اسلامی جہاد
جہاد کے لفظی معنی کوشش (struggle) کے ہیں ۔ اس میں مبالغہ کا مفہوم شامل ہے۔ مثلاً عربی میں کہتے ہیں۔ جھدت رائی۔ یعنی میں نے اس معاملہ میں بہت زیادہ غور و فکر کیا۔ قرآن میں ہے کہ أَقۡسَمُواْ بِٱللَّهِ جَهۡدَ أَيۡمَٰنِهِمۡ (المائده: ۵۳) یعنی قسم کھانے میں شدت برتنا ،مبالغہ کرنا۔
اسلام شروع سے آخر تک جہاد ہے۔ آدمی جب اسلام میں داخل ہوتا ہے تو وہ ایک مجاہدانہ زندگی میں داخل ہوتا ہے جو برابر جاری رہتا ہے، یہاں تک کہ اسی راہ میں آدمی کی موت آجائے ۔ اس جہاد کا پہلا محاذ آدمی کی خود اپنی ذات ہے ۔ جب آدمی اپنے آپ کو مومن و مسلم کہتا ہے تو وہ گویا یہ عہد کرتا ہے کہ وہ نفسیاتی محرکات کو دبائے گا اور شیطانی ترغیبوں سے لڑ کر خدا کی بتائی ہوئی صراط مستقیم پر قائم رہے گا۔ اس کو حدیث میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ مجاہد وہ ہے جو اللہ کی اطاعت کے لیے اپنی نفس سے جہاد کرے (الْمُجَاهِدُ مَنْ جَاهَدَ نَفْسَهُ فِي طَاعَةِ اللَّهِ)( أدب النفوس للآجري ص ۲۵۲)
جہاد کا دوسرا محاذ دعوت ہے ۔ یعنی اللہ کے پیغام کو اللہ کے بندوں تک پہونچانے کےلیے اپنی ساری ممکن کوشش صرف کرنا۔ یہ اتنا بڑا عمل ہے کہ قرآن میں اس کو جہاد کبیر کہا گیا ہے وَجَٰهِدۡهُم بِهِۦ جِهَادٗا كَبِيرٗا [الفرقان: 52] اللہ کے دین کا خطاب تمام انسانوں اور تمام قوموں سے ہے۔ اس کو اس کے تمام آداب اور تقاضوں کے ساتھ سارے اہل عالم تک پہونچانا ہے۔ اس لحاظ سے بلاشبہ دعوت کا عمل عظیم ترین جہاد ہے ، اس سے بڑا جہاد اور کوئی نہیں ۔
جہاد کا تیسرا محاذ دفاع ہے۔ یعنی اسلام کے دشمن اگر یک طرفہ طور پر اہل اسلام کے اوپر جا رحانہ حملہ کر دیں، اور ان کو حملہ سے باز رکھنے کی تمام ممکن تدبیریں غیر موثر ثابت ہوئی ہوں تو ایسی صورت میں بشرط استطاعت ان سے مقابلہ کر کے انھیں پسپا کرنا اور ان کے حملہ کو ناکام بنادینا، جہاد کی یہی تیسری قسم ہے جس کو شریعت میں قتال فی سبیل اللہ کہا گیا ہے ۔
جہاد نفس اور جہاد دعوت ایک مستقل عمل ہے ، وہ مومن کی زندگی میں ہر روز اور ہر لمحہ کسی نہ کسی صورت میں جاری رہتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں جہاد اعداء ایک اتفاقی اور استثنائی عمل ہے۔ اس کا مقصد دفاع ہے اور دفاع اس وقت کیا جاتا ہے جب کسی کی طرف سے جارحیت کا آغاز کر دیا جائے۔