بے مُلک
علی زکریا الانصاری (۶۰ سال) ہندستان میں کویت کے سفیر ہیں ۔ انھوں نے انگلش میں ماسٹر ڈگری حاصل کی ہے ۔ وہ کئی ملکوں میں کویت کے سفیر رہ چکے ہیں ۔ ۲ اگست ۱۹۹۰ کو اچانک انھوں نے یہ خبر سنی کہ عراق نے اپنی طاقتور فوج کویت میں داخل کر دی اور کویت پر قبضہ کر کے اس کو عراق میں شامل کر لیا۔ ان کی بیوی اور دو بچے کویت میں ہیں اور وہ خود نئی دہلی میں۔ مواصلاتی سلسلہ منقطع ہونے کی بنا پر وہ اپنے گھر والوں کے بارے میں بالکل بے خبر ہیں۔
ٹائمس آف انڈیا (۱۹ اگست ۱۹۹۰)کا نمائندہ راج گھٹا (Chidanand Rajghatta)نے علی زکریا الانصاری سے نئی دہلی میں ان کی محل نمار ہائش گاہ پر ان سے ملاقات کی۔ رپورٹر کے الفاظ میں مسٹر الانصاری سخت پریشانی کے عالم میں تھے ، کیونکہ وہ محسوس کرتے ہیں کہ اب وہ ایک غیر موجود ملک کے سفیر (Envoy of a non-existent country) بن کر رہ گئے ہیں۔
ان کے ملک کے خلاف طاقت ور عراق کی اچانک جارحیت کے بعد ، ۶۰ سالہ سفیر ابھی تک اس صدمہ سے باہر نہیں آسکے ہیں جو انھیں ایک رات کے اندر اپنے ملک کو کھو دینے کی بنا پر پہنچا ہے۔ انھوں نے کہا کہ شام کو ان کا ملک موجود تھا اور اگلے دن وہ نہ رہا :
More than a week after mighty Iraq's sudden aggression against his country, the 60-year old envoy is yet to overcome the shock and trauma of losing his country overnight. One evening it was there and on the morrow....gone (p.20).
موت سے پہلے اس دنیا کا ہر آدمی ملک والا بنا رہتا ہے، مگر موت کے بعد ہر آدمی بے ملک بن جاتا ہے۔ یہ تجربہ آخر کار ہر آدمی پر گزرنے والا ہے، کسی وقتی مدت کے لیے نہیں بلکہ ہمیشہ ہمیش کے لیے ۔ عقل مند وہ ہے جو موت سے پہلے موت کے بعد والے حالات کے لیے اپنے آپ کو تیار کرلے ۔ جو دوسروں کو بے ملک ہوتے دیکھ کر یہ جان لے کہ اسی طرح ایک روز میرا ملک بھی مجھ سے چھین لیا جائے گا۔