ایک مثال
حضرت موسیٰ علیہ السلام کا زمانہ تیرھویں صدی قبل مسیح کا زمانہ ہے ۔ آپ کی پرورش قدیم مصر کی راجدھانی مِمفس (Memphis) میں ہوئی۔ اس زمانے میں مصر میں دو قو میں آباد تھیں۔ایک قبطی جو ملک کا اکثریتی فرقہ تھا۔ فرعون اسی فرقہ کا ایک فرد تھا جس کا خاندان اس زمانے میں مصر میں حکومت کر رہا تھا۔ دوسرا فرقہ وہ تھا جس کو بنی اسرائیل (یہود) کہا جاتا ہے ۔ یہ فرقہ نہ صرف اقلیت میں تھا بلکہ حکمراں اکثریتی فرقہ اس کو زبر دست ظلم وستم کا نشانہ بنائے ہوئے تھا۔ وہ مصر میں پست طبقہ کی حیثیت رکھتے تھے اور محنت مزدوری کے ذریعہ اپنی روزی حاصل کرتے تھے ۔ مزید یہ کہ اگر بنی اسرائیل میں کوئی نوجوان اعلیٰ صلاحیت کا نظر آتا تو فرعون (شاہ مصر) اس کو قتل کر ادیتا تا کہ وہ بنی اسرائیل کا قائد بن کر حکمراں طبقہ کے لیے کوئی مسئلہ نہ کھڑا کرے ۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام اگر چہ اسرائیلی فرقہ سے تعلق رکھتے تھے ، مگر اللہ تعالیٰ نے ایسے حالات پیدا فرمائے کہ آپ کی پرورش شاہ مصر ( فرعون )کے محل میں ہوئی ۔ جب آپ بڑے ہوئے تو آپ کو اپنی قوم (بنی اسرائیل) کا حال معلوم ہوا۔ غالباً 25 سال کی عمر تھی ۔ ایک روز آپ شہر میں نکلے تو آپ نے یہ منظر دیکھا کہ دو آدمی ایک دوسرے سے لڑرہے ہیں۔ ان میں سے ایک قبطی تھا اور دوسرا اسرائیلی ۔ اسرائیلی نے حضرت موسٰی کو اپنی قوم کا ایک فرد سمجھ کر اپنی مدد کے لیے پکارا۔ اس نے قبطی کو ظالم اور اپنے آپ کو مظلوم بتایا۔ حضرت موسٰی نے اسرائیلی کی حمایت میں قبطی کو ایک گھونسہ مارا۔ آپ کا مقصد محض قبطی کا دفاع تھا ، مگر گھونسہ ایسے مقام پر لگا کہ وہ قبطی مر گیا ۔
قبطی نے اسرائیلی کو قتل نہیں کیا تھا ، اس لیے اس کو قتل کرنا انصاف کے خلاف تھا۔ چنانچہ حضرت موسیٰ کو فورا ًاپنی لغزش کا احساس ہوا۔ آپ نے کہا کہ یہ تو ایک شیطانی کام ہو گیا۔ شیطان انسان کو بہکا کر غلط کام کرواتا ہے۔ انھوں نے اللہ تعالٰی سے معافی کی درخواست کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کی نادانستہ غلطی پر معاف کر دیا۔ (القصص : 15-16)
اس وقت آپ نے جو دعا کی اس میں آپ کی زبان سے یہ الفاظ بھی نکلے :
قَالَ رَبِّ بِمَآ اَنْعَمْتَ عَلَيَّ فَلَنْ اَكُوْنَ ظَهِيْرًا لِّلْمُجْرِمِيْنَ (القصص: 17) اے میرے رب ، جیسا تو نے مجھ پر فضل فرمایا تواب کبھی میں مجرموں کا مددگار نہ بنوں گا ۔
چنانچہ اگلے دن جب حضرت موسیٰ دوبارہ شہر کی طرف نکلے تو آپ نے دیکھا کہ وہی اسرائیلی دوبارہ ایک اور قبطی سے لڑرہا ہے۔ اس نے دوبارہ آپ کو مدد کے لیے پکارا۔ مگر اس کی بار بار کی لڑائی سے آپ نے یہ سمجھا کہ یہ شخص خود ہی غلط کا رہے اور وہ غیر ضروری طور پر دوسروں سے لڑتا رہتا ہے۔ چنانچہ آپ نے کہا کہ تم خود ایک کھلے ہوئے شریر آدمی ہو ۔ یہ اسرائیلی اگر چہ آپ کی اپنی قوم کا آدمی تھا، مگر آپ نے دوبارہ اس کی مدد نہیں کی۔ جب آپ نے اس کی مدد نہیں کی تو اس اسرائیلی نے کل کے دن کا راز کھول دیا جو ابھی تک چھپا ہوا تھا۔ اس نے شور کر دیا کہ وہ موسیٰ ہی ہیں جنھوں نے کل کے دن اسی مقام پر ایک قبطی کو گھونسا مار کر ہلاک کر دیا تھا ۔ اسرائیلی کے اس فعل نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ ایک کمینہ شخص ہے ۔ کیوں کہ ایک کمینہ شخص ہی ایسا کر سکتا ہے کہ ایک ذاتی اختلاف پیش آنے کی بنا پر کسی کے نازک راز کو عوام کے سامنے کھولنے لگے۔
جب قتل کا راز کھل گیا تو مصر کے حکمراں گروہ نے آپ کو پکڑنا چاہا تا کہ آپ سے قبطی کے قتل کا انتقام لے ۔ مگر آپ خاموشی کے ساتھ ممفس سے نکل کر مدین کی طرف روانہ ہو گئے ۔ (القصص:22)
حضرت موسیٰ علیہ السلام کا یہ واقعہ جو قرآن میں نقل کیا گیا ہے ، اس میں ہندستان کے موجودہ فرقہ وارانہ فسادات کے سلسلہ میں نہایت اہم رہنمائی ملتی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مومنانہ طریقہ یہ ہے کہ آدمی مجرم کا مدد گار نہ بنے۔
ہندستان کے موجودہ حالات یہ ہیں کہ مسلمان یہاں اقلیت میں ہیں۔ وہ مختلف پہلوؤں سے اکثریتی فرقہ کے مقابلے میں دبے ہوئے ہیں۔ اس بنا پر اکثر مسلم رہنما یہ فرض کر لیتے ہیں کہ یہاں کے فرقہ وارانہ جھگڑوں میں کبھی مسلمانوں کا قصور نہیں ہو سکتا۔ کیوں کہ کمزور فریق ہونے کی بنا پر وہ فریق ثانی سے لڑ کر جیت نہیں سکتے ۔ مگر یہ مفروضہ غلط ہے ۔ قرآن کی شہادت کے مطابق بنی اسرائیل نسبتاً زیادہ مغلوب ہونے کے باوجود مصر میں " مجرم" بن گئے۔ پھر مسلمان اس سے کمتر درجہ کی مغلوبیت کے باوجود یہاں مجرم کیوں نہیں بن سکتے۔