتی تھی وہ پورے ملک کے لیے   قومی وقار کا مسئلہ بن گئی۔ مسلمانوں کو بابری مسجد تو حاصل نہیں ہوئی۔ البتہ بہت سی چیز یں جو اس سے پہلے انھیں حاصل تھیں وہ بھی انھوں نے اپنے غلط طریق کار کے نتیجہ میں کھو دیں۔ (اس مسئلہ کی مزید تفصیل کے لیے   راقم الحروف کا مضمون" حکیمانہ تدبیر"ملاحظہ فرمائیں (

اب اس کے برعکس ایک مثال لیے۔ نئی دہلی کے ایک قیمتی علاقہ میں ایک قدیم شکستہ مسجد تھی ۔ جس کے ساتھ وسیع زمین شامل تھی ۔ اس زمین کا رقبہ مجموعی طور پر اٹھارہ ایکرہوتا تھا۔ ۱۹۴۷ کے بعد اس زمین پردہلی کی حکومت کے تین محکموں (آرکیالوجی ، ڈی ڈی اے اور کارپوریشن)نے قبضہ کر لیا۔ وہاں انھوں نے اپنا دفتر قائم کر دیا۔ ان کا مقصد اس کو جدید قسم کے پکنک اسپاٹ میں تبدیل کرنا تھا ۔ اس نقشہ کے مطابق کام بھی شروع ہو گیا۔ حتی کہ انھوں نے وہ ہاں کئی لاکھ روپے خرچ کر دیا۔

 اس کے بعد ایک مولوی صاحب کو یہ خیال آیا کہ اس قدیم مسجد پر قبضہ کیا جائے۔ انھوں نے اس مقصد کے لیے   نہ مسلمانوں کا جلسہ کیا ، نہ اخباروں میں بیانات چھپوائے ، نہ پوسٹر بازی کی مہم چلائی، نہ سٹرکوں پر" ہماری مسجد ہم کو واپس کرو" کے نعرے لگائے۔ اس قسم کے کسی بھی مظاہراتی کام کو چھوڑ کر انھوں نے یہ کیا کہ نہایت خاموشی سے اس علاقہ کے ہندو خواص سے ملاقاتیں شروع کر دیں۔ ان سے نجی ملاقاتوں میں کہا کہ یہ ایک مسجد (عبادت خانہ) ہے اور عبادت خانہ ہر حال میں مقدس ہوتا ہے، خواہ وہ کسی بھی مذہب کا ہو ۔ اس لیے   آپ لوگ اس کو واگزار کرانے میں ہماری مدد کریں۔

 ایک تعلیم یافتہ ہند و جوسکر یٹری کے عہدے سے ریٹائر ہوا تھا وہ ان کا ساتھ دینے کے لیے   پوری طرح تیار ہوگیا۔ اس نے مذکورہ تینوں محکموں سے باقاعدہ ربط  قائم کیا۔ ہر قسم کے دستاویزات جمع کیے۔ اس سلسلہ کے تمام خطوط اور ڈرافٹ جو انگریزی میں ہوتے تھے وہ خود تیار کرتا اور مولوی صاحب کے ساتھ متعلقہ دفاتر میں جاتا۔

یہ  خاموش دفتری جنگ تین سال تک جاری رہی۔ یہاں تک کہ مذکورہ ہند و سکریٹری اور کچھ دوسرے اعلیٰ طبقہ کے ہندؤوں کی مدد سے مذکورہ تینوں محکمے اس پر راضی ہو گئے کہ وہ مسجد کو واگزار کر دیں۔ مولوی صاحب کو باقاعدہ تحریری طور پر یہ اجازت مل گئی کہ وہ مسجد کو آباد کر سکتے ہیں اور ملحقہ ۱۸ ایکڑ زمین پر۸ فٹ اونچی باؤنڈری تعمیر کر سکتے ہیں۔ آج یہاں نہ صرف مسجد اور مدرسہ قائم ہے بلکہ تمام تمدنی سہولتیں مثلاً  بجلی، ٹیلیفون اور سیور لائن بھی وہاں آچکی ہیں۔اب یہ جگہ ایک پر رونق اسلامی مرکز کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔

 اجودھیا کی مسجد کو مسلمانوں نے مزید نقصان کے ساتھ کھو دیا۔ اور دہلی کی نسبتاً زیادہ بڑی اور زیادہ اہم مسجد کو انھوں نے شاندار طور پر دوبارہ حاصل کر لیا۔ اس فرق کی وجہ یہ تھی کہ مسلمانوں کے نادان رہنماؤں نے اجودھیا کی مسجد کو جاہل عوام کی سطح پر حل کرنا چاہا۔ اس کے برعکس دہلی کی مسجدکے مسئلہ کو تعلیم یافتہ خواص کی سطح پر حل کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہی واحد وجہ ہے جس کے نتیجہ میں ایک مقام پر مسلمان مفتوح اور مغلوب ہو گئے اور دوسرے مقام پر انھوں نے شاندار فتح حاصل کی۔

یہ اصول صرف مسجد کے لیے   خاص نہیں۔ مسلمان جس معاملہ میں بھی عوامی ہنگامہ کھڑا کریں گے وہاں ان کا ٹکر اؤ عوامی ہندوؤں سے ہو جائے گا، اور آخر کار ان کو شکست ہوگی۔ اس کے برعکس جب وه خاموش انداز اختیار کریں گے اور ہندوؤں کے خواص طبقہ سے ربط قائم کریں گے تو معاملہ ہندو خواص کی سطح پر رہے گا۔ ایسی صورت میں وہ ہمیشہ اپنے موافق فیصلہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوں گے ،بشر طیکہ ان کا معاملہ انصاف اور صداقت پر مبنی ہو۔

ہم پئیں ، وہ نہ پئیں

اس سلسلہ میں ایک صحابی کا قول نہایت بامعنی اور سبق آموز ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں غزوہ ٔبدر پیش آیا تو یہ سوال تھا کہ میدان جنگ کے لیے   کس مقام کا انتخاب کیاجائے۔ ایک صحابی الحباب بن المنذر الجموح نے ایک مقام کی تجویز پیش کی۔ اس کی خصوصیت انھوں نے یہ بتائی کہ جب وہاں ہم ٹھہریں گے تو پانی کے چشمے ہمارے قبضہ میں آجائیں گے۔ اور فریق ثانی پانی کے ذخائر سے محروم ہو جائے گا۔ اس تجویز کی وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پھر ہم پئیں گے اور وہ نہ پئیں گے (فَنَشْرَبُ ‌وَلَا ‌يَشْرَبُونَ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تجویز کو پسند فرماتے ہوئے فوراً اس کو قبول کر لیا (سیرۃ ابن ہشام ۲/۲۶۱)

اسی قسم کا معاملہ ہندستان کا بھی ہے۔ موجودہ حالات میں اگر ہم اپنے مسئلہ کو ہندو عوام کی سطح پر لے جائیں تو ایسی صورت میں ہندوؤں کا فرقہ پرست طبقہ پانی پئے گا ، اور مسلمان پانی سے محروم رہ جائیں گے۔ اس کے برعکس اگر ہم اپنے مسئلہ کو ہندو خواص کی سطح پر رکھ کر طے کریں تو ایسی صورت میں پانی مسلمان کے حصہ میں آئے گا ، اور ہند و فرقہ پرست پانی سے محروم ہوکر رہ جائیں گے۔

دور اول کی مثال

عوام اور خواص کے اس فرق کی مثال اسلام کی ابتدائی تاریخ میں بھی موجود ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کی ایک تعداد مکہ سے ہجرت کر کے سمندر پار کے ملک حبش چلی گئی تھی۔ وہاں ان کے لیے   عوام اور مذہبی طبقہ کی طرف سے اسی قسم کے مسائل پیدا ہوئے جو ہم کو ہندستان میں در پیش ہیں۔ مگر یہ مسائل جب وہاں کے خواص کے سامنے آئے تو انتہائی انصاف کے ساتھ یہ مسائل مسلمانوں کے حق میں طے کر دیے گئے۔

مسلمان جب حبش کے ساحل پر اترے تو وہاں کے باشندے خارجی ہونے کی بنا پر ان کو حقیرسمجھتے تھے اور انھیں پریشان کرتے تھے۔ یہ مسلمان اگر مشتعل ہو کر عوام کے خلاف ایجی ٹیشن کرتے تو نتیجہ برعکس نکلتا۔ مسلمان اقلیت میں تھے اور مقامی عوام اکثریت میں، اس لیے   مسئلہ بڑھتا اور مسلمانوں کی پریشانیوں میں مزید اضافہ ہو جاتا۔

 مگر مسلمانوں نے عوامی سطح پر شکایت اور احتجاج سے کامل پر ہیزکیا۔ وہ ان سے اعراض کرتے ہوئے اپنا کام کرتے رہے۔ یہاں تک کہ ایک وقت آیا جب کہ ان کو بادشاہ وقت نجاشی کے دربار میں جانے کا موقع ملا۔ نجاشی نے ان سے پوچھا کہ کیا حبش میں کوئی تم کو ستاتا ہے۔ مسلمانوں نے کہا کہ ہاں۔ نجاشی نے فیصلہ دیا کہ جو شخص مسلمانوں کو ستائے ، اس سے چار درہم بطور جرمانہ وصول کر کے مظلوم مسلمان کو دیا جائے۔ اس کے بعد اس نے مسلمانوں سے پوچھاکہ کیا اتنا جرمانہ کافی ہے۔ مسلمانوں نے کہا کہ نہیں۔ نجاشی نے دوبارہ فیصلہ دیا اور جر مانہ کی مقدار بڑھا کر آٹھ در هم کردی (حیاۃ الصحابہ،الجزء الاول صفحہ ۳۵۵)

اسی ہجرت کا دوسرا واقعہ یہ ہے کہ صحابہ کرام جب مکہ سے حبش پہنچے تو مکہ کے مشرکین نے اپنا ایک وفد حبش بھیجا تا کہ وہ مسلمانوں کو وہاں سے واپس لائے۔ مشرکین کے وفد نے حبش پہنچ کر وہاں کے مذہبی طبقہ سے ملاقاتیں کیں اور آخر میں نجاشی کے دربار میں حاضر ہوئے۔

مشرکین مکہ کے وفد کی باتوں کو سن کر وہاں کے مذہبی پیشواؤں کا گروہ ( بگڑا ہو امذ ہبی طبقہ ) ان کا حامی بن گیا۔ انھوں نے نجاشی سے کہا کہ مسلم مہاجرین کو اس وفد کے حوالے کر دینا چاہیے  ۔ حتی کہ ایک موقع پر انھوں نے دربار میں مسلمانوں کے خلاف باقاعدہ شور و غل برپا کر دیا۔ ایسی حالت میں معاملہ اگر اس مذہبی طبقہ کی سطح پر لایا جاتا تو یقیناً اس کا فیصلہ مسلمانوں کے خلاف ہوتا۔

 مگر مسلمان وہاں کے مذہبی طبقہ سے مطلق نہیں الجھے۔ انھوں نے مذہبی طبقہ کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف نجاشی کے سامنے اپنی بات پیش کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ نجاشی نے مکمل طور پر مسلمانوں کے حق میں اپنا فیصلہ دے دیا۔ اس نے مشرکین مکہ کے وفد کو دربار سے نکال دیا۔ اور مسلمانوں سے کہا کہ تم لوگ جب تک چاہو حبش میں عزت کے ساتھ رہو ۔ یہاں سے نکلنے پر تمھیں کوئی مجبور نہیں کر سکتا (سیرۃابن کثیر جلد ثانی)

حرف آخر

یہ دنیا مقابلہ کی دنیا ہے ۔ مقابلہ کی یہ صورت حال ہمیشہ باقی رہے گی ، کیوں کہ اس کو کسی " دشمن اسلام" نے قائم نہیں کیا ہے ۔ بلکہ اس کو خود خدا نے اپنی دنیا میں قائم کیا ہے۔ اس لیے   مخالفین کی سازش اور فساد کو لے کر اس کے خلاف فریاد کرناسراسر احمقانہ ہے۔ اس قسم کی فریاد کسی کے کچھ کام آنےوالی نہیں۔

اس دنیا میں کرنے کا کام صرف یہ ہے کہ حالات کو سمجھا جائے۔ "مخالفین "کے منصوبوں کو جان کر ان کے خلاف حکیمانہ انداز میں جوابی منصوبہ بندی کی جائے۔ مخالف حالات کو اپنے موافق بنانے کی کوشش کی جائے۔ ہر پیش آنے والے عسر کو یسر کی طاقت سے زیر کیا جائے۔ اس دنیا میں کامیابی اس شخص کے لیے   ہے جو مشکل کو اپنی غذا ابنا سکے، جو نا کامی کو کامیابی میں تبدیل کر سکے۔ جن لوگوں کے اندر یہ صلاحیت نہ ہو ، ان کے لیے   صرف یہ انجام مقدر ہے کہ وہ حالات کے خلاف بے فائدہ احتجاج کرتے رہیں ،یہاں تک کہ تاریخ کے قبرستان میں ہمیشہ کے لیے   دفن ہو جائیں۔

روشن مستقبل الرسالہ جنوری ۱۹۹۱  خصوصی نمبر کے طور پر بعنوان ‘‘روشن مستقبل ’’شائع کیا گیا تھا۔ جس میں ملک کے موجودہ حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے مثبت پہلوؤں کو اجاگر کیا گیا تھا۔ اب اس شمارہ کو علاحدہ سے ایک مستقل کتابچہ کی صورت میں شائع کیا گیا ہے ضرورت ہے کہ اس کو ہر طبقہ کے لوگوں تک پہنچایا جائے۔ جو حضرات اس کو زیادہ تعداد میں منگوا کرتقسیم کر نا چا ہیں ان کو خصوصی رعایت کے ساتھ یہ کتابچہ فراہم کیا جائے گا۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom