ایک سفر

12 جون 1987  کو مجھے ایک اسلامی کا نفرنس میں شرکت کے لیے افریقہ کے سفر پر روانہ ہونا تھا۔اتفاق سے آج ہی ایک صاحب کا خط ملاجس میں "سفر نامہ " کے بارے میں سخت ناراضگی کا اظہا ر کیا گیا تھا۔ انھوں نے لکھا تھا کہ الرسالہ میں سفر نامہ کی اشاعت بند کر دی جائے کیوں کہ اس میں شخصی تذکرے ہوتے ہیں۔ میں نے سوچا کہ الرسالہ کا سفر نامہ تو تمام تر سبق اور معلومات سے بھرا ہوا ہوتا ہے۔ پھر کیوں بعض افراد سفرنامہ کے بارے میں مخالفانہ رائے کا اظہار کرتے ہیں۔

 یہ سوچتے ہوئے میرا ذہن سورہ بقرہ کی آیت نمبر 26  کی طرف چلا گیا۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ قرآن سے بہت سے لوگوں کو گمراہی ملتی ہے اور بہت سے لوگوں کو ہدایت ۔ میں نے سوچا سے کہ قرآن تو خدا کی کتاب ہے ، وہ پوری طرح بے عیب اور کامل ہے، پھر کیا وجہ ہے کہ اس سے بھی بہت سے لوگوں کو صرف گمراہی کا رزق حاصل ہوتا ہے۔ اس کی وجہ قرآن کی اسی آیت میں موجود ہے۔ قرآن میں مکھی کی مثال دی گئی تو کچھ لوگوں نے کہا کہ قرآن تو خدا وند عالم کی کتاب ہے ۔پھر اس میں مکھی اور مچھر جیسی چھوٹی اور معمولی چیزوں کا ذکر کیوں۔

ان لوگوں کی نظر" مکھی"اور "مچھر" کی طرف چلی گئی۔ وہ اس سبق کی طرف نہیں گئی جو مکھی اور مچھر کے تذکرے میں چھپا ہوا تھا۔ اس لیے ان کی سمجھ میں نہیں آیا کہ خدا کی کتاب میں مکھی اور مچھر کا تذکرہ کیوں ۔ یہی معاملہ الرسالہ کےسفر ناموں کا بھی ہے۔ اس میں بعض اوقات "مکھی"اور" مچھر" کے تذکرے ہوتے ہیں۔ اب جن لوگوں کی نگاہ مکھی اور مچھر پر اٹک کر رہ جائے انھیں سفر نامہ بے فائدہ معلوم ہو گا۔ مگر جن لوگوں کی نگاہ مکھی اور مچھر سے گزر کر اس کے سبق تک پہنچ جائے وہ سفر نامے میں اپنے لیے قلب ودماغ کی غذا پائیں گے۔ اور خدا کے فضل سے ہمارے قارئین میں ایسے لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔

یہ سفر براستہ ٔکراچی ہوا۔ دہلی سے پاکستان ایرویز کی فلائٹ نمبر 291  کے ذریعہ روانگی ہوئی ۔ جہاز کے اندر پاکستان کے اردو اخبارات برائے مطالعہ موجود تھے۔ ان اخبارات میں میرٹھ کے فرقہ وارانہ فساد کی خبریں تھیں۔ مگر ان کا عنوان " میرٹھ میں فرقہ وارانہ فساد" نہیں تھا۔ بلکہ ان کاعنوان حسبِ ذیل الفاظ میں قائم کیا گیا تھا :

بھارت میں مسلم کشی

بھارت میں مسلمانوں کا قتل عام

 بھارت میں مسلمانوں کے خون کی ہولی

ایک طرف اس قسم کی مبالغہ آمیز بلکہ خلافِ واقعہ خبر یں تھیں۔ دوسری طرف روز نامہ جنگ (کراچی) 12 جون 1987  کے آخری صفحہ پر مہاجر قومی موومنٹ (MQM) کے لیڈر مسٹر الطاف حسین کاایک بیان تھا جس میں دوسری باتوں کے ساتھ حسبِ ذیل الفاظ چھپے ہوئے تھے :

"پاکستان کی جو سیاسی اور مذہبی جماعتیں ہندستانی مسلمانوں کے غم میں گھل رہی ہیں، اگر انھیں واقعی ہندستان کے مظلوم مسلمانوں سے ہمدردی ہے تو وہ سڑکوں پر نکل آئیں اور اس وقت تک کے لیے دھر نا مار کر بیٹھ جائیں جب تک کہ مظلوم مسلمانوں کے لیے پاکستان کی سرحد کھولنے کا مطالبہ تسلیم نہ کرا لیں ۔ ان مذہبی اور سیاسی جماعتوں کو یہ اعلان کرنا چاہیے کہ ہم آدھا کھانا بھارت کے مظلوم مسلمانوں کو دیں گے اور انھیں یہاں رکھیں گے۔ بھارتی مسلمانوں کے لیے صرف زبانی جمع خرچ کیا جا رہا ہے"۔

بظاہر یہ دونوں بیان ایک دوسرے سے مختلف نظر آتے ہیں۔ مگر حقیقت کے اعتبار سے ان کے درمیان کوئی فرق نہیں ۔ دونوں ہی کا مقصد اپنے مدِّ مقابل کو ڈسکریڈیٹ کرنا ہے۔ یہ محض اتفاق کی بات ہے کہ ایک کا مد مقابل ہندستان کا ہندو ہے اور دوسرے کا مد مقابل خودپاکستان کا غیر مہاجر مسلمان ۔

 12  جون کی شام کو 10 بجے میں کراچی پہنچا۔ یہاں تقریباً دورات اور ایک دن قیام رہا۔ یہ قیام جناب فضل الرحمن صاحب ایم اے کے مکان پر تھا۔ وہ ایک ذہین اور صاحب مطالعہ آدمی ہیں، ان سے یہاں کے بارےمیں کافی معلومات حاصل ہوئیں۔

آجکل یہاں مہاجر اور غیر مہاجر مسئلہ زوروں پر ہے ۔ یہ مسئلہ اس سے زیادہ شدید صورت اختیار کر چکا ہے جس کو ہندستان میں "ہندو مسلم مسئلہ " کہا جاتا ہے۔ اسی تناؤ کا یہ نتیجہ ہے کہ اپریل 1985  میں جب ایک مہاجر لڑ کی بشریٰ زیدی ایک غیر مہاجر (پٹھان ) کی ٹرک سے دب کر ہلاک ہوگئی تو کراچی میں مہاجرین نے بگڑ کر پٹھانوں کو مارا اور ان کی گاڑیوں کو جلایا۔ اس کا بدلہ پٹھانوں نے سہراب گوٹ میں لیا جس کے قریب "علی گڑھ کالونی "کے چھ سو مہاجر جلا دیے گئے یا گولیوں کا نشانہ بنا دیے گئے۔ اس باہمی قتل و خون کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔

پاکستان کی تمام بڑی بڑی تحریکوں کی تہہ میں یہی مہاجر اور غیر مہاجر کا مسئلہ پایا جاتا ہے ۔ پاکستان بننے سے پہلے یہاں کی تجارتوں پر ہندو چھائے ہوئے تھے۔ ان کے جانے کے بعد یہاں زبر دست خلا پیدا ہوا ۔ اس کو مہاجرین نے بھر پور طور پر استعمال کیا۔ یہاں تک کہ وہ پاکستان کی صنعت و تجارت کے 80  فی صد حصہ پر قابض ہو گئے۔ اس کے نتیجے میں مقامی باشندوں میں محردی کا احساس پیدا ہوا۔ اس معاشی عدم توازن میں توازن پیدا کرنے کی کوشش پہلی بار جنرل ایوب خاں کے دور حکومت میں شروع ہوئی۔ مگر مہاجر طبقہ کے پاس پیسہ تھا۔ چنانچہ مہاجر سرمایہ کے اوپر ایوب خاں کے خلاف شدید تحریک شروع ہوئی ۔ ایوب خان کی بعض" کمزوریوں "کو شوشہ بناکر ان کے خلاف طوفان کھڑا کر دیا گیا۔ مولانا ابو الاعلیٰ مودودی کی نظام اسلام تحریک جو ایوب خاں کے خلاف اٹھی، اس کی تہہ میں اصلاً اسی مہاجر تحریک کا زور تھا۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ ایک مہاجر تحریک تھی نہ کہ فی الواقع کوئی اسلامی تحریک۔

اس کے بعد مسٹر بھٹو کے خلاف نظام مصطفیٰ کی تحریک بھی اصلاً مہاجر تحریک تھی۔ مسٹر بھٹو مقامی باشندوں (سندھیوں) کے نمائندہ تھے، اور اسلام پسند قیادت مہاجرین کی نمائندہ ۔ مسٹر بھٹو کے لیے "سوشلزم " کا نعرہ مفید مطلب تھا ، کیوں کہ وہ بڑے بڑے صنعتی اداروں کو نجی ملکیت سے نکالنے کا جواز فراہم کرتا تھا جن پر مہاجر طبقہ قابض تھا۔ اسی طرح دوسرے طبقہ کے لیے اسلام کا نعره مفید مطلب تھا۔ کیوں کہ وہ نجی ملکیت کو مقدس قرار دے کر ان کو ان کے مالکوں (مہاجرین) کے قبضہ میں باقی رکھنے کا جواز مہیا کرتا تھا۔ یہ اسلام کے نام پر سراسر غیر اسلامی سیاست تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے ذریعہ سے منفی نتائج (ایوب اور بھٹو کا زوال)  تو رو نما ہوئے ۔ مگر اس کے ذریعہ کوئی تعمیری مقصد حاصل نہ کیا جا سکا۔

پاکستان میں اس وقت دو مہاجر تحریکیں چل رہی ہیں۔ ایک مہاجر قومی موومنٹ MQM اور دوسری مہاجر اتحاد تحریک ۔ اول الذکر زیادہ بڑی سمجھی جاتی ہے۔13 جون 1987 کی شام کو مسٹرطارق جاوید (پیدائش  1957)سے ملاقات ہوئی۔ وہ مہاجر قومی موومنٹ کے وائس چیرمین ہیں۔

میں نے ان سے پوچھا کہ "آپ کی یہ تحریک قومی تحریک ہے یا اسلامی تحریک"۔ انھوں نےایک لمحے کے توقف کے بغیر کہا "نیشنلسٹ تحریک "۔ ہم لوگوں کو اسلام کی بنیاد پر اکٹھا نہیں کر رہے ہیں، ہم صرف مسائل کی بنیاد پر لوگوں کو اکٹھا کر رہے ہیں۔ کسی نیشنلسٹ تحریک کے لیے زمین ضروری ہےاس لیے ہم نے پانچویں صوبہ (مہاجر صوبہ ) کا نعرہ لگایا ہے"۔

مہاجر قومی موومنٹ میں مسٹر الطاف حسین کو "قائد تحریک" کی حیثیت حاصل ہے۔ مسٹرالطاف حسین کراچی یونیورسٹی میں طالب علم تھے۔ انھیں فارمیسی (بی فارما ) میں داخلہ نہیں ملا۔ الطاف حسین صاحب نے اس کو مہاجر کے ساتھ امتیاز قرار دیا ۔ انھوں نے 11  جون 1978  کو مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (APMSO) کی بنیاد ڈالی اور دھواں دھار تحریک شروع کر دی ۔ ان کا کہنا تھا کہ مہاجرین کی کوئی تنظیم نہیں۔ مہاجرین کا کوئی علاحدہ تشخص نہیں۔ ان کو ہر جگہ نظر انداز کیا جاتا ہے ۔ وغیرہ۔ اس کے بعد یونیورسٹی میں مہاجرین کے خلاف فضا  مزید خراب ہوگی۔ الطاف حسین اوران کے ساتھیوں پر ریوالور اور خنجر سے حملے کیے گئے یہاں تک کہ یہ حال ہو گیا کہ الطاف حسین صاحب کےلیے یونیورسٹی جانا نا ممکن ہو گیا۔ اب انھوں نے تعلیم چھوڑ دی اور 17  مارچ 1984  کو مہاجر قومی تحریک MQM کی بنیاد ڈالی۔

مسٹر طارق جاوید نے حالات بتاتے ہوئے کہا : "پاکستان میں زندگی کے ہر شعبہ میں مہاجرکے ساتھ امتیازی سلوک برتا جا رہا ہے۔ کراچی کے اندر کوئی ویکنسی ہوتی ہے تو اس کا اشتہاراخبار میں اس طرح دیا جاتا ہے "کراچی ، حیدر آباد اور سکر کے لوگ درخواست دینے کی زحمت نہ کریں"۔ ان الفاظ کا مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ مہاجر لوگ درخواست نہ دیں ، کیوں کہ ان تینوں شہروں کی زیادہ آبادی مہاجرین پر مشتمل ہے۔ ہر قسم کے ذمہ دارا نہ منصب پر پنجابی مسلمان بیٹھےہوئے ہیں۔ وہ پنجابی کے سوا کسی اور کو لینا نہیں چاہتے۔ کراچی پولیس کی بھرتی ہوتی ہے تو اس کا اشتہار کراچی کے اخبار میں نہیں دیا جاتا بلکہ لاہور کے اخبار میں دیا جاتا ہے تا کہ مہاجرین اس میں درخواست نہ دے سکیں۔ پاکستان ایر لائنز میں سب پنجابی بھرے ہوئے ہیں۔ حقیقت یہہے کہ پی آئی اے پنجاب انٹر نیشنل ایر لائنزہے نہ کہ پاکستان انٹرنیشنل ایر لائنز ۔ ایک پنجابی اگر ٹرافک رول کی خلاف ورزی کرے تو اس کی چالان نہیں ہوگی ۔ اور اگر کوئی مہاجر ٹریفک رول کی غلطی کر جائے تو فوراً اس کی چالان ہو جاتی ہے۔ اس وقت پاکستان میں ہمارے لیے بقا ءکا مسئلہ ہے ۔ 14دسمبر 1986  کو "علی گڑھ کالونی" اور "قصبہ کالونی " میں 6  گھنٹہ تک قتل عام ہوتا رہا۔ بچوں کو زندہ آگ میں ڈال دیا گیا۔ قریب ہی پولیس چوکی تھی ۔ چند کلو میٹر کے فاصلہ پر فوج موجود تھی۔ مگر پولیس یا فوج نے کوئی مداخلت نہیں کی ۔ یہ باقاعدہ پلاننگ سے ہوا ہے۔ پولیس والے شہری لباس میں آئے اور انھوں نے منظم طریقہ پر مہاجرین کو مارا اور جلایا "۔

مسٹر طارق انور یہ باتیں کہہ رہے تھے اور میں سوچ رہا تھا کہ یہ پاکستان کا مسلم لیڈربول رہا ہے یا ہندستان کا کوئی مسلم لیڈر ۔

 میں نے جناب فضل الرحمن صاحب سے پوچھا کہ مہاجرین کا مسئلہ ہندستان اور پاکستان دونوں جگہ پیدا ہوا۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ہندستان میں یہ مسئلہ جلد ہی ختم ہو گیا ۔ چنانچہ آج وہاں"شر نار تھی" نام کے کسی علاحدہ فرقہ کا وجود نہیں۔ اس کے برعکس پاکستان میں یہ مسئلہ آج بھی موجود ہے ۔ بلکہ وہ مزید شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ حتی ٰکہ یہاں کے مہاجرین اب اپنے لیے ایک نئی قومیت (مہاجر قوم )کو منوانا چاہتے ہیں اور ایک نیا صوبہ (مہاجر صوبہ ) بنانے کامطالبہ کر رہے ہیں۔

فضل الرحمن صاحب نے کہا کہ ہندستان کے شرر نا تھی محض پناہ لینے کے لیے ہندستان میں داخل ہوئے تھے۔ وہ اپنے آپ کو صرف پناہ گزیں سمجھتے تھے ۔ اس کے برعکس شمالی ہند کے مسلمان مہاجر یہاں آئے تو اس احساس کے ساتھ آئے کہ ہم پاکستان کے خالق ہیں۔ وہ یہاں ہیرو اور فاتح کی حیثیت سے داخل ہوئے۔

اسی فرق کا یہ نتیجہ تھا کہ ہندستان کے شرر نارتھیوں میں برتری کا کوئی جذبہ پیدا نہیں ہوا انھوں نے ہر اعتبار سے اپنے آپ کو نئے ماحول کے ساتھ ہم آہنگ کر لیا۔ اس کے برعکس یہاں کے مسلم مہاجرین میں مقامی آبادی کے مقابلے میں برتری کا احساس پایا جاتا تھا۔ جس کا اظہار بار بار مختلف شکلوں میں ہوتا رہا۔ اس کارد عمل یہ ہوا کہ یہاں کے مقامی باشندوں میں فرزندان وطن (Sons of the soil) کا نظریہ پیدا ہوا ۔ مہاجر کے لیے فخر کی بنیاد تخلیق پاکستان تھی تو مقامی باشندوں نے علاقہ کا قدیم باشندہ ہونے کو فخر کا عنوان بنا لیا۔ اس طرح مہاجر اور غیر مہاجر کی کش مکش بڑھتی چلی گئی۔

پاکستان کے مہاجرین کا مسئلہ در اصل اردو بولنے والے مسلمانوں کا مسئلہ ہے۔ اسی طرح ہندستانی مسلمانوں کا مسئلہ بھی بنیادی طور پر اردو بولنے والے مسلمانوں کا مسئلہ ہے۔ یہ اشتراک صرف زبان کا نہیں، بلکہ نفسیات کا بھی ہے۔ دونوں جگہ کا " اردو طبقہ " ایک ہی قسم کی نفسیات میں مبتلا ہے۔ فرق یہ ہے کہ پاکستان کے اردو طبقہ کی نفسیات کا اظہار پاکستانی حالات کے اعتبار سےہوا ہے اور ہندستان کے اردو طبقہ کی نفسیات کا اظہار ہندستانی حالات کے اعتبار سے۔

 پاکستان کے مہاجرین کا مسئلہ اس لیے پیدا ہوا کہ وہ وہاں کے مقامی باشندوں کے مقابلہ میں احساس برتری کا شکار تھے ۔ یہی چیز ہندستان میں بھی مسلم مسئلہ کو پیدا کرنے کا سبب بنی ہے۔ ہندستان کے جتنے مسلم لیڈر ہیں ، خواہ وہ ایک مکتب ِخیال سے تعلق رکھتے ہوں یا دوسرے مکتبِ خیال سے ، وہ سب کے سب اس بات میں مشترک ہیں کہ وہ مسلمانوں کے اندر فخر کی نفسیات پیداکرتے رہے ہیں  –––––– ہم نے اس ملک کے لوگوں پر ایک ہزار سال تک حکومت کی ہے۔ ہم نے اس ملک کے لوگوں کو تہذیب سکھائی ہے ۔ ہم نے اس ملک کو تاج محل کا حُسن اور قطب مینار کی بلندی عطا کی ۔ اس ملک کے پاس آزادی کے بعد اپنا جھنڈا لہرانے کی بھی کوئی جگہ نہ تھی ، ہم نے اس کو لال قلعہ دیا۔۔ جولوگ بھی مسلم خطیبوں اورمسلم لیڈروں کی تقریریں سنتے رہے ہیں وہ جانتے ہیں کہ ہمارے تمام قائدین ایک یا دوسرے انداز میں اسی قسم کی باتیں کرتے رہے ہیں۔ ان باتوں نے مسلمانوں کے اندر اسی طرح برتری کا احساس پیدا کیا جس طرح پاکستان کے مہاجرین میں وہاں کے مقامی باشندوں کے مقابلہ میں برتری کا احساس پیدا ہوا۔

 یہی احساس برتری ہے جس نے دونوں ملکوں کے مسلمانوں (اردو داں مسلمانوں) کے لیےمسائل پیدا کیے ہیں۔ پاکستان میں اس کا اظہار مسلمانوں اور مسلمانوں کے درمیان ہو رہا ہے اور ہندستان میں اس کا اظہار ہندؤوں اور مسلمانوں کے درمیان ہوا ہے۔ ان مسائل کا کوئی بھی حل اس کے سوا نہیں کہ دونوں ملکوں کے مسلمان اپنا یہ مزاج ختم کر یں اور حقیقت پسند بن کر رہناسیکھیں۔ اگر وہ حقیقت پسندی پر راضی نہیں ہوئے تو دونوں کے لیے بربادی کے سوا کوئی اور انجام مقدر نہیں۔

"پاکستان بنا کر ہمارے بزرگوں نے ایسی غلطی کی ہے جس کی سزا ہم اب تک بھگت رہے ہیں"  چودھری منیر جاوید ( پیدائش 1943) نے کہا۔ انھوں نے مہاجرین کے خلاف ان "مظالم" کی تفصیل بیان کی جو علی گڑھ کالونی اور قصبہ کالونی میں ان کے ساتھ کئے گئے۔ میں نے پوچھا کہ یہ معاملہ شروع کہاں سے ہوا۔ انھوں نے بتایا کہ اکتوبر 1986  میں حیدر آباد (سندھ) میں مہاجر قومی موومنٹ کا جلسہ تھا۔ اس موقع پر کراچی سے 25  ہزار آدمی گئے۔ کراچی سے جانے والی بسوں کا خرچ40 لاکھ تھا۔

