توہینِ رسول
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذو القعدہ 6 ھ میں مدینہ سے مکہ کے لیے روانہ ہوئے تاکہ وہاں پہنچ کر عمرہ کریں۔ آپ کے ساتھ تقریباً ڈیڑھ ہزار صحابہ بھی تھے۔ آپ مکہ کے قریب حدیبیہ کے مقام پر پہنچے تو معلوم ہوا کہ مکہ کے لوگ ، جو اس وقت مشرک تھے ، انھوں نے طے کیا ہے کہ آپ کو مکہ میں داخل نہ ہونے دیں ۔ آپ حدیبیہ میں ٹھہر گئے ۔
اس کے بعد اہل مکہ سے بات چیت شروع ہوئی۔ اس دوران اہل مکہ طرح طرح کی اشتعال انگیزی کرتے رہے۔ مگر آپ قطعاً اس سے مشتعل نہیں ہوئے اور صبر و برداشت کے ساتھ ان سے بات چیت جاری رکھی۔ آخر کار دونوں کے درمیان ایک معاہدہ ہوا ۔ یہ معاہدہ بھی تقریباً ایک طرفہ تھا۔ اس میں بظاہر وہ تمام باتیں مان لی گئی تھیں جن کا مطالبہ اس وقت اہل مکہ کر رہے تھے ۔ اس معاہدہ کے تحت آپ کو پابند کیا گیا تھا کہ : آپ مکہ میں داخل نہ ہوں اور اس سال عمرہ کیے بغیر واپس چلے جائیں ۔ مکہ کا کوئی آدمی مسلمان ہو کر مدینہ جائے تو اس کو دوبارہ مکہ واپس کر دیں۔ معاہدہ میں "محمد رسول اللہ " کا لفظ مٹائیں اور اس کے بجائے محمد بن عبد اللہ کا لفظ لکھیں ۔وغیرہ ۔
اب ایک صورت یہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سوچتے کہ اہل مکہ کی ان باتوں کو ہرگزنہیں ماننا ہے ۔ کیوں کہ اس وقت اگر ان کی بات مان لی گئی تو آئندہ وہ اور زیادہ جری ہو جائیں گے ۔ آج عمرہ کے لیے روک رہے ہیں ، کل حج کے لیے روکیں گے ۔ آج مکہ میں داخل ہونے پر پابندی لگا رہے ہیں ، کل مدینہ میں داخلہ پر پابندی لگائیں گے ۔ آج نئے مسلمانوں کو واپس کرنے کے لیے کہہ رہے ہیں، کل پرانے مسلمانوں کو واپس کرنے کے لیے کہیں گے ۔ آج رسول اللہ کا لفظ مٹانے کے لیے کہہ رہے ہیں، کل خدا کا لفظ مٹانے کا مطالبہ شروع کر دیں گے۔ وغیرہ، وغیرہ۔
مگر اہل مکہ کی ہٹ دھرمی کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح نہیں سوچا۔ آپ نے اس قسم کے تمام اندیشوں کو شیطانی وسوسہ قرار دیتے ہوئے انھیں بالکل نظر انداز کر دیا۔ اور اہل مکہ کی تمام شرطوں کو مان کر مدینہ واپس چلے آئے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ آپ کی یہ "واپسی "عظیم "اقدام "کے ہم معنی ٰبن گئی۔ اس کے بعد اللہ کی مدد آئی اور صرف 2 سال کے اندر مکہ بھی آپ کے قبضےمیں آگیااور مکہ والے بھی ۔
موجودہ زمانے میں بھی مسلمانوں کے سامنے اس قسم کے معاملات پیش آرہے ہیں۔ غیر مسلم طبقہ کی طرف سے بعض اوقات ایسے مطالبے کیے جاتے ہیں جو مذکورہ بالا مطالبات کے مشابہ ہیں۔ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ اپنی سنت کی زبان میں مسلمانوں سے کہہ رہے ہیں کہ میں تمہارے لیے خدائی نمونہ ہوں ۔ تم وہی کرو جو میں نے کیا۔ مگر مسلم ہر بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس کہنے کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ وہ جھوٹے لیڈروں کے کہنے پر چل رہے ہیں نہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کہنے پر ۔
جب بھی مذکورہ نوعیت کا کوئی معاملہ پیش آتا ہے تو نام نہاد لیڈر مسلمانوں سے کہتے ہیں کہ دیکھو، ذرا بھی نرم نہ پڑنا۔ اگر تم نرم پڑے تو اغیار اور زیادہ کڑے ہو جائیں گے۔ دیکھو ، ذرا بھی ان لوگوں کے ساتھ رعایت نہ کرنا ۔ اگر تم نے رعایت کا معاملہ کیا تو وہ اور زیادہ دلیر ہو جائیں گے اور تمہارے ساتھ مزید سختی کا معاملہ کریں گے۔ ایسے مواقع پر مسلمان اپنے رسول کی سنت کو چھوڑ دیتے ہیں اور اپنےلیڈروں کے کہے کی طرف دوڑ پڑتے ہیں۔
یہ بلا شبہ سب سے بڑی تو ہینِ رسول ہے۔ جب ایک طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے پکار رہے ہوں ، اور دوسری طرف جھوٹے لیڈر اپنی جھوٹی آوازیں لگا رہے ہوں ، ایسی حالت میں خدا کے رسول کی شان میں اس سے بڑی گستاخی اور کیا ہو سکتی ہے کہ مسلمان خدا کے رسول کی پکار کو نظر انداز کر دیں اور لیڈروں کی پکار کی طرف دوڑ پڑیں ۔
یہ تو ہینِ رسول کا سب سے زیادہ بڑا واقعہ ہے جو آج خدا کی زمین پر پیش آرہا ہے۔ اور اس توہینِ رسول کا ارتکاب کرنے والے وہ لوگ ہیں جو دوسروں کو توہینِ رسول سے روکنے کا جھنڈااٹھائے ہوئے ہیں۔
مسلمانوں کو جاننا چاہیے کہ موجودہ حالت میں ان کا یہ فعل غفلت پر سر کشی کا اضافہ ہے۔ اور جو لوگ غفلت پر سرکشی کا اضافہ کریں وہ اللہ کے نزدیک صرف اپنے جرم کو بڑھاتے ہیں ، وہ کسی درجہ میں بھی اس کو کم نہیں کرتے ۔