قیمتی چیز
اخرج البخاري في التاريخ الصغير عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخطاب قَالَ لأَصْحَابه تمنوا فَقَالَ أحد أَتَمَنَّى أَنْ يَكُونَ مِلْءُ هَذَا الْبَيْتِ دَرَاهِمَ فأنفقها فِي سَبِيل الله فَقَالَ تَمَنَّوْا قَالَ آخَرُ أَتَمَنَّى أَنْ يَكُونَ مِلْءُ هَذَا الْبَيْت ذَهَبا فأنفقها فِي سَبِيلِ اللَّهِ قَالَ تَمَنَّوْا قَالَ آخَرُ أَتَمَنَّى أَنْ يَكُونَ مِلْءُ هَذَا الْبَيْتِ جَوْهَرًا أَوْ نَحْوَهُ فَأُنْفِقَهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَقَالَ عمر تمنوا فَقَالُوا مَا تَمَنَّيْنَا بَعْدَ هَذَا قَالَ عُمَرُ لَكِنِّي أَتَمَنَّى أَنْ يَكُونَ مِلْءُ هَذَا الْبَيْتِ رِجَالا مِثْلَ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ الْجَرَّاحِ وَمُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ وَحُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ فَأَسْتَعْمِلَهُمْ فِي طَاعَةِ اللَّهِ۔( التاريخ الأوسط،البخاري،1/ 54)
زید بن اسلم اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنے اصحاب سے کہا کہ تم لوگ اپنی تمنا بیان کرو۔ ان میں سے ایک شخص نے کہا کہ میری تمنا ہے کہ یہ گھر درہم سے بھرا ہوا ہوتا تو میں ان کو اللہ کے راستے میں خرچ کرتا ۔ حضرت عمر نے کہا کہ اور تمنا کرو۔ دوسرے شخص نے کہا کہ میری تمنا ہے کہ اس گھر کے برابر سونا ہوتا تو میں اس کو اللہ کے راستہ میں خرچ کرتا۔ حضرت عمر نے کہا کہ اور تمنا کرو۔ ایک اور شخص نے کہا کہ میری تمنا ہے کہ اس گھرکے برابر جواہرات ہوتے تومیں ان كو اللہ کے راستہ میں خرچ کرتا ۔ حضرت عمرنے کہا کہ اور تمنا کرو ۔ لوگوں نے کہا کہ اس کے بعد ہماری کوئی تمنّا نہیں ۔ حضرت عمر نے کہا : مگر میں یہ تمنا کرتا ہوں کہ یہ گھر ابو عبیدہ بن جراح اور معاذ بن جبل اور حذیفہ بن یمان جیسےآدمیوں سے بھرا ہوتا اور ان کو میں اللہ کی اطاعت میں استعمال کرتا ۔
کام کا ایک آدمی اس دنیا کا سب سے زیادہ قیمتی سرمایہ ہے۔ وہ آدمی جس کی ایک رائے ہو مگر وہ اپنی رائے پر اصرار نہ کرے۔ جو اپنے خلاف تنقید کو بھی اسی طرح سنے جس طرح وہ اپنی تعریف کو سنتا ہے۔ جو اصول سے انحراف کا تحمل نہ کر سکے ، جو اختلاف کے باوجود متحد ہونا جانتا ہو۔