آدمی کی جانچ

موجودہ دنیا امتحان کی دنیا ہے ۔ یہاں ظاہری چیزوں کو سامنے رکھ کر اصل حقیقتوں کو پردےکے پیچھے چھپا دیا گیا ہے ۔ اب آدمی کی جانچ یہ ہے کہ وہ ظاہر سے گزر کر باطن تک پہنچ جائے ۔ وہ شہود سے بلند ہو کر غیب کو دیکھ لے ۔ وہ چھپی ہوئی حقیقتوں کو اس طرح جان لے جیسے کہ وہ اس کی آنکھوں کے سامنے کھلی ہوئی حالت میں موجود ہیں ۔ ہمارے سامنے ایک پردہ پڑا ہوا ہے۔ اور آدمی کا امتحان اس میں ہے کہ کون پر دہ کو پھاڑ کر پردہ کے دوسری طرف دیکھ لیتا ہے اور کون پر دہ کے اُس پاردیکھنے میں کامیاب نہیں ہوتا۔

آدمی کی کامیابی یہ ہے کہ وہ ظاہر میں الجھے بغیر باطن تک پہنچ جائے ––––––  ایک چیز جو بظاہر خرید کر مل رہی ہے اس کو بطور عطیہ ملنے والی چیز سمجھنا، ایک چیز جو بازار سے مل رہی ہے اس کو کائناتی خزانہ سے ملنے والی چیز سمجھنا، ایک چیز جو بظاہر انسان سے مل رہی ہے اُس کو خدا سے ملنے والی چیز سمجھنا ، اسی کا نام ایمان بالغیب ہے ۔ اور وہی شخص صاحبِ معرفت ہے جس کو ایمان بالغیب کا یہ درجہ حاصل ہو جائے ۔

جینے کی دوقسمیں ہیں۔ ایک ہے اندھا بن کر جینا ، ایک ہے آنکھ والا بن کر جینا۔ موجودہ دنیا میں یہی امتحان ہے کہ کون شخص کس طرح جیتا ہے ۔ جو شخص آج کی امتحان گاہ میں اندھا بن کر جئے  گا وہ آئندہ آنے والی مستقل دنیا میں ہمیشہ اندھا ہو کر بھٹکتا رہے گا۔ جو شخص آج کی امتحان گاہ میں بینا بن کر جئے گا وہ آئندہ کی دنیا میں آنکھوں والا ہو گا۔ دنیا کی تمام نعمتیں مزید اضافہ کے ساتھ اس کو ابدی طور پر دے دی جائیں گی ۔وَمَنْ كَانَ فِيْ هٰذِهٖٓ اَعْمٰى فَهُوَ فِي الْاٰخِرَةِ اَعْمٰى وَاَضَلُّ سَبِيْلًا(17:72)

آپ کھانے کے دستر خوان پر بیٹھے ہیں۔ آپ کے سامنے میز پر دودھ اور گوشت اور پھل رکھا ہوا ہے ۔ اب ایک شخص وہ ہے جو اس کو بس "بازار سے خریدی ہوئی چیز" سمجھ کر کھانا شروع کر دے ۔ غفلت اور بے فکری کے ساتھ کھا کر ڈکارلے اور پھر دوبارہ اپنے غفلت کے مشغلوں میں لگ جائے ۔

یہ اندھے شخص کا کھانا ہے ۔ کیوں کہ دودھ اور گوشت اور پھل "بازار سے خریدی ہوئی چیز " نہیں ، وہ قدرت کے عظیم شاہکار ہیں۔ ساری کائنات کے ناقابل بیان عمل کے بعد یہ ممکن ہوا ہے کہ زمین پر دودھ اور پھل اور گوشت موجود ہو اور انسان اس کو کھا کر بھوک مٹائے اور قوت اور زندگی حاصل کرے ۔

 دوسرا شخص وہ ہے کہ جب اس کے سامنے دودھ اور گوشت اور پھل آیا تو اس کو دیکھتے ہی اس کے ذہن نے سوچنا شروع کیا۔ اچانک اس پر منکشف ہوا کہ یہ قدرت کے کارخانہ کی مصنوعات ہیں۔ خدا کی زندہ فیکٹری (گائے بھینس ) گھاس چرتی ہے اور اس کو دودھ اور گوشت میں تبدیل کرتی ہے ۔ درخت زمین سے اور فضا سے مٹی اور پانی اور گیسیں لیتا ہے اور اس کو پھول اور پھل میں تبدیل کرتا ہے۔ پھر اور آگے بڑھ کر جب وہ سوچتا ہے کہ ان فیکٹریوں کا قیام کیسے ممکن ہوا تو اس کے سامنے پوری کائنات کا نظام آجاتا ہے۔ اس کو دکھائی دیتا ہے کہ ایک لا محدود کائنات کھرب ہا کھرب سال تک گردش کرتی رہی تب موجودہ دنیا کا نظام قائم ہوا۔ موجودہ دنیا اپنی تمام وسعتوں کو لیے ہوئے کامل ہم آہنگی کے ساتھ مساعدت کرتی ہے اس کے بعد یہ ممکن ہوتا ہے کہ کوئی درخت پھل دے اور کوئی جانور دودھ اور گوشت تیار کرے ۔

 یہ سب سوچ کر اس کے اندر ایک عجیب تھر تھراہٹ پیدا ہوتی ہے ۔ اس کے بعد جب وہ دودھ یا گوشت یا پھل اپنے منھ میں ڈالتا ہے تو اس کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خدا کی ایک بے پایاں نعمت کو اپنے منھ میں ڈال رہا ہے ۔

 ظاہر ہے کہ ان دونوں آدمیوں کا کھانا ایک نہیں ، اس لیے دونوں آدمیوں کا انجام بھی ایک نہیں ۔ جس طرح پتھر کھانے والے کا انجام اور پھل کھانے والے کا انجام ایک نہیں ہو سکتا ۔ اسی طرح ان دو آدمیوں کا انجام بھی ایک نہیں ہو سکتا جن میں سے ایک نے اندھے پن کے ساتھ کھایا ہو اور دوسرے نے آنکھ والا بن کر کھایا ہو۔قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْاَعْمٰى وَالْبَصِيْرُ ڏ اَمْ هَلْ تَسْتَوِي الظُّلُمٰتُ وَالنُّوْرُ (الرعد: 16)

اندھوں کے لیے دوزخ ہے اور آنکھ والوں کے لیے جنت ۔ آدمی نے جو چیز دنیا میں پائی ہے وہی وہ آخرت میں بھی پائے گا، نہ اس سے زیادہ اور نہ اس سے کم ۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom