اتحاد کی اہمیت
حضرت ابو سعید خُدری کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو تو اپنی صفوں کو درست کرو اور خلل کو اچھی طرح پر کر لو (إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاعْدِلُوا صُفُوفَكُمْ، وَسُدُّوا الْفُرَجَ) (المصنف - ابن أبي شيبة، 3819)
حضرت عبد اللہ بن عمر کہتے ہیں کہ میں شخص نے صف کو ملایا اللہ اس کو ملائے اور جس شخص نے صف کو کاٹا اللہ اسے کاٹ دے (وَمَنْ وَصَلَ صَفًّا وَصَلَهُ اللهُ، وَمَنْ قَطَعَ صَفًّا قَطَعَهُ اللهُ) (سنن أبي داود، 666)
حضرت انس بن مالک کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نماز میں اپنی صفوں کو اچھی طرح پر کرو اور خوب مل کر کھڑے ہو۔ گردنوں کو برابر رکھو۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے، میں شیطان کو دیکھتا ہوں کہ وہ صفوں کے خلل سے بکری کے بچہ کی طرح داخل ہو رہا ہے (رُصُّوا صُفُوفَكُمْ وَقَارِبُوا بَيْنَهَا وَحَاذُوا بِالْأَعْنَاقِ، فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنِّي لَأَرَى الشَّيْطَانَ يَدْخُلُ مِنْ خَلَلِ الصَّفِّ كَأَنَّهَا الْحَذَفُ»)( ابو داؤد ، 667 نسائی ، 815)
اس طرح کی بہت سی روایتیں حدیث کی کتابوں میں آئی ہیں جن میں یہ تاکید ہے کہ جب نماز با جماعت کے لیے کھڑے ہو تو خوب مل کر صف بندی کرو۔ کچھ روایتوں میں یہ بھی ہے کہ دو نمازیوں کے بیچ میں اگر خلل رہے گا تو وہاں سے شیطان داخل ہو جائے گا۔ کچھ لوگوں نے اس کو لفظی معنوں میں لے لیا ۔ حالاں کہ اگر اس کو بالکل لفظی معنوں میں لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ وہ قابل عمل ہی نہیں۔ کیوں کہ دو نمازی جب اپنے پیروں کو پھیلا کر ایک دوسرے سے ملاتے ہیں تو خود ایک نمازی کے اپنے دو پیروں کے درمیان اتنا خلل ہو جاتا ہے جو ، "بکری کے بچہ "کے داخل ہونے کے لیے کافی ہو۔
ان روایتوں میں ایک حقیقت پر زور دینا مقصود ہے نہ کہ محض ایک ظاہری شکل پر۔ اصل یہ ہےکہ مسلمانوں کو اپنی پوری زندگی میں متحد ہو کر رہنا چاہیے ۔ انھیں چاہیے کہ وہ اپنی تمام سرگرمیوں کو اتحاد کےساتھ انجام دیں۔ ان کے ہر عمل میں اتحاد کے جذبہ کا مظاہرہ ہونا چاہیے۔ حتی کہ چند مسلمان اگر سفر کریں تو وہ بھی اپنا ایک امیر بنا لیں اور متحدہ صورت میں سفر کریں۔ مسلمان جہاں بھی باہمی اتحاد میں کمی کریں گے وہیں شیطان ان کی صفوں کے اندر گھس جائے گا اور ان کے تمام مقاصد کو برباد کر دے گا۔ آپس کے تعلقات میں اگر دوری پیدا ہو جائے تو نہ مسجد کے اندر کی دنیا فتنوں سے خالی رہے گی اور نہ مسجد کے باہر کی دنیا۔