بھونچال

زمین اچانک کا نپنے لگی ۔ مکانات ہلنے لگے۔ چار پائیاں جھولے کی طرح جھولنے لگیں ۔ سوئے ہوئے لوگ اپنے بستروں پر جاگ اٹھے۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ زمین کی گڑ گڑاہٹ اور انسانوں کی چیخ پکار نے ماحول کو آخری حد تک خوفناک بنا دیا ۔ موت بالکل آنکھوں کے سامنے دکھائی دینے لگی۔ اس وقت کسی کو دوسرے کا ہوش نہ تھا ۔ ہر آدمی اپنا گھر چھوڑ کر باہر کی طرف بھاگ رہا تھا۔ بڑی بڑی کوٹھیوں میں رہنے والے دولت مند افراد اور جھونپڑیوں میں زندگی گزارنے والے غریب مزدور، سب یکساں انداز میں ننگے پاؤں حیران و پریشان حالت میں کھلے میدان میں جمع ہو گئے ۔ حواس باختہ اوردہشت زدہ چہرے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے مگر کچھ بول نہ سکتے تھے ۔

یہ 21 اگست 1988 کا زلزلہ تھا جو صبح چار بج کر 40  منٹ پر آیا اور تقریباً ایک منٹ تک باقی رہا۔ اس کا مرکز دربھنگہ (بہار) تھا اور اس کے شدید جھٹکے نیپال اور آسام تک محسوس کیے گئے ۔ بڑے رقبہ میں مکانات تاش کے پتوں کی طرح گر پڑے ۔ شہر اجڑ گئے ۔ دریا ابل پڑے اور بلندیاں زمین میں دھنس گئیں۔ تقریباً ایک ہزار افراد ہلاک ہو گئے دس ہزار سے زیادہ آدمی زخمی ہوئے ۔ مکانات کی تباہی کی کوئی گنتی نہیں۔ زلزلہ کے دو ہفتہ بعد بھی دہشت کا یہ عالم تھا کہ نیپال کی راجدھانی کٹھمنڈو کے لوگ دوبارہ شہر میں جانے کے لیے تیار نہ تھے ۔ ہزاروں افراد شدید بارش کے باوجود خیموں میں راتیں بسر کر رہے تھے مگر زلزلہ سےٹوٹی ہوئی عمارتوں میں دوبارہ داخل ہونا انھیں منظور نہ تھا۔ لوگ اپنے گھروں کو خود ہی چھوڑ رہے تھے۔ اپنی جائدادوں کو اس طرح دیکھ رہے تھے جیسے وہ ان کی محبوب جائدا دیں نہ ہوں بلکہ ڈراؤنے بھوت ہوں جو انھیں کھا جانا چاہتی ہوں ۔

زلزلے عذاب نہیں ، زلزلے تنبیہ ہیں۔ وہ قیامت کے اس آنے والے عذاب کو یاد دلاتے ہیں جس کے مقابلےمیں انسان مکمل طور پر بے بس ہو گا اور جب خدا کی پکڑ سے اپنے آپ کو بچانا کسی کے لیے ممکن نہ ہو گا۔ ایک عام آدمی جب زلزلہ میں مبتلا ہوتا ہے تو وہ سوچتا ہے کہ زلزلے کیوں آتے ہیں۔ مگر سائنس داں اس کے برعکس یہ سوچتا ہے کہ زلزلے کیوں نہیں آتے ۔ کیوں کہ ہماری زمین کی بناوٹ اس ڈھنگ کی ہے کہ اس کو ہر وقت ہلنا چاہیے یا کم از کم بار بار اس کو بھونچال سے دوچار ہونا چاہیے۔ مگر ایسا نہیں ہوتا ۔ بہار اور اس کے آس پاس کے علاقے میں اس سے پہلے 1934 میں سخت زلزلہ آیا تھا جس میں 10700 آدمی ہلاک ہو گئے ۔ اس کے بعد 1988 میں یہاں اس قسم کا زلزلہ آیا ۔

ہمالیہ کا رقبہ ، خاص طور پر اس کا شمال مشرقی علاقہ متحرک چٹانوں کے اوپر قائم ہے ۔ اس قسم کے حلقہ کو بھونچالی حلقہ  (Seismic belt)  کہا جاتا ہے ۔ زلزلے عام طور پر اسی طرح کے مقامات پر آتے ہیں۔ ہندستان میں اٹھارویں صدی کے آغاز سے زلزلوں کا باقاعدہ ریکارڈ رکھا جا رہا ہے۔ اس کے مطابق 1819سے اب تک پندرہ بڑے زلزلے آچکے ہیں، سب سے زیادہ سخت بھونچال 11 اکتوبر 1737  کو کلکتہ میں آیا تھا جس میں تین لاکھ سے زیادہ آدمی ہلاک ہو گئے۔

ہماری زمین ہر وقت زلزلہ کی زد میں ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ زمین پر ہر سال ایک ملین (10  لاکھ)بار تھر تھراہٹ پیدا ہوتی ہے۔ ان میں سے 95  فیصد وہ ہیں جن کو صرف سائنس داں اپنی ریکارڈنگ مشین کے ذریعہ معلوم کر سکتے ہیں۔ بیسویں صدی میں دنیا کے مختلف مقامات پر جو زلزلے آئے ہیں ، ان میں تقریباً  دو ملین (20  لاکھ) آدمی ہلاک ہوگئے اور 10 ہزار کرور روپیہ کی املاک کو نقصان پہنچا ۔زمین کی تھرتھراہٹ جب غیر معمولی شدت اختیار کرے تو اسی کا نام زلزلہ  یا بھو نچال ہے (ٹائمس آف انڈیا 23  اگست 1988)

 زلزلے غیر محسوس حالت میں ہر روز آتے ہیں۔ خدا کبھی کبھی ان میں شدت پیدا کر کے ہمیں ان کی ہولناکی کو محسوس کرا دیتا ہے ۔ یہ گویا ایک چیتا ونی ہے کہ آدمی آنے والے بڑے زلزلہ (قیامت )کو یاد کرےاور اپنی اصلاح کر کے اپنے آپ کو خدا کی پکڑ سے بچالے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom