دو نمونے
اس دنیا میں انسان کا اصل امتحان یہ ہے کہ وہ کسی صورت حال میں کس قسم کا جواب پیش کرتا ہے ۔ اس اعتبار سے انسانوں کی دو قسمیں ہو جاتی ہیں ۔ ایک صحیح جواب پیش کرنے والے ، اور دوسرے غلط جواب پیش کرنے والے ۔ صحیح جواب کیا ہے اور غلط جواب کیا۔اس سلسلے میں یہاں دور اوّل کی دو مثالیں نقل کی جاتی ہیں۔
قرآن میں مختلف طریقہ سے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے پر ابھارا گیا ہے ۔ ارشاد ہوا ہے : مَنْ ذَا الَّذِيْ يُقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا (کون ہے جو اللہ کو قرضِ حَسن دے) اس سلسلے میں ایک روایت حسبِ ذیل الفاظ میں آئی ہے :
قال سعيد بن جبير عن ابن عباس لمّا نزل قوله تعالى (مَنْ ذَا الَّذِيْ يُقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضٰعِفَهٗ لَهٗٓ اَضْعَافًا كَثِيْرَةً ) قَالُوا: قالت اليهود يَا مُحَمَّدُ ، أَفْتَقَرَ رَبُّكَ؟ فسأل عِبَادَهُ الْقَرْضَ ۔ (تفسیر ابن کثیر، الجزء الاول ، صفحہ 433)
حضرت عبداللہ بن عباس کہتے ہیں کہ جب قرآن میں یہ آیت اتری کہ کون ہے جو اللہ کو قرض حسن دے تو اللہ اس کو کئی گنا لوٹائے ، تومدینہ کے یہود نے کہا کہ اے محمد ، تمہارا رب فقیر ہو گیا ہے اس لیے اپنے بندوں سے قرض مانگ رہا ہے ۔
یہ ایک قسم کے کردار کی مثال ہے ۔ یعنی وہ مثال جب کہ آدمی بات کو صحیح رخ سے نہ لے ۔ وہ اس میں شوشہ نکال کر اس کا مذاق اڑانے لگے ۔ وہ اپنی ذمہ داریوں کو ادا نہ کرےاس کے برعکس وہ داعی کی بات میں عیب نکال کر یہ ظاہر کر ہے کہ اس کی بات اس قابل ہی نہیں کہ اس پر عمل کیا جائے ۔
اب دوسرے قسم کے کردار کی مثال لیجئے ۔ مذکورہ قرآنی آیت میں ایک شخص کو صرف استہزاء کا مواد ملا تھا۔ مگر یہی آیت جب دوسرے آدمی کے سامنے آئی تو اس پر بالکل مختلف رد عمل ہوا ۔ روایات میں آتا ہے ۔
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: {مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضَاعِفَهُ لَهُ} قَالَ أَبُو الدَّحْدَاحِ الْأَنْصَارِيُّ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَإِنَّ اللَّهَ لَيُرِيدُ مِنَّا الْقَرْضَ؟ " قَالَ: "نَعَمْ، يَا أَبَا الدَّحْدَاحِ". قَالَ أَرِنِي يَدَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ: فَنَاوَلَهُ يَدَهُ قَالَ: فَإِنِّي قَدْ أَقْرَضْتُ رَبِّي حَائِطِي-وَلَهُ حَائِطٌ فِيهِ سِتُّمِائَةِ نَخْلَةٍ، وَأُمُّ الدَّحْدَاحِ فِيهِ وَعِيَالُهَا-قال: فجاء أبو الدحداح فنادها: يَا أَمَّ الدَّحْدَاحِ. قَالَتْ: لَبَّيْكَ. فَقَالَ: اخْرُجِي، فَقَدْ أَقْرَضْتُهُ رَبِّي، عز وجل-وَفِي رِوَايَةٍ: أَنَّهَا قَالَتْ لَهُ: رَبح بَيْعُكَ يَا أَبَا الدَّحْدَاحِ. وَنَقَلَتْ مِنْهُ مَتَاعَهَا وَصِبْيَانَهَا۔ (تفسیر ابن کثیر، الجزء الرابع ، صفحہ 307)
حضرت عبد اللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ جب قرآن یہ آیت اتری : کون ہے جو اللہ کو قرض حسن دے تو وہ اس کو کئی گنا بڑھا دے ۔ اس آیت کو سن کر حضرت ابو الدحداح نے کہا کہ اے خدا کے رسول کیا اللہ ہم سے قرض چاہتا ہے۔ آپ نے فرمایا ہاں اے ابو الدحداح ۔ انھوں نے کہا کہ اے خدا کے رسول ، مجھے اپنا ہاتھ دکھائیے، راوی کہتے ہیں کہ آپ نے اپنا ہاتھ بڑھایا۔ انھوں نے کہا کہ پھر میں نے اپنا باغ اپنے رب کو قرض میں دے دیا۔ اور ان کا ایک باغ تھا جس میں چھ سو کھجور کے درخت تھے ۔ اس وقت ان کی بيوى ام الدحداح اپنے بچوں کے ساتھ اس میں تھیں۔ راوی کہتے ہیں کہ ابو الدحداح آئےاور آواز دی کہ اے ام الدحداح ۔ انھوں نے کہا کہ ہاں ۔ ابوالد حداح نے کہا کہ اس باغ سے نکلو۔ کیوں کہ وہ میں نے اپنے رب کو قرض میں دے دیا ۔ ام الدحداح نے کہا کہ اے ابو الدحداح آپ کا سودا کامیاب رہا۔ اور اپنا سامان اور بچے لے کر وہاں سے چلی آئیں ۔
قرآن کی جو آیت اوپر نقل کی گئی ہے ، وہ انھیں الفاظ کے ساتھ یہود کے سامنے آئی۔ اور ٹھیک انھیں الفاظ کے ساتھ ابوالدحداح انصاری کے سامنے آئی۔ مگر دونوں کا رد عمل ایک دوسرے سے بالکل مختلف تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی کلام کو صحیح طور پر سمجھنے اور اس کا صحیح جواب دینے کے لیے سنجیدگی ضروری ہے۔ اگر آدمی سنجیدہ نہ ہو تو وہ نہ خدا کے کلام کے ساتھ انصاف کر سکتا ہےاور نہ انسان کے کلام کے ساتھ ۔