مہاجر بن کا یہ قافلہ جب سہراب گوٹ (پٹھانوں کی بستی) کے پاس پہنچا تو انھوں نے پٹھانوں کے خلاف نعرے لگائے۔ اس کے بعد دونوں کے درمیان فائرنگ ہوئی ۔ پولیس کے بیان کے مطابق پہلے مہاجر کی طرف سے فائر کیا گیا۔ اس کے بعد پٹھانوں نے جواب میں گولی چلائی ۔ مہاجرین کا کہنا ہے کہ پہلے پٹھانوں کی طرف سے گولی آئی ۔ اس کے بعد مہاجرین نے فائر کیا۔ اس موقع پر ایک پولیس افسر (ارتضی حسین) کو بھی گولی لگی۔

یہ واقعہ 31  اکتوبر 1986  کا ہے ۔ اس وقت سے اب تک مہاجر اور پٹھان کے درمیان کش مکش جاری ہے ۔ دونوں طرف اشتعال ہے اور کوئی بھی چھوٹا سا واقعہ دونوں کو ایک دوسرے سے ٹکرا دیتا ہے ۔ باقاعدہ گولیاں چلتی ہیں ۔ آتش زنی کی جاتی ہے۔ ایک صاحب نے بتایا کہ اب تک دونوں طرف سے تقریباً ڈیڑھ ہزار آدمی مارے جاچکے ہیں۔

 میں نے یہاں کے ایک تعلیم یا فتہ صاحب سے کہا کہ کیسی عجیب بات ہے کہ مسلمان اور مسلمان اس طرح آپس میں لڑ رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ "یہ تو زندگی کی علامت ہے ۔ زندہ لوگ ہی آپس میں لڑتے ہیں۔ مردہ لوگ کیا لڑیں گے"۔ میں نے کہا کہ اسی قسم کا واقعہ جب ہندستان میں ہندؤوں اور مسلمانوں کے درمیان ہوتا ہے تو آپ اس کو ہندو بربریت کے خانہ میں ڈال دیتے ہیں۔ اور جب یہی واقعہ پاکستان میں ہو تو اس کو مسلمانوں کی زندگی قرار دے رہے ہیں۔

 کراچی میں کئی ایسے لوگوں سے ملاقات ہوئی جو قدیم سندھی ہیں۔ ان سے تفصیلی گفتگو ہوئی۔گل حسن تهہیم  ( پیدائش 1929) جیکب آباد کے رہنے والے ہیں۔ ان سے میں نے سندھ کے ہندؤوں کے بارےمیں پوچھا۔ انھوں نے کہا کہ "سندھ کے ہندو سندھ کے مسلمانوں سے زیادہ خوش حال ہیں"۔" ہماری بات گورنمنٹ میں کم سنی جاتی ہے اور ہندؤوں کی بات گورنمنٹ میں زیادہ سنی جاتی ہے" ۔ انھوں نے کہا "یہاں کا ہندو ہماری چھاتی پر بیٹھا ہوا ہے اور ہم اس کو چوم رہے ہیں "۔

"اس کی وجہ کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہندو لوگ مسلمانوں سے زیادہ باشعور ہیں۔ میرٹھ کےفساد کے بعد اس کے رد عمل میں مئی 1987  میں جیکب آباد وغیرہ میں مسلمانوں نے ہندؤوں کی دکانیں توڑیں۔ مندر جلائے ۔ مگر ہندؤوں نے کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا ۔ اس فساد میں ہندؤوں کا تقریباً پانچ کروڑر روپیہ کا نقصان ہوا۔ مگر جس وقت ان کی دکانوں میں آگ لگ رہی تھی وہ اپنے گھروں میں چلے گئے اور دروازہ بند کرکے بیٹھ گئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ خود مسلمانوں نے اور پولیس نے ان کی آگ بجھائی ۔وہ بڑے سیانے لوگ ہیں "۔

گل حسن تھہیم نے کہا کہ ہماری سندھی زبان میں ایک مثل ہے اور یہاں کے ہندو پوری طرح اس پر عمل کرتے ہیں۔ وہ مثل اس طرح ہے : جا تھے حاجت نا ہیں ہتھیارن جی اتے بھجن کم وریا من جو (جہاں ہتھیار کام نہ دیں وہاں بھاگ جانا ہی دانش مندی ہے)  انھوں نے بتایا کہ اس ہوشیاری کا نتیجہ ہندؤوں کو یہ ملا ہے کہ جیکب آباد کی تجارت آج ہندوؤں کے ہاتھ میں ہے۔ گورنمنٹ نے زراعت کے لیے "انٹرسٹ فری لون" کی اسکیم چلائی تو اس کا بھی زیادہ فائدہ ہندوؤں کو ملا۔

 انھوں نے بتایا کہ جیکب آباد میں تقریباً تمام رائس ملیں ہندوؤں  کی ہیں۔ ہندو اس کام کو نہایت ہوشیاری کے ساتھ کرتے ہیں۔ مثلاً وہ برائے نام کسی مسلمان کو اپنی مل میں حصہ دار بنالیں گے اور اس کے بعد اس کا نام" اسماعیل رائس مل" رکھ دیں گے۔ وغیرہ وغیرہ۔

14 جون 1987  کی دو پہر کو میں کراچی سے طرابلس پہنچا۔ یہاں میرا قیام الفندق الكبير کے کمرہ نمبر 304  میں تھا۔ ٹیلیوژن پر اعلان کی وجہ سے فوراً ہی بہت سے لوگوں کو اطلاع ہوگئی ۔ چنا نچہ شہر کے کئی لوگ اسی دن ملنے کے لیے آگئے۔ تقریباً ایک درجن عرب نوجوان بھی جمع ہو گئے۔

 عرب نوجوانوں پر عام طور پر سید قطب کے انقلابی فکر کا غلبہ ہے۔ میں نے اسی کو گفتگو کا موضوع بنایا۔ میں نے کہا کہ یہ اسلام کی سراسر غلط تفسیر ہے۔ اور اس تفسیر نے پوری نسل کو بر بادکر کے رکھ دیا ہے ۔ ان لوگوں نے اسلام کو سیاسی ٹکراؤ کے ہم معنیٰ بنا دیا ۔ جہاں جہاں یہ اسلامی سیاسی فکر بنا ، لوگ اپنے حکمرانوں کے خلاف صف آراء ہو گئے۔ اس کے نتیجے میں حکمرانوں نے انھیں کچلنے کی کوشش کی۔ اب انھوں نے یہ مشہور کرنا شروع کر دیا کہ مسلم حکمران اسلام کے دشمن ہیں۔ حالانکہ واقعہ صرف یہ تھا کہ مسلم حکمران اپنے اقتدار کوچیلنج کرنےوالوں کے دشمن تھے۔ یہ لوگ اگر غیر سیاسی انداز میں کام کرتے تو اپنے ملک کے مسلم حکمرانوں کو وہ اپنا معاون پاتے ۔ مگر سیاسی انداز میں کام کرنے کی وجہ سے ایسا نہ ہو سکا اورمسلم ملکوں کے تمام بہترین امکانات برباد ہوکر رہ گئے۔

 سیاسی قربانیوں سے عملاً قوم کو کچھ نہیں ملتا۔ البتہ سیاسی قربانی دینے والا بعد کی نسلوں کے لیے ہیرو بن جاتا ہے۔ اس انقلابی فکر کےموجودہ حاملین کا حال یہ ہے کہ وہ عملاً دوسروں کی طرح دنیا میں غرق ہو چکے ہیں۔ اب انھیں "سید قطب"  کی طرح قربانی نہیں دینا ہے ، البتہ "سید قطب "کوگلو ریفائی کر کے سیاسی اور مادی فائدہ حاصل کرنا ہے۔

اس اسلامی کانفرنس میں مجموعی طور پر تقریباً چالیس آدمی شریک تھے ۔ یہ سب کے سب اعلی ٰتعلیم یافتہ مسلمان تھے اور دنیا کے مختلف حصوں سے آئے تھے۔ ان میں اکثریت اسلامی اداروں اور اسلامی تنظیموں کے ذمہ دار حضرات کی تھی۔ تین زبانیں اظہار خیال کا ذریعہ تھیں ۔ عربی انگریزی اور فرانسیسی۔

میں مختلف ملکوں کی اسلامی کانفرنسوں میں شریک ہوا ہوں ۔ میرا احساس ہے کہ ہر جگہ لوگوں کی تقریروں کا نمایاں پہلو "دشمنان اسلام "کے حملوں پر اپنے ردعمل کا اظہار کرنا ہوتا ہے ۔ مُخَطَطَّاتٌ ضِدَّ الْإِسْلَامِ وَ الْمُسْلِمینَ ، مُحَاوَلَاتُ الْأَعْدَاءِ  ، بس اس قسم کے الفاظ ہر ایک کی زبان پر ہوتے ہیں۔ میں نے کہا کہ اغیار کے خلاف غم و غصہ کا اظہار کرنے سے زیادہ ضروری کام یہ ہے کہ ہم ان لوگوں کو اسلام کے سایۂ رحمت میں لانے کی کوشش کریں ۔ ان کا جواب یہ تھا : غیر مسلموں کو اسلام کی طرف لانا بھی ایک کام ہے ، مگر اس سے زیادہ اہم کام یہ ہے کہ مسلمانوں کو موجودہ اجنبی حملوں سے بچایا جائے  ––––––  موجودہ مسلمانوں کے فکر پر دفاعی مسائل اتنے زیادہ غالب ہیں کہ وہ دعوتی باتوں کوسمجھ نہیں پاتے۔ یہی تمام مسلم ملکوں کا حال ہے۔

 یہاں ایک صاحب سے ملاقات ہوئی جو افریقہ سے آئے تھے۔ ان کے یہاں الرسالہ انگریزی جاتا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ اس کو بہت سے لوگ نہایت دلچسپی کے ساتھ پڑھتے ہیں اور ہر ماہ اس کے منتظر رہتے ہیں۔ ایک قاری کا تاثر انھوں نے ان الفاظ میں بتایا :

قَرَأْتُ الْكَثِيرَ مِنْ الْكُتُبِ الْإِسْلَامِيَّةِ وَكَانَتْ لَدَى اسْتِفْسَارَاتٌ حَوْلَ الْإِسْلَامِ۔ فَمَا وَجَدْتُ الْأَجْوِبَةَ إلَّا بَعْدَ قِرَأَتِيْ لِمَجَلَّة الرِّسَالَة الصَّادِرَةِ مِنْ نِيُو دِلْهِيْ بِاللُّغَةِ الْإِنْجِلِيزِيَّةِ۔ (شریف سالم حسين ، ص ب 128  مارسبت ، افریقه)

         ایک اور صاحب سلیمان عمرانی کیلیمیلی سے ملاقات ہوئی ۔ وہ دار السلام (تنزانیہ )سے آئے تھے۔ انھوں نے کہا کہ ایک بار میں ایران گیا تھا۔ وہاں مجھے آپ کی کتاب الإسلام يتحدّٰى ملی ۔ اس کو میں تین بار پڑھ چکا ہوں ۔ اس کتاب پر عربی کی یہ مثل صادق آتی ہے : كُلُّ اللَّحْمِ الصَّيْدِ في جَوْفِ الفَرَا ۔ اس کتاب میں اتنی زیادہ باتیں ہیں کہ آدمی ہر بار پڑھنے میں نئی بات پاتا ہے (مَنْ يَقْرَأُ كِتَابَ الْإِسْلَام يَتَحَدَّى يَسْتَفِيدُ فِي كُلِّ مَرَّةٍ شَيْئًا جَدِيدًا۔ فَإِذَا قَرَأَ الْإِنْسَانُ فِي الْمَرَّةِ الْأُولَى وَاسْتَفَاد شَيْئًا فَفِي الْمَرَّةِ الثَّانِيَةِ يَسْتَفِيدُ شَيْئًا اخَرَ، وَهَكَذَا دَوَاليك .)

Suleimab Amrani Kilemile

P.O. Box 45257, Dar-es-Salam, Tanzania, Africa

محمد ارشد الفرحان (کویت) نے ایک بحث میں مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ ہم کو چاہیے کہ مسجدوں کو سیاست سے الگ رکھیں ۔ عرب ممالک میں لوگوں نے مساجد کے اندر سیاسی تقریریں شروع کر دیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج تمام عرب ممالک میں مساجد نماز کی ادائیگی کے فوراً بعد بند کر دی جاتی ہیں۔ حالانکہ مساجد کو ثقافتِ اسلامی کا مرکز بننا تھا مگر ان کو سیاسی مرکز بنانے کی کوشش میں مسجد کی یہ دینی حیثیت ہم سے چھن گئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہم کو چاہیے کہ ہم بقیہ ملکوں میں ان مساجد کو سیاست سے دور رکھیں تا کہ ان کے ساتھ وہ پیش نہ آئے جو عالم عرب کی مساجد کے ساتھ پیش آچکا ہے (حَتَّىٰ لَا يُصِيبُ لِهَذِهِ الْمَسَاجِدِ مَا أَصَابَ فِي الْعَالَمِ الْعَرَبِيِّ )

ویسٹ انڈیز کے ایک صاحب نے بتایا کہ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی تصویر ایک دہشت پسند انسان کی تصویر بن گئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ایک بار میری ملاقات ایک عیسائی عالم سے ہوئی۔ اس نے ان کی داڑھی اور ٹوپی کو دیکھ کر سمجھا کہ یہ مسلمان ہیں۔ اس کے بعد دونوں کے درمیان جو گفتگو ہوئی اس کا ایک حصہ یہ تھا :

Are you a Muslim?

Yes.

Then you are a terrorist.

یہاں کے دور ان قیام میں کئی بار عربوں کی مجالس کو خطاب کرنے کا موقع ملا۔ میں نے اسلام کے مختلف فکری پہلوؤں پر اظہار خیال کیا۔ ایک مجلس میں میں نے اس بات کی وضاحت کی کہ موجودہ زمانہ میں جہاد کا غلط مفہوم لے لیا گیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ مسلمان غیر ضروری طور پر دوسروں سے اور خود اپنے حکمرانوں سے ٹکراؤ کر رہے ہیں، اور اس کی وجہ سے نہایت قیمتی وسائل اور مواقع برباد ہو رہے ہیں۔

ایک مجلس میں میں نے صلح حدیبیہ کی حکمت کے بارے میں تفصیل کے ساتھ اظہار خیال کیا میری عربی اگر چہ ہندستانی عربی تھی مگر وہ لوگ بے حد غور کے ساتھ سنتے رہے۔ انھوں نے کہا کہ ہندستانی ہونے کے باوجود آپ کی زبان ہم کو پسند ہے، کیوں کہ وہ محدد اسلوب میں ہوتی ہے اور پوری طرح سمجھ میں آجاتی ہے۔ صلح حدیبیہ کی حکمت بیان کرتے ہوئے میں نے کہا :

بَعْدَمَا تَمَّ صُلْحُ الْحُدَيْبِيَةَ نَزَلَتْ سُورَةُ الْفَتْحِ وَجَاءَ فِيهَا وَيَهْدِيَكَ صِرَاطًا مُسْتَقِيمًا فَكَانَ هَذَا الصُّلْحُ كَانَ هَادِيًا أَبَدِيًّا لِكَيْفِيَّة مُعَامَلَة الْأَعْدَاء كَيْ نُحَقِّق النَّصْرَ عَلَيْهِمْ - ثُمَّ اُنْظُرْ كَيْفَ كَانَ صُلْحُ الْحُدَيْبِيَةِ - كَانَ عَلَى شُرُوطِ قُرَيْش۔ فَهَذَا الصُّلْحُ مَا حَصَلَ إلَّا بَعْدَ مَا رَضِيَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى شَرْطِ أَعْدَائِه بِطَرَفٍ وَاحِدٍ۔ وَبِتَعْبِيرٍ اخَرَ، رَضِيَ الرَّسُولُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْهَزِيمَة فَجَاءَه الفَتْحُ العَظِيمُ۔ فَهَذَا هُوَ سِرُّ النَّجَاحِ فِي هَذَا الْعَالَمِ ، وَفِي الْعَصْرِ الْحَاضِرِ نَرَى جَمَاعَاتٌ و شَخْصِیَّاتٌ كَثِيرَةٌ قَامَتْ مِنْ أَجْلِ الْإِسْلَامِ وَلَكِنَّهُمْ فَشَلُوْا فِي إدْرَاكِ النَّجَاح حَتَّى بَعْدَ مِئَاتِ السِّنِينَ - وَالسَّبَبُ وَاحِدٌ۔ فَهُمْ يُرِيدُونَ أَنْ يَتَعَامَلُوا مَعَ الْأَعْدَاءِ عَلَى شُرُوطِهِمْ فَلَمْ يَتَحَقَّقْ لَهُمْ النَّجَاحُ - وَلَوْ رَضُوا عَلَى شَرْطِ الطَّرَفِ الْاخَرِ لَتَمّ لَهُمْ النَّجَاح وَلِتَحَقُّقِ مُسْتَقْبِلٍ جَدِيدٍ لِلْإِسْلَامِ فِي هَذَا الْقَرْنِ۔  ان لوگوں نے مختلف قسم کے سوالات کئے جن کا جواب میں اپنی عربی میں دیتا رہا۔ مثلاً ایک مجلس میں ایک عرب نے سوال کیا کہ اسم اعظم کیا ہے ۔ اس کے جواب میں میں نے کہا :

إنْ الِاسْمُ الْأَعْظَمُ هُوَ بِمَعْنَى النَّعْتِ الْأَعْظَمُ أَوْ الْحَمْدُ الْأَعْظَمِ . فَهُوَ صِفَةٌ لِلْمَعْرِفَةِ لَا صِفَةٌ  لِلَّفْظِ إنْ الْإِنْسَانِ حِينَ يُدْرِكْ رَبَّهُ بِعَظَمَتِهِ وَجَلَالِهِ فَتَخْرُجُ مِنْ أَعْمَاقِ رُوحِه كَلِمَاتٌ فِيهَا أَنْوَار لِعَظَمَةِ اللَّهِ تَعَالَى ، فَذَالك هُوَ الِاسْمُ الْأَعْظَمُ - فَلَيْسَ هُنَاكَ لَفْظٌ وَاحِدٌ بِعَيْنِهِ الَّذِي هُوَ اسْمٌ أَعْظَم بِصِفَة مُطْلَقَةٍ بَلْ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنَّا لَفْظ وَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِنَّا اسْمٌ أَعْظَمٌ - فَالِاسْمُ الْأَعْظَمُ هُوَ اسْمٌ مَعْنَوِيٌّ لَا اسْمُ لَفْظِيٌّ .ایک عرب عالم نے "عبادت" کی سیاسی تشریح کی۔ انھوں نے کہا کہ عبادت کا مطلب تذلل اور خضوع نہیں بلکہ اس کا مطلب خلافت ارضی کے لیے انسان کو تیار کرنا ہے (تَهْيِئَةُ الْإِنْسَانِ و أِعْدَادُہُ لِلْخِلَافَةِ فِیْ الْأَرْضِ ) اپنے اس نقطہ ٔنظر کے حق میں انھوں نے لسانیات سے استدلال کیا۔ میں نے کہا :

الْعِلْمُ بِاللُّغَةِ الْعَرَبِيَّةِ وَحْدَهَا لَا يَكْفِي - وَأَوْضَحُ مِثَالٍ عَلَى ذَالِك أَنَّهُ يَرْوِي أَنَّ عُتْبَةَ بْنِ رَبِيعَۃَ أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَسَأَلَهُ عَنْ دِيْنِهِ - فَقَرَأَ عَلَيْهِ الرَّسُولُ جُزْءًا مِنَ الْقُرْانِ ۔ فَلَمَّا رَجَعَ إلَى قَوْمِهِ أَخْبَرَهُمْ أَنَّهُ جَاءَ مِنْ مُحَمَّدٍ وَ سَمِعَہ يَقْرَأُ الْقُرْانَ وَلَكِنْ مَا فَهِمْتُ شَيْئًا مِمَّا قَالَهُ غَيْرَ أَنَّهُ أُنْذِرُكُمْ صَاعِقَةً مِثْلَ صَاعِقَةِ عَادٍ وَثَمُودَ - قَالُوا وَيْلَك يُكَلِّمُك الرَّجُل بِالْعَرَبِيَّةِ لَا تَدْرِي مَا قَالَ - قَالَ لَا وَاَللَّهِ مَا فَهِمْتُ شَيْئًا مِمَّا قَالَ غَيْرَ ذِكْرِ الصَّاعِقَة - أَنَّ هَذَا الْعَرَبِيِّ لَمْ يَفْهَمْ الْقُرْانَ رَغْمَ أَنَّهُ كَانَ بِاللُّغَةِ الْعَرَبِيَّةِ - لِأَنَّهُ كَانَتْ عِنْدَهُ الْعَقْلِيَّة اللُّغَوِيَّةُ وَلَمْ تَكُنْ عِنْدَهُ الْعَقْلِيَّةُ الدِّينِيَّةُ فَالْعَقْلِيَّةُ اللُّغَوِيَّةُ وَحْدَهَا لَا تَكْفِي۔ اسی طرح کچھ عرب نوجوانوں کے سامنے میں نے حضرت عمر کے ایک قول کی تشریح کی جس سے انھوں نے پوری طرح اتفاق کیا ۔ وہ قول یہ ہے : لَيْسَ ‌الْعَاقِلُ ‌الَّذِي ‌يَعْرِفُ ‌الْخَيْرَ ‌مِنَ ‌الشَّرِّ ‌وَلَكِنَّهُ ‌الَّذِي ‌يَعْرِفُ ‌خَيْرَ ‌الشَّرَّيْنِ (عقل مند وہ نہیں ہے جو خیر اور شر کو جانے۔ عقلمندوہ ہے جو یہ جانے کہ دو شر میں سے خیر کون ساہے)( روضة المحبين ونزهة المشتاقين،صفحہ13.)

 میں نے کہا کہ زندگی میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ انتخاب (Choice) خیر اور شر کے درمیان نہیں ہوتا بلکہ ایک شر اور دوسرے شر کے درمیان ہوتا ہے ۔ ایسی حالت میں آدمی کو ایک کم تر شر پرراضی ہونا پڑتا ہے تاکہ وہ اس کو اختیار کر کے خیر کامل تک پہنچ سکے۔

اس کی ایک مثال حدیبیہ کا واقعہ ہے ۔ حدیبیہ کے موقع پر جو انتخاب تھا وہ عمرہ ادا کرنے اور عمرہ ادانہ کرنے کے درمیان نہیں تھا بلکہ عمرہ ادا نہ کرنے اور لڑ کر ہلاک ہو جانے کے درمیان تھا۔ آپ نے اس کو اہون سمجھا کہ وقتی طور پر عمرہ کی ادائیگی پر اصرار نہ کیا جائے تاکہ آئندہ ہمیشہ کے لیے عمرہ اور حج کی ادائیگی کا دروازہ کھل سکے۔

الاخوان المسلمون کے لیے مصر میں اور جماعت اسلامی کے لیے پاکستان میں اسی قسم کے حالات تھے۔ انھیں ابتداء ً   کم تر شر پر راضی ہونا تھا تا کہ آخر کار وہ خیر برتر تک پہنچ سکیں ۔ مگر وہ اس راز کو سمجھ نہ سکے۔ اگر وہ اس پیغمبرانہ نہج پر کام کرتے تو یقیناً آج مصر اور پاکستان کی تاریخ دوسری ہوتی۔

ایک مرتبہ میں نے اندازہ کرنا چاہا کہ عرب نوجوان اس فکر کو کتنا سمجھے ہیں۔ چنانچہ میں نے عرب نوجوانوں کی ایک جماعت سے سوال کیا:هَلْ مِنْكُمْ مَنْ يُفَسِّرُ هَذَا الْقَوْلَ : الَّذِي سَيَجْرِي عَلَى الْكَافِرِ فِي الْاخِرَةِ يَجْرِي عَلَى الْمُؤْمِنِ فِي هَذِهِ الدُّنْيَا . ( کیا آپ میں سے کوئی ہے جو میرے اس قول کی تشریح کرے ، جو کچھ کافر پر آخرت میں گزرے گا وہ مومن پر اسی دنیا میں گزر جاتا ہے) مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ انھوں نے سوال کی گہرائی کو پوری طرح سمجھ لیا اور بالکل درست طور پر اس کا جواب دیا۔

یہاں عرب نوجوانوں کی کافی بڑی تعداد ہے جو اسلامی مرکز سے بخوبی واقف ہے اور اس دینی فکر سے بہت قریب ہے جو اسلامی مرکز کے تحت سامنے لایا جا رہا ہے ۔ چند سفروں میں وہ لوگ مجھ سے زبانی طور پر اس مشن کے بارے میں سنتے رہے ہیں۔ اور اب خدا کے فضل سے وہ اس مشن سے بہت قریب آچکے ہیں۔

 ایک عرب نوجو ان جو انجنیئر ہیں، انھوں نے تاثرات بیان کرتے ہوئے اپنے اور اپنےساتھیوں کے بارےمیں یہ الفاظ کہے :

إنَّنَا نَشْعُرُ أَنَّنَا كُنَّا فِي ظَلَامٍ، لَا نَعْرِفُ أَيْن نَسِير . وَعِنْدَمَا عَرَفْنَا الْفِكْرَةَ و عَرَفْنَا صَاحِبُ هَذِهِ الْفِكْرَةِ شَعَرْنَا كَأَنَّنَا خَرَجْنَا إِلَى النُّورِ وَالْهِدَايَةِ وَكَأَنَّنَا وُلِدْنَا مِنْ جَدِيدٍ - هَذَا وَاحِدٌ فِي المِأَةِ مِنَ الشُّعُورِ الْحَقِيقِيَّ الْأَصْلِيَّ ، لِأَنَّنَا لَا نَعْرِفُ كَيْفَ نُعَبِّرُ عَنْ هَذِهِ الْحَقِيْقَۃِ الَّتِي نَجِدُهَا فِي قُلُو بِنَا۔ .

16جون 1987  کی صبح کو عرب طلبہ کی ایک جماعت میرے کمرے میں آگئی ۔ ان سے مختلف اسلامی موضوعات پر گفتگو ہوئی۔ اس گفتگو کے دوران میں نے کہا کہ سنت میں ہر قسم کی رہنمائی موجود ہے۔ مگر نقص مطالعہ کی وجہ سے ہم سنت سے رہنمائی حاصل نہیں کر پاتے۔

میں نے کہا کہ مثال کے طور پر ایک حدیث ہے۔ ‌أُمِرْتُ ‌بِقَرْيَةٍ ‌تَأْكُلُ الْقُرَى يَقُولُونَ يَثْرِبُ وَهِيَ الْمَدِينَةُ (مجھے ایک بستی کا حکم دیا گیا ہے جو تمام بستیوں کو کھا جائے گی۔ لوگ اس کو یثرب کہتے ہیں اور وہ مدینہ ہے) (موطا  امام  مالک،حدیث  نمبر 1849)آپ حدیث کی کتابیں پڑھیں تو یہ حدیث آپ کو "فضائل مدینہ" کے باب کے تحت لکھی ہوئی ملے گی۔ چنانچہ پڑھنے والا جب اس کو پڑھتا ہے تو وہ اس کو مد ینہ نامی ایک بستی کی فضیلت کے خانہ میں ڈال کر آگے بڑھ جاتا ہے۔ حالانکہ گہرائی کے ساتھ غور کیجئے تو اس حدیث میں دعوت اسلامی کا منہاج بتایا گیا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ "مکہ " میں اگر کام کے مواقع نہ مل رہے ہوں تو "مدینہ "کو اپنے کام کا مرکز بناؤ۔ کیوں کہ مدینہ کے راستہ سے تم مکہ تک بلکہ تمام بستیوں تک پہنچ سکتے ہو۔

 اس سلسلہ میں میں نے سید جمال الدین افغانی کی مثال دی ۔ جس زمانے میں وہ پیرس میں تھے اور العروۃ الوثقی کے نام سے ایک سیاسی اور احتجاجی پرچہ نکال رہے تھے، انھوں نے اپنے شاگر د مفتی محمد عبدہ سے کہا کہ یورپ کے مقابلہ میں امریکہ میں اسلامی دعوت کی کامیابی کے بہت زیادہ مواقع ہیں۔ یورپ چونکہ صلیبی لڑائیوں میں براہ راست شریک تھا، اس کے یہاں اسلام اور مسلمانوں سے نفرت پائی جاتی ہے ۔ مگر امریکی قوم اس قسم کی نفسیات سے خالی ہے۔ اس لیے امریکہ میں اگر تبلیغ کا کام کیا جائے تو ان کے اندر تیزی سے اسلام پھیلے گا۔ شیخ محمد عبدہ نے کہا کہ پھر کیوں نہ ہم موجودہ سیاسی کام چھوڑ دیں اور امریکہ جا کر دینی تبلیغ کا کام کریں۔ مگر جمال الدین افغانی کو یہ کام چھوٹا کام نظر آیا ۔ انھوں نے کہا : إنَّمَا أَنْتَ مُثَبِّطٌ . ۔

جمال الدین افغانی کے لیے امریکہ گویا" مدینہ "تھا۔ وہ امریکیوں میں دعوتی کام کر کے بالآخر غیر امریکیوں کو بھی اپنے دائرۂ اثر میں لاسکتے تھے۔ مگر انھوں نے اس راز کو نہیں سمجھا نتیجہ یہ ہوا کہ انھوں نے امریکیوں کو بھی کھویا اور غیر امریکیوں کو بھی۔

اپنے ذوق کے اعتبار سے سفر میرے لیے نہایت وحشت خیز ہوتا ہے۔ میں صرف اس لیے سفر کرتا ہوں کہ سفر کے دوران جو تجربات ہوتے ہیں ان کا حصول کسی اور طریقہ سے ممکن نہیں۔ اپنے ہوٹل کے کمرے میں میں اپنے تجربات کو اپنی یادوں کی دنیا میں سمیٹ رہا تھا اس وقت میرے ذہن میں یہ سوال آیا کہ اگر کوئی شخص مجھ سے پوچھے کہ تمہارے اس سفر کے تجربات کا آخری خلاصہ کیا ہے تو میں کیا کہوں گا ۔ یہ سوچتے ہوئے یہ فقرہ میری زبان پر آگیا –––––  کامل انسان وہ ہےجو اپنے کو غیر کامل سمجھے، جو بڑا ہونے کے باوجود اپنے آپ کو چھوٹا بنالے۔اور یہ حقیقتاً  ہو نہ کہ اظہار خاکساری کے طور پر ۔

واپسی روم کے راستہ سے ہوئی۔ الیتالیا کے جہاز کے ذریعہ 20 جون کی سہ پہر کو روم پہنچا۔ یہاں ہوائی اڈےکے پسنجر سروس پر میں نے اپنا ٹکٹ دکھایا اور معلوم کیا کہ ایر انڈیا کابورڈونگ پاس لینے کے لیے مجھے کہاں جانا چاہیے۔ کاؤنٹر پر بیٹھے ہوئے اطالوی آدمی نے کمپیوٹر پر انگلیاں ماریں اور کہا کہ "گیٹ نمبر 41 "۔ وسیع ہوائی اڈہ کے مختلف حصوں سے گزرتا ہوا میں گیٹ نمبر 41  پر پہنچا تو وہاں کاؤنٹر پر ایک خاتون بیٹھی ہوئی تھی۔ اس کو میں نے اپنا ٹکٹ دیا۔ اس نے دوبارہ کمپیوٹر پر اپنی انگلیاں ماریں اور اس کے نقوش کو دیکھ کر بتایا کہ آپ گیٹ نمبر 14  پر جائیں۔اب دوبارہ مجھے اس سرے سے اُس سرے کا سفر کرنا پڑا۔

خاتون کی اطلاع درست تھی۔ اس نے 14  کو 14  پڑھا۔ جب کہ مرد نے 14 کو 41 پڑھ لیا۔اس دنیا میں وہی رہنما سچا رہنما ہے جو 14 کو 14 پڑھے جو رہنما 14  کو 41  پڑھ لے وہ لوگوں کو بھٹکانے کے سوا کوئی اور خدمت انجام نہیں دے سکتا۔

 گیٹ 14  پر میں نے اپنا ٹکٹ دیا تو اس نے اکانومی کلاس کا بورڈنگ کارڈ دے د یا حالانکہ میرا ٹکٹ اوپر کے درجہ کا تھا۔ دریافت کرنے پر اس نے بتایا کہ اوپر کے درجہ میں آپ کا نام ویٹنگ  لسٹ میں تھا ، چوں کہ اس میں سیٹ خالی نہیں ہے اس لیے اگر آپ اس جہاز سے سفر کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو اکانومی کلاس میں جانا ہوگا۔ میں بورڈنگ پاس لے کرانتظارگاہ میں بیٹھ گیا اور یہ سوچ کر مطمئن ہو گیا کہ دونوں درجہ کے مسافر ایک ہی وقت میں منزل پر پہنچیں گے، پھر اس کے لیے پریشان ہونے کی کیا ضرورت۔

انتظار گاہ میں میرے قریب ایک اور صاحب بیٹھے ہوئے تھے۔ گفتگو کے بعد معلوم ہوا کہ وہ ایک جرمن انجینئر ہیں اور ٹکنکل تعاون کے تحت ہندستان جا رہے ہیں :

Gunter Gentzsch, Ingenieur

DDR-6530 Hermsdorf, Thur. Telefon: 510

ان سے گفتگو ہونے لگی۔ میں نے پوچھا کہ آپ خدا کو مانتے ہیں۔ انھوں نے کہا نہیں۔ میرے والدین خدا و مذہب کو مانتے ہیں، مگر میں نہیں مانتا۔ میں نے پوچھا پھر آپ کس  چیز پر عقیدہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے کہا عوام (People) پر ۔ انھوں نے کہا کہ اصل اہمیت کی چیز انسانیت ہے نہ کہ مذہب۔ اس طرح کی گفتگو دیر تک ہوتی رہی۔

اتفاق سے ان کا کیس بھی وہی تھا جو میرا تھا۔ یعنی ان کا ٹکٹ بھی اوپر کے درجہ کا تھا مگر ریزرویشن کے وقت ان کا نام ویٹنگ لسٹ میں تھا۔ چنانچہ سیٹ نہ ہونے کی بنا پر ان کو اکانومی کلاس کا بورڈنگ پاس دیا گیا تھا۔ ہم لوگ انتظار میں بیٹھے ہوئے باتیں کر رہے تھے کہ اتنے میں ایر انڈیا کا اطالوی نمائندہ آیا۔ اس نے کہا کہ اوپر کے درجہ میں صرف ایک سیٹ ہے۔ اب آپ دونوں فیصلہ کر لیں۔ میں نے کہا کہ آپ (جرمن انجینیر ) ہمارے ملک میں بطور مہمان جا رہے ہیں اس لیے ان کا حق مقدم ہے۔ مگر میرے اصرار کے باوجود وہ سیٹ لینے پر راضی نہ ہوئے۔ انھوں نے کہا کہ میں ایک "ینگ" آدمی ہوں اور آپ"اولڈ " آدمی ہیں اس لیے آپ کا حق پہلے ہے۔ آخر کار انھوں نے میرا بورڈنگ پاس بدلوا کر اس کو اوپر کے درجہ کے لیے کرا دیا۔

21 جون 1987  کی صبح کو میں واپس دہلی پہنچا۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom