ایک سفر

سوویت یونین میں گلاسناسٹ (openness) کی پالیسی کے تحت حال میں کافی تبدیلیاں ہوئی ہیں۔ اس کے تحت روسی حکومت چاہتی ہے کہ بیرونی دنیا سے اپنے تعلقات بڑھائے۔ چنانچہ مختلف طبقہ کے لوگوں کو سوویت یونین جانے کے مواقع دیے جارہے ہیں۔

 اسی میں سے یہ ہے کہ سوویت حکومت عالم اسلام کی مختلف شخصیتوں کو دعوت دے رہی ہے کہ وہ سوویت یونین جا کر اپنی آنکھ سے وہاں کے مسلمانوں کے حالات کو دیکھیں۔ مثلاً سعودی عرب کے شیخ محمد بن ناصر العبود ی اسی سلسلہ میں روس جاچکے ہیں۔ چنانچہ سوویت حکومت نے مجھ کو بھی روس کے سفر کی دعوت دی۔ اس کے تحت جولائی-  اگست ۱۹۹۰ میں سوویت یونین کا سفر ہوا۔

 شیخ عبودی (رابطہ ٔاسلامی ، مکہ )کی سرکردگی میں جو وفد پندرہ دن کے لیے   سوویت یونین گیا تھا ، اس نے وہاں کی مسلم جمہوریتوں کا دورہ کیا۔ روسی مسلمانوں کے حالات اور ضرورتوں کا جائزہ لیا۔ اس نے روسی مسلمانوں کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی کہ وہ اسلام کی راہ میں تنہا نہیں ہیں بلکہ دنیاکے دوسر ے مسلمان ان کے ساتھ ہیں۔

 وفد نے وہاں کی ان مسجدوں کا بھی جائزہ لیا جو حال میں واگزار کی گئی ہیں۔ اس نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ ان مسجدوں کی اصلاح و مرمت کافی ہے یا ان کو از سر نو تعمیر کرنے کی ضرورت ہے۔ مزید یہ کہ روسی حکومت نے جن مقامات پر نئی مسجدوں کی تعمیر کی اجازت دی ہے ، ان کے لیے   مناسب زمین حاصل کرنے کی بابت ذمہ داروں سے گفتگو کی ۔

روس میں اشتراکی انقلاب ۱۹۱۷ میں آیا جب کہ ابھی میں پیدا بھی نہیں ہو ا تھا۔ تاہم سن شعور کو پہنچتے ہی اشتراکی روس کی باتیں میرے کان میں پڑنے لگیں۔ غالباً ۱۹۳۶ کا واقعہ ہے۔ میں اعظم گڑھ میں مولانا اقبال احمد سہیل (۱۹۵۵ - ۱۸۸۴ ) کے مکان پر تھا۔ گفتگو کے دوران سوویت روس کا ذکر آیا۔ انھوں نے خاندان کے ایک نوجوان کا نام لے کر کہا کہ ان کے کورس میں روسی زبان کا بھی ایک پرچہ ہے۔ پڑھائی مکمل کرنے کے بعد امید ہے کہ وہ روس جائیں گے۔ پھر ان کے ذریعہ سے وہاں کی صحیح باتیں معلوم ہوں گی۔ مذکورہ نوجوان اب بوڑھا پے کی عمر کو پہنچ چکے ہیں۔ تاہم وہ روس نہ جاسکے سرکاری ملازمت کے بعد اب وہ ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے ہیں۔

 ۱۹۳۶ میں میں ایک مدرسہ میں کتاب النحو اور کتاب الصرف کے اسباق پڑھ رہا تھا۔ اس وقت بظا ہرنا قابل تصورتھا کہ میں کبھی روس کا سفر کر سکوں گا۔ مگر عجیب اتفاق کہ اس واقعہ کے تقریباً ۵۵ سال بعد یہ‘‘  قرعہ ’’ میرے نام آیا۔ جولائی ۱۹۹۰ میں میں نے اس ملک کا سفر کیا جس کا پور انام یونین آف سوویت سوشلسٹ ریپبلکس (USSR) ہے۔

 ۱۱  جون ۱۹۹۰  کو نئی دہلی کے روسی سفارت خانہ سے ٹیلیفون آیا۔ انھوں نے بتایا کہ وہ مجھ کو دس روزہ پروگرام کے تحت سوویت روس بھیجنا چاہتے ہیں تاکہ میں وہاں اسلام اور مسلمانوں کے حالات کو براہ راست دیکھوں، نیز یہ کہ ۲۸  جولائی کے لیے   انھوں نے میری سیٹ ریز رو کرا دی ہے۔ اس سے پہلے بھی تاریخ کے تعین کے بغیر وہ اس پروگرام کی بابت مجھ کو اطلاع دے چکے تھے۔ جولائی کے مہینہ میں میری بعض مصروفیات تھیں۔ مگر میں نے ان مصروفیات میں تبدیلی کر کے ان کی پیش کش کو قبول کر لیا۔

کسی روسی آدمی کو پہلی بار میں نے پچاس سال قبل دیکھا تھا۔ اس وقت میں ایک عربی مدرسہ( الاصلاح ، اعظم گڑھ) میں پڑھ رہا تھا۔ ایک روز میں نے دیکھا کہ صدر مدرس مولانا امین احسن اصلاحی اپنے کمرہ کی طرف چلے تو ان کے ساتھ نئے حلیہ کا ایک آدمی تھا۔ صاف رنگ، بھاری جسم، سر پر غیر ہندستانی وضع کی ٹوپی ۔ میری ان سے ملاقات تو نہ ہو سکی البتہ مولانا امین احسن اصلاحی کے ساتھ انھیں کئی بار مدرسہ کے احاطے میں چلتے پھرتے دیکھا۔ اتنا یا دہے کہ مولانا اصلاحی سے ان کی گفتگو عربی زبان میں ہوتی تھی۔ اس وقت مدرسہ کی آبادی میں وہ سب سے زیادہ پر شکوہ شخصیت والے نظر آئے۔

یہ علامہ موسیٰ جار اللہ روسی تھے۔ مجھے یاد تھا کہ اسی زمانہ میں مولانا امین احسن اصلاحی نے ان کی بابت اپنے ماہنامہ  الاصلاح میں‘‘ شذرات ’’کے تحت کچھ لکھا تھا۔ میں نے چاہا کہ اس مضمون کو دیکھوں۔ میں نے مولانا عبد الرحمن ناصر اصلاحی کو خط لکھا کہ الاصلاح کے مذکورہ مضمون کی فوٹو کاپی روانہ کر دیں۔ خط لکھنے کے چند دن بعد پانچ صفحہ  کے اس مضمون کی فوٹو کاپی مجھے بذریعہ ڈاک دہلی میں مل گئی۔ واضح ہو کہ دہلی اور سرا ئمیر ( اعظم گڑھ) کے درمیان ۸۰۰ کیلو میٹر کا فاصلہ ہے۔

 یہ بظاہر ایک سادہ سی بات ہے۔ مگر اس میں شکر کا عظیم الشان سرمایہ موجود ہے۔ یہ انسانی ذہن کی کیسی عجیب خصوصیت ہے کہ ۵۰ سال پہلے کا واقعہ ایک سکنڈ میں اس کو یاد آجائے۔ حالانکہ مجھے یاد نہیں آتا کہ زمانہ ٔطالب علمی کے بعد دوبارہ کبھی اس کا ذکر آیا ہو ۔ پھر ڈاک کا یہ نظام انسان کے لیے   کتنی بڑی سہولت ہے۔ اگر موجودہ وسائل نہ ہوں تو مذکورہ مضمون کو حاصل کرنے کے لیے   مجھے سولہ سوکیلو میٹر کا سفر طے کرنے کی ضرورت پیش آتی ۔ اس میں غالباً  دوما ہ لگ جاتے۔ پھر فوٹو کاپی کی مشینیں کتنی بڑی نعمت ہیں جن کی وجہ سے یہ ممکن ہو گیا ہے کہ کسی چیز کا ویسا کا ویسا ہی عکس بلاتاخیرحاصل کر لیا جائے۔

یہ باتیں بظاہربالکل معمولی ہیں، مگر معمولی چیز کو غیر معمولی چیز کے روپ میں دیکھنے ہی کا نام شکر ہے۔ اگر آدمی جذبہ ٔ شکر کے ابلنے  کے لیے   انو کھے معجزہ کا انتظار کرے تو وہ کبھی بھی خدا کا شکر گزار نہیں ہو سکتا۔ کیوں کہ موجودہ دنیا میں ایسے اسباب شکر کسی کے لیے   ظاہر ہونے والے ہی نہیں۔

علامہ موسی جار اللہ ۱۹۳۸ کے وسط میں روس سے پناہ گزیں کے طور پر ہندستان آئے تھے۔ مولانا امین احسن اصلاحی کا ان کے بارے   میں مضمون الاصلاح کے شمارہ جون ۱۹۳۸ میں چھپا تھا۔ اس مضمون میں بتایا گیا تھا کہ علامہ موسی جار الله عربی، فارسی، ترکی، روسی اور فرنچ زبانیں بخوبی جانتے ہیں۔ علوم مشرقیہ کی مختلف شاخوں میں اچھی دستگاہ رکھتے ہیں۔ عالم اسلام کی اس زمانہ کی تمام سیاسی اور مذہبی سرگرمیوں کو قریب سے جانتے ہیں۔ وہ دو دن مدرستہ الاصلاح (سرائمیر، اعظم گڑھ) میں مقیم رہے۔

مولانا امین احسن اصلاحی کے مضمون کا ایک اقتباس یہ ہے :"علامہ موسیٰ جار اللہ نے مجھ سے سوال کیا کہ ہندستان میں علوم عربیہ کی تعلیم جس نہج پر ہو رہی ہے ،تمہارے خیال میں اس کا آخری انجام کیا ہونے والا ہے۔ میں نے کہا کہ عربی تعلیم، مدارس عربیہ اور ساتھ ہی مذہب کی تباہی۔ مجھے خیال تھا کہ علامہ اس کی تردید کریں گے لیکن انھوں نے اس کی حرف حرف تائید کی" ۔

 میں نے اپنی تحریری زندگی شروع کی تو میں کمیونزم کا مخالف بن چکا تھا۔ کانگرس کا ڈائمنڈ جوبلی سشن جنوری ۱۹۵۵ میں آوڈی (مدراس) میں ہوا تھا۔ اس موقع پر جو اہر لال نہرو کی تحریک پر کانگریس نے یہ تجویز منظور کی تھی کہ ہمارا مقصد ہندستان میں سوشلسٹ طرز (socialistic pattern of society)  کا سماج بنانا ہے۔ اسی زمانہ میں میں نے اس کے بارے 

میں ایک مقالہ لکھا تھا جو"ہندستان کی منزل : سوشلزم یا اسلام" کے نام سے چھپا تھا۔ اس میں دونوں نظاموں کا تقابل کرنے کے بعد آخر میں میں نے لکھا تھا:

 پنڈت نہرو نے کہا ہے کہ ہندستان کی منزل سوشلزم ہے۔

ہم کہتے ہیں : ہندستان کی منزل اسلام ہے۔

 اس کے بعد میں نے اس موضوع پر زیادہ جامع کتاب لکھی جو اپریل ۱۹۵۹ میں شائع ہوئی۔ اس کا نام تھا : ماکسزم جس کو تاریخ رد کر چکی ہے۔ اس کے جلد ہی بعد اس موضوع پر میری دوسری کتاب اگست ۱۹۵۹ میں شائع ہوئی۔ اس کا نام تھا :سوشلزم  ایک غیر اسلامی نظریہ ۔

پچھلے ۳۵ سال کے اندر اس موضوع پر میں کم از کم ایک سو مضامین اور کتابیں اردو، عربی اور انگریزی میں شائع کر چکا ہوں۔ ان تمام مضامین اور کتابوں میں ہمیشہ میں نے کمیونزم اور سوشلزم کی مخالفت کی ہے ۔ ایک زمانہ میں بہت سے اسلام پسند (مثلاً  ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی وغیرہ )سوشلزم  کی طرف مائل ہو چکے تھے اور اس کو اسلامی اصطلاحوں میں بیان کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ مگر میں ہمیشہ اس نظریہ کا مخالف رہا۔

سوویت روس کی موجودہ حکومت کا میرے جیسے ایک" مخالف "کو اپنے ملک میں بلانا کوئی سادہ واقعہ نہیں۔ یہ ایک نہایت اہم واقعہ ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جدید سیکولرزم کی وہ کون سی خصوصیت ہے جو اس کو سارے عالم پر غالب کئے ہوئے ہے۔ وہ یہی فراخ دلی اور بر داشت ہے۔ مغربی جمہوریت جس کو اب روس اختیار کر رہا ہے ، وہ موافق اور مخالف کی اصطلاحوں سے اوپر اٹھ کر لوگوں سے معاملہ کرتی ہے۔ وہ اپنے ایک مخالف کی پذیرائی کے لیے   بھی تیار رہتی ہے۔ اس کی اس صفت نے اس کو یہ طاقت دی ہے کہ وہ ساری دنیا پر غلبہ حاصل کر سکے۔

موجودہ زمانہ کے اسلامی اداروں کا حال اس معاملہ میں بالکل برعکس ہے ۔ ان کے یہاں صرف اپنے موافق کے لیے   جگہ ہے۔ جس شخص کو وہ اپنا مخالف سمجھ لیں، اس کے سایہ سے بھی وہ نفرت کرنے لگتے ہیں۔ ایک شخص اگر کسی اسلامی ادارہ کے "اکابر" پر تنقید کر دے تو اس کی تنقید خواہ کتنی ہی علمی اور مدلل کیوں نہ ہو ، اس کے بعد وہ شخص اس ادارہ کی نظر میں اتنا مبغوض ہو جائے گا کہ وہ معقول انداز میں اس کا نام بھی نہیں لے سکتے ، کجا کہ اس کو اپنے ادارہ کے کسی پروگرام میں شرکت کے لیے   بلائیں ۔موجودہ اسلامی اداروں کی یہی کمزوری ہے جس نے ان کو آج کی دنیا میں بالکل بے قیمت بنا دیا ہے۔

 اس کا مزید نقصان یہ ہے کہ یہ ادارے سطحی انسانوں کی سرائے بن کر رہ گئے ہیں۔ کم از کم پچھلے پچاس سال کی بابت میں کہہ سکتا ہوں کہ اس مدت میں غالباً کوئی ایک بھی ایسا انسان پیدا نہ ہو سکا جس کی آج کی دنیا میں کوئی اہمیت ہو۔ زندہ اور اعلیٰ انسان وہاں پیدا ہوتے ہیں جہاں کھلی تنقید اور آزادانہ اختلافِ رائے کا ماحول ہو ۔ ان اداروں میں یہ ماحول سرے سے موجودہی نہیں ، پھر وہاں اعلیٰ درجہ کے انسان کیوں کر پید اہو سکتے ہیں۔

آج اسلام کی نئی تاریخ بنانے کے لیے   مجتہدانہ صلاحیت رکھنے والے افراد درکار ہیں۔ مگر موجودہ اسلامی اداروں میں اکابر پرستی اور تقلید ِشخصی کا ماحول اتنی گہرائی کے ساتھ چھایا ہوا ہے کہ وہاں صرف تنگ نظر اور مقلد انسان ہی بن سکتے ہیں۔ ان اداروں سے مجتہدانہ اوصاف والی شخصیت کا پیدا ہو نا ممکن ہی نہیں۔ ان اداروں سے کسی اعلیٰ انسان کا ابھرنا ویسا ہی ایک عجوبہ ہو گا جیسا کسی قبرستان سے ایک زندہ انسان کا نکل آنا۔

 روس کے لیے   روانگی سے پہلے وہ لوگ" روس میں اسلام "کی بابت ایک "فلم شو "دکھانا چاہتے تھے۔ اس کے تحت ۲۱ جون ۱۹۹۰ کو پہلی بار نئی دہلی کے روسی کلچرل سنٹر کے دفتر میں جانا ہوا ۔ وہاں انھوں نے ایک مخصوص ہال میں مذکورہ ‘‘فلم  شو’’  دکھایا۔

میں سنٹر میں پہنچا تو ایک روسی افسر نے "السلام علیکم "کہہ کر استقبال کیا۔ معلوم ہوا کہ وہ مسلمان ہیں اور ان کا نام (Bolat K. Nurgaleyev) ہے ۔" فلم شو"میں تصویروں اور آوازوں کے ذریعہ روس کے مسلم علاقہ( سنٹرل ایشیاء ) کو دکھایا گیا تھا۔ ایک گھنٹہ کی فلم میں" مسلم روس" کا مکمل تعارف سامنے آگیا۔ اسلامی دور کے آثار ، موجودہ اسلامی سرگرمیاں، روسی مسلمانوں کے رہن سہن کا طریقہ ، غرض ہر چیز کامیاب تصویروں کے ذریعہ اس طرح دکھائی گئی کہ کچھ عرصہ کے لیے   محسوس ہوا کہ ہم دہلی میں نہیں ہیں۔ بلکہ سنٹرل ایشیا میں گھوم رہے ہیں اور سارے مناظر کو براہ راست اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔

 "فلم شو "کو دیکھنے کے بعد جب ہم واپس آنے کے لیے   لفٹ کے دروازہ پر پہنچے توسنٹر کے روسی ڈائر کٹر نے مسکراتے ہوئے کہا " اب تو روس جا کر دیکھنے کی ضرورت نہیں ۔ ان کے اس جملہ میں در اصل ان کا یہ احساس فخر جھلک رہا تھا کہ جو چیز آپ آئندہ روس میں جا کر دیکھیں گے ، اس کو ہم نے کا میاب "فلم شو "کی صورت میں آپ کو یہیں دکھا دیا ہے۔

 اس "فلم شو"کو دیکھنے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ یہ بھی اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ قرآن میں جنت کے بارے   میں کہا گیا کہوَأُتُواْ بِهِۦ ‌مُتَشَٰبِهٗاۖ [البقرة: 25]  اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کی چیزیں آخرت کی چیزوں کا تمثیلی تعارف ہیں۔ اسی کا ایک نمونہ یہ" فلم شو" بھی ہے۔ جدید تکنیک نے اس کو ممکن بنا دیا کہ مسلم روس کو واضح تصویروں کی صورت میں دہلی کے اندر پیشگی طور پر دیکھا جا سکے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے موجودہ دنیا کو اس طرح بنایا ہے کہ دیکھنے والی آنکھیں موت سے پہلے کی دنیا میں موت کے بعد والی دنیا کو پیشگی طور تمثیل کے روپ میں دیکھ سکتی ہیں۔

 ۲۸ جولائی ۱۹۹۰  کی شام کو روانگی ہوئی۔ دفتر سے نکل کر گاڑی پر بیٹھا تو دل سے بے اختیار یہ دعا نکلی : خدایا خیریت کے ساتھ لے جائیے اور خیریت کے ساتھ واپس لائیے۔ دنیا اور آخرت میں خیریت کامعاملہ فرمائیے۔

 دہلی میں میں ۱۹۶۷ سے ہوں ۔ یہاں کی ، مانوس سڑکوں سے گزرتے ہوئے جب میں ایئر پورٹ کی  طرف جارہا تھا تو خیال آیا کہ زندگی نام ہے مانوس راہوں میں نامانوس سفر طے کرنے کا۔ خارجی ظواہر میں اندرونی حقائق کو پالینے کا ۔جو لوگ صرف دیکھنے کو جانیں انھوں نے نہیں دیکھا۔ جولوگ ان دیکھے کو پالیں وہی در اصل وہ لوگ ہیں جن کو جاننے والا کہا جائے۔

قرآن کے مطابق ، حیاتِ دنیا کا ایک ظاہر ہے اور اس کے ساتھ حیاتِ دنیا کا ایک باطن ہے( الروم  ۷) ایک مفسر نے اس آیت کی تشریح ان الفاظ میں کی ہے کہ انھوں نے چھلکے کو جانا اور وہ مغزکو نہ جان سکے (أنهم ‌عرفوا ‌القشور، ولم يعرفوا اللباب ) (صفوة التفاسير، 2/ 434)دنیا کے دکھائی دینے والے مناظر میں اللہ تعالٰی نے نہ دکھائی دینے والی آخرت کی نشانیاں چھپادی ہیں۔ وہی لوگ حقیقتاً   آنکھ والے ہیں جنھوں نے دکھائی دینے والی دنیا میں نہ دکھائی دینے والی آخرت کا مشاہدہ کر لیا۔

مغرب اور عشاء کی نماز ایئر پورٹ پر وی آئی پی لاونج میں پڑھی۔ لاونج کے باہر دہلی کا موسم گرم تھا۔ مگر لاونج کے اندر مجھے سوئٹر پہننا پڑا۔ ایر کنڈیشننگ کے ذریعہ مصنوعی طور پر موسم کو بدل لینا بظاہر اچھی بات ہے مگر یہ سہولت آدمی کو صرف اس قیمت پر ملتی ہے کہ وہ " نیچر "سے بے تعلق ہو جائے۔ اس کو انسانی مصنوعات کی خبر ہو ،مگرخد ائی مصنوعات اس کے لیے   لا معلوم چیز بن جائیں۔

دہلی سے ایر وفلاٹ کی پرواز ۵۳۶ کے ذریعہ روانگی ہوئی۔ جہاز میں ہر چیز کا معیار یورپ کی اچھی ہوائی کمپنیوں سے کم نظر آیا۔ اشتراکی روس نے جنگی صنعت کی ترقی میں بہت زیادہ توجہ دی۔مگرانسان کے وسائل محدود ہیں۔ ایک شعبہ میں بہت زیادہ آگے بڑھنا ہمیشہ اس قیمت پر ہوتا ہے کہ آدمی دوسرے شعبوں میں پیچھے رہ جائے۔ یہی روس کے ساتھ ہوا ۔ جنگی صنعت میں تقدم کا نتیجہ اس کے لیے   غیر جنگی شعبوں میں تخلف کی صورت میں برآمد ہوا ۔ گورباچوف کا پروسترائیکا (re-structuring) روسی زندگی میں اس عدم توازن کو ختم کرنے کی ایک کوشش ہے۔

جہاز میں ایروفلاٹ کا میگزین ‘‘سوویت ایئر لائنز’’ موجو د تھا۔ ایک مضمون میں بتایا گیا تھا کہ سیکڑوں روسی ہوا بازوں میں سے پانچ کو ہیرو ازم اور ہمت (courage) کی بنا پر خصوصی انعام دیا گیا، ناموں سے اندازہ ہوا کہ ان میں سے ایک مسلمان ہوا باز تھے۔ ان کا نام میجر رشید بتایا گیا تھا۔ ان کا جہاز فضا میں سخت حالات کا شکار ہو گیا۔ مگر انھوں نے غیر معمولی محنت اور مہارت سے کام لے کر جہاز کو اور اس کے مسافروں کو بچالیا۔ مگر جب ان کا جہاز زمین پر اتر اتو ان کا حال یہ تھا کہ وہ اپنی سیٹ سے اپنے آپ نہیں اٹھ سکتے تھے۔ انھوں نے جہاز کو بچانے کے لیے   اپنی ساری طاقت خرچ کر دی تھی :

But when the plane came to a standstill he could not leave the cabin by himself. He had no strength left (p.3).

یہ جان کر خوشی ہوئی کہ مسلمان یہاں کی اعلیٰ سروسوں میں ہیں۔ مزید یہ کہ انھوں نے اپنی غیر معمولی کار کر دگی سے نمایاں درجہ حاصل کر لیا ہے۔

درمیان میں جہاز ایک گھنٹہ کے لیے   تاشقند میں رکا۔ لینڈنگ اتنی اچھی تھی کہ یہ محسوس ہی نہیں ہوا کہ کب وہ اڑ رہا تھا اور کب زمین پر اتر گیا۔ اکثر مسافر تا شقند ایر پورٹ دیکھنے کے لیے   اتر ے۔ میں بھی اترا۔ یورپی معیار کے لحاظ سے ہوائی اڈہ کم تر معیار کا تھا۔ "ٹرانزٹ پاس "سے لے کر کرسیوں اور ٹوائلٹ تک ہر چیز نسبتاً معمولی تھی۔

 ہوائی اڈہ موجودہ زمانہ میں قوموں کی ترقی کا معیار سمجھا جاتا ہے۔ اس کو دیکھتے ہوئے مجھے خیال آیا کہ روس کی موجودہ تبدیلیاں گویا فطرت انسانی کی چیخ ہیں۔ ستر برس کے ناکام تجربہ کے بعدیہاں کے انسان کی فطرت چیخ  اٹھی کہ ہم کب تک مارکس کے مصنوعی نظام کا بوجھ اپنے اوپر لادے رہیں جس نے ہمیں دنیا کی قوموں سے پیچھے کر دیا ۔

 تاشقند از بیک علاقہ کی راجدھانی ہے۔ اس کی تاریخ دوسری صدی قبل مسیح تک جاتی ہے۔ از بیک زبان میں تاشقند کے معنی "پتھر کا گاؤں" ہیں۔ مگر آج وہ ماسکو ، لینن گراڈ اور خیف کے بعد سوویت یونین کا چوتھا سب سے بڑا شہر ہے۔ عربوں نے اس شہر کو آٹھویں صدی عیسوی میں فتح کیا تھا۔ تیرھویں صدی میں اس پر منگولوں نے قبضہ کر لیا۔ مگرمنگولوں کے قبول اسلام کے بعد وہ بدستور مسلم سلطنت کا ایک جزء رہا۔ ۱۹۱۷ سے اس پر کمیونسٹ روس کا قبضہ ہے۔ سابق وزیر اعظم ہند لال بہادر شاستری نے اسی مقام پر پاکستان کے ساتھ  ۱۰ جنوری ۱۹۶۶ کر تاشقند معاہدہ  پردستخط کیے تھے جس کے اگلے دن حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے ان کا انتقال ہو گیا۔

تاشقند ہی میں قرآن کا وہ نسخہ موجود ہے جس کو مصحفِ عثمان کہا جاتا ہے۔ خلیفہ سوم عثمان رضی اللہ عنہ نے قرآن کے پانچ مکمل نسخے تیار کرائے۔ اس کے بعد مکہ ، بصرہ ، کوفہ اور دمشق میں ایک ایک نسخہ رکھوایا ، اور ایک نسخہ اپنے پاس رکھا۔

 کہا جاتا ہے کہ یہی عثمانی نسخہ پہلی صدی ہجری میں سمرقند پہنچا۔ پھر ۱۸۶۹ء میں اس کو قیصرِ روس نے حاصل کیا اور اس کو پیٹرس برگ کی سرکاری لائبریری میں محفوظ کر دیا۔ تا ہم اس سلسلہ میں دوسری روایتیں بھی ہیں۔ مثلاً کہا جاتا ہے کہ تیمور نے جب دمشق پرقبضہ کیا تو وہاں سے اس نے مصحف عثمان کو حاصل کیا اور اس کو اپنے ساتھ سمرقند لے آیا۔ امین الخولی مصری جامعہ الازہر کے استاد تھے۔ ان کی ایک عربی کتاب ہے جس کا نام ہے : الارتباطات بین النيل والفولغا۔ اس کتاب میں انھوں نے اس مسئلہ پر بحث کی ہے کہ مصحفِ عثمانی کس طرح تا شقند پہنچا۔ تاہم انھوں نے مختلف روایات کو جمع کر دیا ہے۔ کسی ایک روایت کو انھوں نے ترجیح نہیں دی۔

اس علاقہ کے مسلمان اول روز سے یہ چاہتے تھے کہ حکومت ِروس یہ مصحف ان کے حوالے کر دے۔ مگرقدیم دور میں انھیں کامیابی نہ ہو سکی۔ ۱۹۱۷ کے اشتراکی انقلاب کے بعد مسلمانوں نے دوبارہ مشورہ کیا اور ایک وفد اس سلسلہ میں لینن کے پاس بھیجا گیا۔ لینن نے مسلم وفد کی بات سننے کے بعد اس سے اتفاق کیا اور اسی وقت حکومت کے متعلقہ ذمہ دار کے نام مصحف کی واپسی کےلیے   ایک خط لکھا جس پر ۹ دسمبر ۱۹۱۷ کی تاریخ درج تھی ۔ اس خط کا عربی ترجمہ میں نے المفتی ضیاء الدین خان بن ایشان با باخان کی عربی کتاب الإسلام و المسلمون في البلاد السوفيتية ميں دیکھا ہے (صفحہ ۸۶-۸۷ )

 اس مصحف کے کچھ صفحات ضائع ہو گئے ہیں۔ موجودہ مصحف میں کل ۵۵۲ صفحات ہیں۔ ۱۹۲۳ تک وہ شہر اوفا میں تھا۔ ۱۹۲۳ میں اس کو خصوصی اہتمام کے ساتھ سمرقند لایا گیا اور شہر کی جامع مسجد خوجہ احرار میں رکھا گیا۔ ۱۹۴۳ سے وہ ایک میوزیم میں ہے جو خاص اسی کے نام پر بنایا گیا ہے۔

تاشقند اس سوویت خطہ میں واقع ہے جس کو سنٹرل ایشیا کہا جاتا ہے۔ روس کے مشہور عالم المفتی ضیاء الدین خان بن ایشان با باخان نے اپنی ۲۸۵ صفحہ کی کتاب( الاسلام والمسلمون في البلاد السوفيتیہ ) میں بتایا ہے کہ اسلام یہاں سب سے پہلے آذربائیجان اور داغستان میں پہنچا۔ یہ خلیفہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ساتویں صدی عیسوی کا واقعہ ہے۔

 اس کے بعد اسلام پورے سنٹرل ایشیا میں پھیل گیا جو اس زمانہ میں ماوراء النہر کہا جاتا تھا۔ خلفا ء بنی امیہ نے اس علاقے میں کثرت سے ایسے مسلمان بھیجے جو یہاں اسلام کی اشاعت کریں اور لوگوں کو قرآن اور عربی زبان کی تعلیم دیں۔ انھیں میں سے ایک قثم  بن عباس بن عبد المطلب بھی تھے جن کی قبر آج بھی سمرقند میں موجود ہے۔ دسویں صدی عیسوی تک اس علاقہ کے قبائل بہت بڑی تعدادمیں اسلام قبول کر چکے تھے۔

 سنٹرل ایشیا سے اسلام کی زبر دست تاریخ وابستہ ہے۔ اس علاقہ سے اسلام کی نہایت ممتاز اسلامی شخصیتیں اٹھیں ۔ مثلاً محمد بن اسماعیل البخاری ، محمود الزمخشری ، ابو نصر الفارابی، ابوعلی بن سینا، ابوعیسی الترمذی، وغیرہ۔

 ۲۹ جولائی کی صبح کو ہمارا جہاز ماسکو ائیر پورٹ پر اترا۔ لینڈنگ حیرت انگیز حد تک ‘‘اسموتھ’’تھی۔ جہاز کی خاتون اناؤنسر نے جب اعلان کیا کہ‘‘ اب آپ ماسکو میں ہیں’’۔ تو اچانک مجھے خیال آیا کہ اسی طرح ایک روز خدا کے فرشتے مجھے ایک سفر کرائیں گے اور منزل پر پہنچ کر اعلان کریں گے کہ" اب تم عالم آخرت میں ہو"۔ ماسکو بھی میرے لیے   ایک نئی دنیا ہے اور آخرت بھی میرے لیے   نئی دنیا ہوگی۔مگر دونوں میں فرق یہ ہے کہ‘‘ ماسکو ’’میرے سفر حیات کی صرف درمیانی منزل ہے، جب کہ" آخرت" میرے سفر حیات کی آخری منزل ہوگی۔ماسکو ہوائی اڈہ پر تو میرے استقبال کے لیے   حکومت کے نمائندے آئے ہوئے ہیں۔ یہاں میرے سفر کے لیے   گاڑی موجود ہے اور قیام کے لیے   ہوٹل کا کمرہ پیشگی طور پر رزرو کر دیا گیا ہے۔ مگر آخرت کی دنیا میں میرے اوپر کیا بیتے گی، اس کو احکم الحاکمین کے سوا کوئی اور نہیں جانتا۔

ماسکو کا ہوائی اڈہ تاشقند کے ہوائی اڈہ سے بہتر تھا۔ مگر جدید معیار جو جدہ ، روم، فرینکفرٹ جنیوا وغیرہ میں نظر آتا ہے ، اس کے لحاظ سے اس کو صرف دوسرے درجہ کا کہا جاسکتا ہے۔ ہوائی اڈہ کی ہر چیز اعلیٰ معیار سے کم تر تھی۔ سوویت روس نے جنگی طاقت میں امریکہ کی برابری (parity) حاصل کرلی ہے۔ مگر اس کی قیمت اس کو یہ دینی پڑی کہ وہ دوسری چیزوں میں غیر برابر ہو کر رہ گیا۔ یہ سوویت روس کو مار کسزم کا تحفہ ہے۔

ایر پورٹ سے ہوٹل کا راستہ تقریباً پون گھنٹہ کا تھا۔ مسٹرا لکسی گا لکن (Alexei Galkin) بطور گائڈ ساتھ تھے۔ ہلکی بارش ہو رہی تھی۔ فضا میں کہر بھی تھا۔ اس لیے   اطراف کے مناظر بہت زیادہ صاف نہیں دکھائی دے رہے تھے ۔ تاہم ایک چیز نمایاں تھی۔ سڑک کے دونوں طرف جو عمارتیں نظر آئیں وہ زیادہ ترکثیر منزلہ تھیں۔ اگر آپ دبئی ایئر پورٹ سے شارجہ کی طرف جائیں تو آپ کو وہاں کی بیشتر عمارتیں یک منزلہ یا دو منزلہ دکھائی دیں گی۔ یہاں کی بیشتر عمارتیں کثیر منزلہ تھیں۔ اس فرق کا سبب سمجھ میں نہیں آیا۔ شاید وہاں کے لوگ افقی ترقی (horizontal growth) پر یقین رکھتے ہیں اور یہاں کے لوگ عمودی ترقی (vertical growth) پر۔

 ماسکو میں میرا قیام جس ہوٹل میں تھا اس کا نام از مائیلوف (lzmailovo) تھا۔ یہ ۲۸ منزلہ  ہے۔ اس ہوٹل کے کمرہ نمبر ۱۰۲۹  میں مجھے ٹھہرایا گیا۔ کمرہ کافی اچھا تھا۔ تاہم اس کمرہ کی سب سے ممتاز چیز وہ تھی جس کو میں استعمال نہ کر سکا۔ اور وہ ٹی وی سیٹ تھا۔ بظاہر اس کی کوالٹی اچھی تھی۔ مگر بدقسمتی سے اس معاملہ میں میں بہت بے ذوق واقع ہوا ہوں۔ کمرہ میں ٹی وی کا خصوصی اہتمام یہاں کے نظام کی علامت تھا۔ کیوں کہ کمیونسٹ نظام کے تحت سوویت روس میں اسلحہ کی تیاری کے بعد دوسری جس چیز پر سب سے زیادہ توجہ دی گئی وہ پبلسٹی تھی۔(باقی)

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom