فرانس میں اسلام
اسلام فرانس میں تیزی سے بڑھ رہا ہے ۔ پورے ملک میں کثرت سے مسجدیں بن رہی ہیں، فرانس کے وزیر داخلہ چارلس پا سکانے اپنے عملہ کو ہدایت کی ہے کہ وہ اس نئے اور عجیب مظہر پر ایک رپورٹ تیار کر کے انھیں دیں جس کو انھوں نے "ہزار مسجدوں کا فرانس " کہا ہے۔ پندرہ سال کے اندر فرانس میں مسجدوں کی تعداد ایک درجن سے ایک ہزار تک پہنچ گئی ہے ۔
علم سیاست کے پروفیسر گلیز کپل کی ایک نئی کتاب شائع ہوئی ہے جس کا نام ہے "مضافات اسلام " اس میں انھوں نے انکشاف کیا ہے کہ اس مغربی ملک میں ایک "اسلامی فرانس" وجود میں آرہا ہے۔ اس کے مطابق ، فرانس میں مسلمانوں کی تعداد تقریباً تین ملین ہے ۔ 32 سالہ پروفیسر کپل کا کہنا ہے کہ ابھی تک یہ بات غیر واضح ہے کہ فرانس کے مسلمان ایک روز یہاں کے قومی دھارے میں ضم ہو جائیں گے یا نہیں ۔ اکثر مبصرین کا خیال ہے کہ فرانس کی سوسائٹی اور اس کا کلچر اتنا طاقتور ہے کہ مسلمان دھیرے دھیرے یہاں کی سوسائٹی میں ضم ہو جائیں گے۔ دوسرے لوگوں کا کہنا ہے کہ یہاں کے مسلمان اپنی شناخت کو محفوظ رکھیں گے اور کیتھولک ، پروٹسٹنٹ یا یہود کی طرح ایک علاحدہ فرقہ بن کر باقی رہیں گے۔
فرانسیسی مسلمانوں کی بہت بڑی اکثریت شمالی افریقہ کی سیاہ فام نسل سے تعلق رکھتی ہے جو یا تو مہاجر ہیں یا پاسپورٹ پر یہاں رہ رہے ہیں۔ کچھ ترک مسلمان ہیں۔ صرف مٹھی بھر ایسے لوگ ہیں جو اصلاً فرانسیسی ہیں اور مذہب تبدیل کر کے مسلمان بنے ہیں۔ فرانسیسی مسلمان زیادہ تر غریب طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں بہت سے ہیں جو بالکل جاہل ہیں ۔
فرانس یورپ کا اہم ترین ملک ہے ۔ فرانس جیسے ملک میں تین ملین مسلمانوں کا اجتماع انھیں مغربی دنیا میں اسلام کی دعوت و اشاعت کا زبردست موقع دے رہا ہے۔ مگر دعوتی ذہن نہ ہونے کی وجہ سے ان کی ساری توجہ صرف اس پر لگی ہوئی ہے کہ اس مغربی ملک میں وہ اپنی گروہی شناخت کو باقی رکھ سکیں ۔ دعوت و تبلیغ کا ذہن آدمی کے اندر آفاقیت پیدا کرتا ہے اور قومی شناخت کا ذہن صرف محدودیت ۔