رکاوٹیں زینہ ہیں
26 مئی 1987 کو دہلی کے اخبارات نے اپنے پہلے صفحہ پر جو خبریں نمایاں طور پر دیں ان میں سے ایک خبر وہ تھی جو دہلی سینیر سکنڈری اسکول سرٹیفیکیٹ امتحان سے متعلق تھی :
Delhi Senior Secondary School Certificate
examination, Class XII, 1987
اس امتحان میں جن طالب علموں نے ٹاپ کیا ان میں اکثریت لڑکیوں کی ہے۔ اخبارات کے نمائندوں نے ان ٹاپ کرنے والے طلبہ اور طالبات سے ملاقات کر کے ان کا انٹرویو لیا اور اس کو با تصویر خبر کے طور پر شائع کیا ۔
ان ممتاز طالب علموں کے حالات میں ایک نہایت سبق کی بات تھی ۔ اکثر ٹاپ کرنے والوں میں مشترک طور پر یہ بات پائی گئی کہ وہ خوش حال گھرانوں سے تعلق رکھنے والے نہ تھے۔ درحقیقت ان میں سے کچھ طالب علموں کو سخت رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔ کیوں کہ غریب گھرانوں کا فرد ہونے کی وجہ سے ان کے پاس لکھنے پڑھنے کے لیے مناسب جگہ نہ تھی۔ کتا بیں بہت کم تھیں ۔ مزید یہ کہ شور و غل ان کے ذہن کو منتشر کرتا رہتا تھا۔ تاہم وہ ان عوامل کو پار کر گئے اور اپنےدل چسپی کے مضمون میں امتیازی نمبر حاصل کیا :
A common thread running the family background of most toppers is that they do not belong to affluent families. In fact, quite a few faced stiff resistance to their academic pursuits due to lack of space and books and noise disturbances. However, they overrode these factors and achieved distinction in their subjects of interest.
The Hindustan Times, New Delhi, May 26, 1987
اسباب کی فراوانی آدمی کے اندر بے فکری پیدا کرتی ہے ، اور اسباب کی کمی سے آدمی کےاندر فکر مندی کا جذبہ ابھرتا ہے۔ اسباب کی فراوانی آدمی کو بے عملی کی طرف لے جاتی ہے اور اسباب کی کمی عمل کی طرف ۔ اس اعتبار سے دیکھئے تو وہ شخص زیادہ خوش قسمت نظر آئے گا جواسباب کی کمی کے مسئلہ سے دوچار ہو ۔