منافقت
ایک لمبی حدیث ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ موت کے بعد انسان کے اوپر کیا احوال گزریں گے۔ اس سلسلے میں حدیث کا ایک جزء یہ ہے :
وَإِنْ كَانَ كَافِرًا أو منافقا فيقول له:
ما تقول في هذا الرجل؟ فَيَقُولُ: لَا أَدْرِي، سَمِعْتُ النَّاسَ يَقُولُونَ شَيْئًا، فَيَقُولُ: لَا دَرَيْتَ وَلَا تَلَيْتَ وَلَا اهْتَدَيْتَ، ثُمَّ يَفْتَحُ لَهُ بَابًا إِلَى الْجَنَّةِ، فَيَقُولُ لَهُ: هَذَا مَنْزِلُكَ لَوْ آمَنْتَ بِرَبِّكَ، فَأَمَّا إِذْ كَفَرْتَ بِهِ فَإِنَّ اللَّهَ عز وجل أَبْدَلَكَ بِهِ هَذَا، فَيُفْتَحُ لَهُ بَابًا إِلَى النار ( تفسير ابن كثير، الجزء الثانی ، صفحہ 533)
اگر مرنے والا منکر یا منافق ہے تو فرشتہ اس سے پوچھے گا کہ تم اس آدمی (پیغمبر) کے بارے میں کیا کہتے ہو۔ وہ جواب دے گا کہ میں نہیں جانتا۔ میں نے لوگوں کو سنا کہ وہ کچھ کہہ رہے تھے ۔ پھر وہ کہے گا کہ میں نے اس کو جاننے کی کوشش نہیں کی۔ نہ میں نے اس کی پیروی کی اور نہ میں نے اس سے رہنمائی حاصل کی ۔پھر اس کے لیے جنت کی طرف ایک دروازہ کھولا جائے گا۔ پھر فرشتہ اس سے کہے گا کہ یہ تمہاری جگہ تھی اگر تم اپنے رب پر ایمان لاتے ۔ مگر جب تم نے اس کا انکار کیا تو اللہ تعالٰی نے اس کے بدلے تمہیں یہ دیدیا۔ پھر اس کے لیے جہنم کی طرف ایک دروازہ کھول دیاجائے گا۔
اس حدیث میں مرنے کے بعد جس انجام کا ذکر ہے ، اس میں کافر کے ساتھ منافق کو بھی شامل کیا گیا ہے ۔ منافق کا لفظ پہلی بار مدینہ میں استعمال کیا گیا ۔ وہاں کون لوگ تھے جن کو منافق کہا گیا ۔ یہ وہ لوگ تھے جو کلمہ کا اقرار کرتے تھے۔ نماز اور دوسری عبادات پر بظاہر عمل کرتے تھے ۔ البتہ ان کے دل میں ایمان پوری طرح نہیں اترا تھا۔ وہ ان مواقع پر پیچھے رہ جاتے تھے جہاں قربانی کی قیمت پر اپنے ایمان کا ثبوت دینا ہو ۔ وہ مصلحت کی سطح پر مسلمان بنے تھے نہ کہ حقیقتاً قلبی شہادت کی سطح پر۔