غیر مؤثر
آسٹریلیا کے ایک صحافی مسٹر ہارڈنگ (Mervyn Hardinge) کا ایک مضمون پر تھ (Perth) میں چھپا۔ اس کا موضوع آسٹریلیا میں شراب نوشی کا مسئلہ (drink problem) تھا۔ اس مضمون کو دوبارہ نئی دہلی کے انگریزی اخبار اسٹیٹسمین نے اپنے شمارہ ۶ اگست ۱۹۹۰ (صفحہ ۶) میں نقل کیا ہے۔
مضمون نگار نے آسٹریلیا کے ہیلتھ سروسز کے منسٹر مسٹراسٹیپلس (Mr Staples) کے ایک بیان کےحوالےسے بتایا ہے کہ آسٹریلیا کے لوگ سالانہ پانچ بلین ڈالر شراب پر خرچ کرتے ہیں۔ اس کے نتیجہ میں وہاں سڑک کے حادثات بہت بڑھ گئے ہیں۔ اس کے علاوہ طرح طرح کی بیماریاں پیدا ہوگئی ہیں، آسٹریلیا کے ہر دس آدمی میں سے ایک آدمی کو شراب سے تعلق رکھنے والے دماغی مرض (alcohol-related brain damage) میں مبتلا پایا گیا ہے ۔ شراب کے خلاف اشتہار، شراب کے ٹکیس میں اضافہ وغیرہ شراب نوشی کو روکنے یاکمی کرنے میں بالکل ناکام ثابت ہوتے ہیں ۔
آسٹریلیا کے کچھ دانشوروں نے یہ تجویز پیش کی ہے کہ اس مسئلہ کو تعلیم کے ذریعہ حل کیا جائے۔ مگر مضمون نگار کا کہنا ہے کہ اس قسم کی کوشش مفید ثابت نہ ہوگی۔ کوئی بھی شراب مخالف تعلیمی پروگرام ناگزیر طور پر ناکام ہو جائے گا، اور اس کی سادہ سی وجہ یہ ہوگی کہ جن طلبہ کو یہ تعلیم دینا مقصود ہے ، ان کی بیشتر تعداد اتنی مخمور ہوگی کہ وہ کلاس میں حاضر ہی نہ ہوگی :
Any anti-liquor education program must inevitably fail for the simple reason that most of the prospective pupils would usually be too fuddled to attend class.
یہ بات جو یہاں شراب مخالف تعلیم کے بارے میں کہی گئی ہے ، وہی اس قسم کی اکثر کوششوں کے بارے میں صحیح ہے۔ مثلاً پاکستان میں‘‘ اسلامائزیشن’’ کی اسکیم کے تحت ٹیلی وزن پر اسلامی پروگرام جاری کیے گئے۔ مگر ان کو صرف وہ لوگ دیکھتے تھے جن کو اسے دیکھنے کی ضرورت نہیں، اور جن کو دیکھنا چاہیے ، ان کا حال یہ تھا کہ جیسے ہی اسلامی پروگرام شروع ہوا ، انھوں نے ٹی وی سٹ کو بند کر دیا۔
حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کی فکری اصلاح ہمیشہ تبلیغی مہم کے ذریعہ ہوتی ہے۔ وہ اسکول کی تعلیم یا ٹی وی کے پروگرام کے ذریعہ کبھی پیدا نہیں ہوتی ۔