حکمتِ تدریج
اگر یہ سوال کیا جائے کہ گھر کیا ہوتا ہے تو گھر کی پوری تصویر اس کے تمام اجزاء سمیت بیک وقت آدمی کے سامنے رکھ دی جائے گی۔ لیکن اگر سوال یہ ہو کہ گھر کیسے بنتا ہے تو جواب کی شکل دوسری ہوگی ۔ اب کہا جائے گا کہ پہلے زمین کی فراہمی ، پھر بنیاد ، اس کے بعد دیواریں ، اس کے بعد چھت وغیرہ۔ اسی طرح اگر سوال کیا جائے کہ درخت کیا ہے تو جواب دینے والا بیک وقت پورے درخت کا تعارف کرائے گا ۔ لیکن اگر سوال یہ ہو کہ درخت کیسے وجود میں آتا ہے تو جواب دینے والا دوبارہ ایک ترتیب کے ساتھ اجزاءِ درخت کا ذکر کرے گا ––––– پہلے زمین ، اس کے بعد بیج ، پھر پانی اور حفاظت ، یہاں تک کہ دھیرے دھیرے پورا درخت ۔
یہی معاملہ اسلام کا بھی ہے ۔ اگر سوال یہ ہو کہ "اسلام کے احکام کیا کیا ہیں" تو اس کا جواب یہ ہو گا کہ قرآن وحدیث میں جن احکام کا ذکر ہے ، ان سب کی فہرست تیار کر کے رکھ دی جائے لیکن اگر سوال کرنے والا یہ سوال کرے کہ "اسلام کی اشاعت کیسے کی جائے " تو جواب کی شکل بدل جائے گی ۔ اب " الاقدم فالاقدم " کے اصول پر جواب دیا جائے گا ۔ اب بتایا جائے گا کہ اسلام میں بہت سے احکام ہیں مگر اس کے کچھ اجزاء پہلے مرحلہ میں مطلوب ہیں اور کچھ اجزاء بعد کے مرحلہ میں ۔
بیان احکام میں فہرست مطلوب ہوتی ہے اور اشاعت احکام میں ترتیب ۔ ایک صورت میں تمام احکام بیک وقت بتانے ہوتے ہیں ، جب کہ دوسری صورت کا تقاضا ہوتا ہے کہ احکام کو تدریج کے ساتھ ایک کے بعد ایک سامنے لایا جائے ۔
تمام کتب فقہ" بیان احکام " کے اسلوب پر لکھی گئی ہیں ، اس لیے ان میں ایک ہی کتاب میں تمام احکام کی تفصیل دینے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ مگر دعوت و اشاعت کے مصالح اس سے الگ ہیں ۔ فقہ میں اگر فہرست بندی کی اہمیت ہے تو دعوت و اشاعت میں ترتیب و تدریج کی ۔ دعوت و اشاعت کے کام کی یہی حکمت ہے جو اس حدیث میں بیان ہوئی ہےجو صحاح ستہ کی تمام کتابوں میں مختلف طریقوں سے منقول ہوئی ہے :
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ: أَخْبَرَنَا زَكَرِيَّاءُ بْنُ إسحق، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَيْفِيٍّ، عَنْ أَبِي مَعْبَدٍ، مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ:
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم لِمُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، حِينَ بَعَثَهُ إِلَى الْيَمَنِ: (إِنَّكَ سَتَأْتِي قَوْمًا أَهْلَ كِتَابٍ، فَإِذَا جِئْتَهُمْ فَادْعُهُمْ إِلَى: أَنْ يَشْهَدُوا أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لَكَ بِذَلِكَ فَأَخْبِرْهُمْ أَنَّ اللَّهَ قَدْ فَرَضَ عَلَيْهِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِي كُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ، فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لَكَ بِذَلِكَ، فَأَخْبِرْهُمْ أَنَّ اللَّهَ قَدْ فَرَضَ عَلَيْهِمْ صَدَقَةً، تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ فَتُرَدُّ عَلَى فُقَرَائِهِمْ، فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لَكَ بِذَلِكَ، فَإِيَّاكَ وَكَرَائِمَ أَمْوَالِهِمْ، وَاتَّقِ دَعْوَةَ الْمَظْلُومِ، فَإِنَّهُ لَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ اللَّهِ حِجَابٌ "
حضرت عبد اللہ بن عباس کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب معاذ بن جبل کو یمن کی طرف بھیجا تو ان سے کہا۔ تم ایک ایسی قوم کی طرف جا رہے ہو جو اہل کتاب ہیں ۔ جب تم ان کے پاس پہنچو تو ان کو دعوت دو کہ وہ اس بات کی گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد اللہ کے رسول ہیں۔ پس اگر وہ تمہاری یہ بات مان لیں تو ان کو بتاؤ کہ اللہ نے ان کے اوپر ہر رات اور دن میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔ پس اگر وہ تمہاری یہ بات بھی مان لیں تو ان کو بتاؤ کہ اللہ نے ان کے اوپر زکاۃ فرض کی ہے جو کہ ان کے دولت مندوں سے لی جاتی ہے اور ان کے غریبوں کو لوٹا دی جاتی ہے۔ پس اگر وہ تمہاری یہ بات مان لیں تو اس سے بچو کہ تم ان کا صرف اچھا مال لو۔ اور مظلوم کی پکار سے ڈرو، کیوں کہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی حجاب نہیں ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں کہ آپ نے بیان احکام اور عملی مطالبہ میں فرق فرمایا ہے ۔ حکم بیان کرتے وقت تو آپ نے تمام ضروری احکام بیان فرمائے۔ مگر عمل کے مطالبہ کے معاملہ میں آپ نے نرمی اور رخصت کا اور ترتیب و تدریج کا لحاظ فرمایا۔
مثلاً قبیلہ ثقیف (طائف) کا وفد رمضان 9 ھ میں مدینہ آیا ۔ یہ لوگ چھ آدمی تھے۔ اور ان کے سردار عبدیالیل تھے ۔ یہ لوگ مسجد نبوی میں ٹھہرائے گئے ۔ وہ کئی دن تک قرآن کوسنتے رہے اور اسلام کے احکام و مسائل کی بابت دریافت کرتے رہے ۔
اس سلسلہ میں جو تفصیلات سیرت وحدیث کی کتابوں میں آئی ہیں ، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ احکام اسلام کو بیان کرنے کے معاملہ میں ان سے کوئی کمی نہیں کی گئی۔ تمام احکام پوری طرح سنائے جاتے رہے اور بیان کیے جاتے رہے ۔ مگر احکام کے عملی مطالبہ کے معاملہ میں ان سے حسبِ گنجائش رخصت کا اور تدریج کا طریقہ اختیار کیا گیا ۔ اس سلسلہ میں ایک روایت ان الفاظ میں آئی ہے :
قال الامام احمد حَدَّثَنَا عَفَّانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي الْعَاصِ: أَنَّ وَفْدَ ثَقِيفٍ قَدِمُوا عَلَى رَسُولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم، فَأَنْزَلَهُمُ الْمَسْجِدَ لِيَكُونَ أَرَقَّ لِقُلُوبِهِمْ، فَاشْتَرَطُوا عَلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم أَنْ لَا يُحْشَرُوا وَلَا يُعْشَرُوا وَلَا يُجَبُّوا، وَلَا يُسْتَعْمَلَ عَلَيْهِمْ غَيْرُهُمْ. قَالَ: فَقَالَ: " إِنَّ لَكُمْ أَنْ لَا تُحْشَرُوا وَلَا تُعْشَرُوا، وَلَا يُسْتَعْمَلَ عَلَيْكُمْ غَيْرُكُمْ "
وَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم: " لَا خَيْرَ فِي دِينٍ لَا رُكُوعَ فِيهِ ". (مسند أحمد،حدیث نمبر 17913)
ثقیف کا وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مدینہ آیا۔ آپ نے ان کو مسجد میں ٹھہرایا تاکہ وہاں کے ماحول سے ان کے دل نرم ہوں ۔ انھوں نے اسلام قبول کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ شرط لگائی کہ انھیں جہاد کے لیے جمع نہیں کیا جائے گا۔ اور ان سے عُشر نہیں لیا جائے گا اور ان پر ٹیکس نہیں لگایا جائے گا اور ان کے اوپر کسی غیر کو حاکم نہیں بنایا جائے گا اس کے جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا کہ تم سے جہاد میں شرکت کے لیے نہیں کہا جائے گا اور تم پر عشر نہیں لگایا جائے گا اور تمہارے اوپر کسی غیر کو حاکم نہیں بنایاجائے گا۔ اور اس دین میں کوئی خیر نہیں جس میں اللہ کے آگے جھکنا نہ ہو۔
ایک اور روایت ان الفاظ میں آئی ہے :
قال أبوداؤد : حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الصَّبَّاحِ، نَا إِسْمَاعِيلُ يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ الْكَرِيمِ ، حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ يَعْنِي: ابْنَ عَقِيلِ بْنِ مُنَبِّهٍ ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ وَهْبٍ قَالَ: سَأَلْتُ جَابِرًا عَنْ شَأْنِ ثَقِيفٍ
إِذْ بَايَعَتْ، قَالَ: اشْتَرَطَتْ عَلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم أَنْ لَا صَدَقَةَ عَلَيْهَا، وَلَا جِهَادَ، وَأَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم بَعْدَ ذَلِكَ يَقُولُ: سَيَتَصَدَّقُونَ، وَيُجَاهِدُونَ إِذَا أَسْلَمُو۔(سنن ابوداود،حدیث نمبر 3025)
وہب کہتے ہیں کہ میں نے حضرت جابر سے ثقیف کی بابت پوچھا جب کہ انھوں نے بیعت کی تھی ۔ انھوں نے کہا کہ ثقیف نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ شرط لگائی کہ ان پر زکاۃ نہ ہو گی اوران پر جہاد نہ ہوگا۔ اور یہ کہ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ شرط مان لی) اور اس کے بعد انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ جب وہ اسلام قبول کر لیں گے تو آئندہ وہ زکاۃ بھی دیں گے اور جہاد بھی کریں گے ۔
اس رخصت یا حکمتِ تدریج کے لیے کوئی ایک ہی لگا بندھا اصول مقرر نہیں کیا گیا ہے۔ اس کا تعلق زیادہ تر حالات سے ہے ۔ جن لوگوں کے ساتھ رخصت برتی جا رہی ہے ، یا جن کے ساتھ تدریج کا معاملہ کیا جا رہا ہے ۔ ان کی استعداد اور حالات کی روشنی میں اس کا فیصلہ کیا جائے گانہ کہ کسی مطلق اصول یا کسی متعین فہرست کی بنیاد پر ۔
اس نظریہ کے حق میں ایک ثبوت یہ ہے کہ ثقیف کے ساتھ صدقہ اور جہاد کے معاملہ میں رخصت کا معاملہ اختیار کیا گیا۔ مگر اسی صدقہ اور جہاد کی رخصت ایک اور شخص نے طلب کی تو اس کو اس کی رخصت نہیں دی گئی۔ یہاں ہم اس سلسلہ میں ایک واقعہ نقل کرتے ہیں ۔
عَنْ بَشِيرِ بْنِ الْخَصَاصِيَة قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِىَّ صلى الله عليه وسلم لأُبَايِعَهُ فَقُلْتُ: عَلامَ تُبَايعُنِى يَارَسُولَ الله؟ فَمَدَّ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم يَدَهُ فَقَالَ: تَشْهدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَاّ الله وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ ورسُولُهُ، وَتُصَلِّى الصَّلَوَاتِ الْخَمْسَ لِوَقْتِهَا، وَتُؤَدِّى الزَّكَاةَ الْمَفْرُوضَةَ لِوَقْتِهَا وَتصُومُ رَمَضَانَ، وَتَحُجُّ البَيْتَ، وتُجَاهِدُ فِى سَبِيلِ اللهِ، قُلتُ: يَارَسُولَ الله! كُلاّ نُطيقُ إِلَاّ اثْنَتَيْنِ فَلَا أُطِيقُهُمَا: الزَّكَاةَ واللهِ مَالِى إِلَاّ عَشْرُ ذُوْد هُنَّ رُسُلُ أهْلِى وَحَمُولَتُهُنَّ، وَأَمَّا الجِهَادُ فَإِنِّى رجُلٌ جَبَانٌ وَتَزْعُمُونَ أَنَّهُ مَنْ وَلَّى فَقَدْ بَاءَ بِغَضَبٍ مِنَ اللهِ، وَأَخَافُ إِنْ حَضَرَ القِتَالُ أَنْ أَخْشَعَ بِنَفْسِى فأَفِرَّ وأَبُوءَ بِغَضَبٍ مِنَ اللهِ، فَقَبَضَ رَسُولُ الله صلى الله عليه وسلم يَدَهُ ثُمَّ حَرّكَهَا، ثُمَّ قَالَ: يَا بَشِيرُ! لَا صَدَقَةَ، وَلَا جِهَادَ فَبِمَ إِذَنْ تَدْخُلُ الْجَنَّةَ؟ قُلْتُ: يَارَسُولَ اللهِ! ابْسُطْ يَدَكَ أُبَايِعْكَ، فَبَسَطَ يَدَهُ فَبَايَعْتُهُ عَلَيْهِنَّ كُلِّهِنَّ"( كنز العمال،حدیث نمبر 36865)
بُشیر بن خصاصیہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تا کہ بیعت کروں (اور اسلام میں داخل ہو جاؤں) میں نے کہا کہ اے خدا کے رسول ، آپ مجھ سے کس چیز پر بیعت لیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ بڑھایا اورکہا کہ تم گواہی دوکہ اللہ کے سوا کوئی معبودنہیں ، وہ اکیلا ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں ہے ۔ اور تم پانچ نمازیں ان کے وقت پر پڑھو ، اور تم فرض زکاۃ ادا کرو اور رمضان کے روزے رکھو اور بیت اللہ کاحج کرو۔ اور اللہ کے راستہ میں جہاد کرو ۔ میں نے کہا کہ اے خدا کے رسول ، میں یہ سب کر سکتا ہوں سوا دو کے ، کیوں کہ میں ان دوکی طاقت نہیں رکھتا ۔ ایک ، زکاۃ،خدا کی قسم ، میرے پاس صرف دس اونٹ اور اونٹنیاں ہیں۔ وہ میرے گھر والوں کیلیے دودھ کا ذریعہ بھی ہیں اور بار برداری کا بھی ۔ اور جہاں تک جہاد کا معاملہ ہے تو میں ایک بزدل آدمی ہوں ۔ اور لوگ کہتے ہیں کہ جو شخص جہاد کے میدان سے پیٹھ پھیرے تو وہ خدا کے غضب کا مستحق ہو جاتا ہے ۔ میں ڈرتا ہوں کہ جب جنگ کا موقع ہو تو میں ڈر جاؤں اور میدان سے بھاگ جاؤں ، پھر میں اللہ کے غضب کا مستحق بنوں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا اور اس کو حرکت دیتے ہوئے کہا کہ اے بشیر، نہ صدقہ اورنہ جہاد، پھر تم کیسے جنت میں جاؤ گے ۔ میں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول ، اپنا ہاتھ بڑھائیے میں آپ سے بیعت کرتا ہوں پھر آپ نے اپنا ہاتھ بڑھایا تو میں نے ان سب چیزوں پر آپ سے بیعت کی ۔
قرآن کے متعلق معلوم ہے کہ وہ بیک وقت ایک کامل کتاب کی صورت میں نہیں اترا، بلکہ تھوڑا تھوڑا کر کے ترتیب وار اترا۔ اسی طرح اس کے نزول میں 23 سال لگ گئے ۔ قرآن کے اس طرح نازل ہونے کا سبب کیا تھا، اس کا جواب حضرت عائشہ کی ایک روایت میں ملتا ہے جو کہ حسبِ ذیل ہے :
إِنَّمَا نَزَلَ أَوَّلَ مَا نَزَلَ مِنْهُ سُورَةٌ مِنِ الْمُفَصَّلِ، فِيهَا ذِكْرُ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ، حَتَّى إِذَا ثَابَ النَّاسُ إِلَى الْإِسْلَامِ نَزَلَ الْحَلَالُ وَالْحَرَامُ، وَلَوْ نَزَلَ أَوَّلَ شَيْءٍ: لَا تَشْرَبُوا الْخَمْرَ، لَقَالُوا: لَا نَدَعُ الْخَمْرَ أَبَدًا، وَلَوْ نَزَلَ: لَا تَزْنُوا، لَقَالُوا: لَا نَدَعُ الزِّنَا أَبَدًا، (صحیح البخاری، حدیث نمبر 4707 )
قرآن میں پہلے وہ مکی سورتیں اتریں جن میں جنت اور جہنم کا ذکر ہے۔ یہاں تک کہ جب لوگ اسلام کی طرف مائل ہو گئے تب حلال اور حرام کے احکام اتر ے ۔ اور اگر پہلے ہی یہ حکم اترتا کہ شراب نہ پیو تو یقیناً لوگ کہتے کہ ہم کبھی شراب نہ چھوڑیں گے۔ اور اگر پہلے ہی یہ حکم اترتا کہ زنانہ کرو تو یقیناً لوگ کہتے کہ ہم ہر گز زنانہ چھوڑیں گے۔
بیان احکام میں ہمیشہ فہرست مطلوب ہوتی ہے اور نفاذ احکام میں ہمیشہ ترتیب و تدریج۔