مصنوعی کامیابی
ستمبر 1988 میں 22 و اں اولمپک سیول (کوریا ) میں ہو ا۔ اس موقع پر 24 ستمبر کو سومیٹر کی دوڑ کا مقابلہ ہوا ۔ اس مقابلے میں کناڈا کے 26 سالہ بن جانسن (Ben Johnson) نے سو میٹر کا فاصلہ تقریباً دس سیکنڈ میں طے کر کے دوڑ کا جو کمال دکھا یا وہ نا قابل یقین حد تک شاندار تھا۔ ٹی وی پر دوڑ کا منظر دیکھنے والے ایک شخص نے کہا کہ وہ اس طرح دوڑا جیسے کوئی سانڈدوڑتا ہے :
He ran like a bull
بن جانسن مقابلہ جیت کر عالمی چمپئین بن گیا۔ اس نے صرف اپنے 24 ستمبر کے حریفوں کو نہیں ہرایا تھابلکہ دوڑ کے عالمی ریکارڈ کو توڑ کر دنیا کا سب سے زیادہ تیز رفتار انسان (Fastest man on earth (بن گیا تھا۔ اس نے چیخ کر کہا کہ میں دنیا کا نمبر ایک شخص ہوں (I am the world no.1) اس کی فاتحانہ تصویریں اگلے دن تمام دنیا کے اخباروں کی زینت بنی ہوئی تھی۔گولڈمیڈل اور ایک ملین ڈالر سے زیادہ بڑی چیز وہ تھی جو اس کو عالمی شہرت کی صورت میں اچانک حاصل ہو گئی۔ ٹائمس آف انڈیا (25 ستمبر 1988(
مگر بن جانسن کی خوشی دیر تک باقی نہ رہی۔ قاعدہ کے مطابق کھیل کے فوراً بعد اس کا پیشاب لیا گیا جو مخصوص ماہرین کے پاس سائنسی تجزیہ کے لیے بھیج دیا گیا ۔ 27 ستمبر کو اس جانچ کی رپورٹ آئی تو معلوم ہوا کہ بن جانسن کی کامیابی کار از مصنوعی دواؤں کا استعمال تھا۔ کھیل کے عالمی مقابلوں میں ، کھیل کے وقت ، شراب ، منشیات یا ایسی دواؤں کا استعمال سختی کے ساتھ ممنوع ہے جو وقتی نشہ یا فوری طور پر مصنوعی قوت پیدا کرتی ہیں۔ بن جانسن نے مقابلے کے میدان میں داخل ہونے سے کچھ پہلے اسی قسم کی ایک مقوی ٔعضلات دوا (Muscle-building drug) پی لی تھی جس کو اسٹا نازولول (Stanazolol) کہا جاتا ہے۔ چنانچہ اس وقت اس کی دوڑ دوا کے زور پر تھی نہ کہ اپنی فطری طاقت کے زور پر ۔
مذکورہ دریافت کے بعد بن جانسن سے سونے کا میڈل چھین لیا گیا۔ اعلان کیا گیا کہ اب اس کو کھیل کے عالمی مقابلوں میں شریک نہیں کیا جائے گا۔ کناڈا کی حکومت نے اس کو ماہانہ ملنے والی امداد بند کر دی۔ اس طرح کی مختلف ذلتیں ایک کے بعد ایک اس کے سامنے اس طرح آئیں کہ اس نے سیول میں مزید ٹھہرنے کا حوصلہ کھو دیا۔ وہ فوری طور پر اپنے وطن( کناڈا) کے لیے روانہ ہو گیا ۔ 27ستمبر کو ایر پورٹ کی جو تصویریں اخبارات میں آئی ہیں ، ان میں دکھایا گیا ہے کہ فوٹو گرافر اس کی تصویر لینا چاہتے ہیں اور وہ مسلسل اپنا منہ چھپانے کی کوشش کر رہا ہے (ہندستان ٹائمس28 ستمبر 1988)
بن جانسن کے ایجنٹ لاری ہائڈ بریخت (Larry Heidebrecht) سے پوچھا گیا کہ بن جانسن نے کیوں سیول چھوڑ دیا ، حالاں کہ اس کو اپنے دفاع کے لیے یہاں موجود رہنا چاہیے تھا۔ انڈین اکسپریس (28 ستمبر 1988) کے مطابق ، ایجنٹ نے جواب دیا کہ کیا آپ کا خیال ہے کہ آپ اس وقت سوالات کا جواب دینے کے قابل رہیں گے جب کہ آپ اپنی زندگی کے سب سے بڑے صدمہ سے دوچار ہوئے ہوں :
Do you think you would be around prepared to answer questions after the biggest shock of your life.
دنیا کے اس واقعے میں آخرت میں پیش آنے والے اسی قسم کے واقعے کی تصویر ہے ۔ حدیث میں بتایا گیا ہے کہ قیامت میں کچھ لوگ آئیں گے جنھوں نے دنیا میں بظا ہر بڑے بڑے اسلامی کارنامے انجام دیے ہوں گے۔ کوئی شخص عالم کی حیثیت سے مشہور رہا ہو گا کسی نے اس اعتبار سے شہرت پائی ہوگی کہ اس نے دین کے کام میں بہت زیادہ مال خرچ کیا ہے۔ کوئی شخص مجاہد کا ٹائٹل پائے ہوئے ہو گا اور دین کی راہ میں جان دینے والے کی حیثیت سے قوم کے اندر ہیرو بنا ہوا ہو گا۔ مگر آخرت میں یہ لوگ جہنم میں ڈال دیے جائیں گے۔ خدا کہے گاکہ تم نےجو کچھ کیا شہرت اور ناموری کے لیے کیا ، نہ کہ میری رضا اور خوشنودی کے لیے تمہاری مطلوبہ چیز تم کو دنیا میں مل چکی۔ یہاں اب تمہارے لیے کچھ نہیں۔
جو شخص دین کے میدان میں غیر خدائی زور پر دوڑے۔ جس کا جوش دنیا کے لیے ہو نہ کہ آخرت کے لیے ، ایسے شخص کا انجام آخرت میں زیادہ بڑے پیمانے پر وہی ہوگا جو بن جانسن کا انجام کمتر پیمانے پر دنیا میں ہوا۔ مصنوعی زور پر دوڑنا نہ دنیا میں کسی کے لیے مفید ہے اور نہ آخرت میں ۔