اعلىٰ مقصد
ایک عرب ملک کی ٹیم بمبئی آئی اور ایک ہوٹل میں ٹھہری ۔ ان کو اپنے ملک کے لیے کچھ کارکنوں کی ضرورت تھی۔ انھوں نے انگریزی اخبارات میں اشتہار چھپوایا ۔ اس کو دیکھ کر دہلی کے ایک تعلیم یافتہ نوجوان نے بھی اپنے کاغذات انھیں بھیجے ۔ اس کے جواب میں اس کے پاس بمبئی سے انٹرویو کارڈ آگیا۔ مذکورہ نوجوان رکشہ پر بیٹھ کر اپنے گھر سے ریلوے اسٹیشن کی طرف روانہ ہوا ۔ اس کے ہمراہ اس کا ایک ساتھی بھی تھا جو اس کو چھوڑنے کے لیے اسٹیشن تک جارہا تھا۔ سڑک پر ایک جگہ کچھ جاہل قسم کے لڑکے کھیل رہے تھے ۔ رکشہ ان کے پاس سے گزرا تو ایک لڑکے نے ان کے خلاف برے الفاظ کہے۔ دوسرے نے کنکر پھینک دیا۔ اب نوجوان کے ساتھی کو غصہ آگیا۔ اس نے چاہا کہ رکشہ روک کر اترے اور لڑکوں کو مارے۔ نوجوان نے اس کا ہاتھ پکڑ کر بٹھا لیا اور کہا : چھوڑو ہمارے پاس اس کا وقت کہاں ہے۔
مذکورہ نوجوان کے سامنے ایک منزل تھی۔ وہ چاہتا تھا کہ وقت پر اسٹیشن پہونچ کر ٹرین پکڑے۔ بمبئی جا کر انٹرویو دے اور پھر عرب پہونچ کے دس ہزار روپیہ مہینہ کمائے ۔ اس مقصد نے اس کی نظر میں لڑکوں کی گالی یا ان کی کنکری کو حقیر بنا دیا۔ وہ ان کو نظر انداز کر کے آگے بڑھ گیا۔
یہی معاملہ زیادہ بڑے پیمانہ پر اہل اسلام کا ہے ۔ اہل اسلام وہ لوگ ہیں جو دعوت حق کو اپنا مقصد بنائے ہوئے ہوں۔ دعوت کا اعلیٰ تصور ان کی نظر میں بقیہ تمام چیزوں کو ہیچ کر دیتا ہے ۔ وہ لوگوں کی طرف سے برے الفاظ سنتے ہیں، ان کی طرف پھر پھینکے جاتے ہیں۔ مگر وہ ان چیزوں کی پروا نہیں کرتے۔ وہ یہ کہہ کر آگے بڑھ جاتے ہیں کہ ہمارے پاس اس کا وقت کہاں ہے کہ ہم اس قسم کی چھوٹی چیزوں میں الجھیں۔
مذکورہ نوجوان کے سامنے صرف دس ہزار روپیہ مہینہ کی منزل تھی ۔ مگر داعی اور مومن کے سامنے جنت کی منزل ہوتی ہے۔اس کے سامنے خدا کا یہ وعدہ ہوتا ہے کہ اس کا جو بندہ اس کے پیغام کو انسانوں تک پہونچائے گا اور اس راہ میں ہرقسم کی تکلیف اور دل آزاری کو برداشت کرے گا، اس کے لیے آخرت میں ابدی جنت ہے۔ وہ کہہ اٹھتا ہے کہ صبر ہی تو جنت کی قیمت ہے۔ پھر اگر میں لوگوں کی ایذا رسانی پر صبر نہ کروں تو آخرت میں مجھے جنت کا داخلہ کس طرح ملے گا ۔
اعراض میں دنیا کی کامیابی بھی ہے اور اسی میں آخرت کی کامیابی بھی۔