ایک تاریخ
بائبل کے بیان کے مطابق حضرت یوسف علیہ السلام کی دعوت پر جب ان کا خاندان مصر گیا تو افراد خاندان کی کل تعداد ۶۷ تھی ۔ (اس تعداد میں وہ لڑکیاں شمار نہیں کی گئی تھیں جو حضرت یعقوب کے گھرانے میں بیاہی ہوئی آئی تھیں) حضرت یوسف کی وفات کے تقریبا ً پانچ سو سال بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام تشریف لائے۔ ان کے ساتھ جب بنی اسرائیل مصر سے نکلے تو وہ لاکھوں کی تعداد میں تھے۔ بائبل کے بیان کے مطابق خروج کے بعد دوسرے سال بیابان سینا میں حضرت موسیٰ نے جو مردم شماری کرائی تھی، اس کے مطابق صرف قابل جنگ مردوں کی تعداد ۶۰۳۵۵۰ تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عورت ،مرد، بچے، بوڑھے سب ملا کر وہ کم از کم ۲۰ لاکھ ہوں گے۔
ظاہر ہے کہ ۶۷ افراد کے ایک خاندان کی تعداد پانچ سو سال میں محض توالد و تناسل سے اتنی زیادہ نہیں ہو سکتی۔ تعداد میں اس غیر معمولی اضافہ کا سبب یقینا ً بنی اسرائیل کی تبلیغ تھی۔ ان کی تبلیغ کے زیر اثر جن مصریوں نے اپنا دین بدلا ، غالبا ً ان کا تمدن بھی بنی اسرائیل کے رنگ میں رنگ گیا تھا۔ بائبل میں ان نو مسلموں کے لیے‘‘ ملی جلی بھیڑ ’’جیسے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ بنی اسرائیل جب مصر سے نکلے تو ان کے یہ دینی بھائی بھی ان کے ساتھ تھے۔
بنی اسرائیل کے متعلق معلوم ہے کہ وہ مصر میں مکمل طور پر مغلوب اور محکوم حالت میں تھے مصری ان کو غلام اور مزدور کے درجہ میں رکھ کر ان سے خدمت لیتے تھے۔ قبطی قوم کی حیثیت معزز قوم کی تھی ۔ اور اس کے مقابلہ میں بنی اسرائیل کی حیثیت حقیر اور نا قابل ذکر قوم کی۔ اس کے باوجود بنی اسرائیل کے دین نے بہت سے قبطیوں کو متاثر کیا۔ وہ فرعون کا مذہب چھوڑ کر موسیٰ کے مذہب میں داخل ہو گئے ۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دین حق تمام طاقتوں سے زیادہ بڑی طاقت ہے۔ دین حق وہاں بھی لوگوں کو مسخرکر لیتا ہے جہاں بظاہر اس کا امکان دکھائی نہ دیتا ہو کہ وہ لوگوں کو مسخر کر سکتا ہے۔
خدا کے دین کی طلب خود انسانی فطرت کے اندر موجود ہے اور یہی اس کی اصل طاقت ہے۔ خدا کا دین خود اپنی طاقت کے زور پر لوگوں کے سینہ میں داخل ہوتا ہے نہ کہ اہل دین کی قومی یا مادی طاقت کے زور پر ۔