اسلام مغربی لٹریچر میں

ڈاکٹر ہٹی (Philip K. Hitti) عربی زبان اور تاریخ کے مشہور ماہر ہونے کی حیثیت سے مغربی دنیا میں مشرق قریب کے مسائل پر سند سمجھے جاتے ہیں۔ انھوں نے عرب اور اسلام کے موضوعات پر متعد د کتا بیں لکھی ہیں اور مختلف انسائیکلو پیڈیا کے مقالہ نگار ہیں۔ ان کی کتابیں یورپ اور ایشیا کی مختلف زبانوں میں ترجمہ ہوتی رہی ہیں۔ وہ مختلف یونیورسٹیوں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے ہیں۔اور اس وقت پرنسٹن یونیورسٹی (نیو جر سی) میں سامی ادب کے پر وفیسر ہیں ۔

 اسلام اور مغرب (Islam and the West) ڈاکٹر ہٹی کی کتاب ہے جو 1962ء میں امریکہ سے شائع ہوئی ہے۔ اس کتاب کے  190 صفحات ہیں اور اس کا موضوع عیسائی دنیا اور اسلام کے تمدنی تعلقات کی تاریخ ہے جس میں بازنطینی سلطنت کے وقت سے لے کر اب تک مختلف قسم کے اتار چڑھاؤ پائے جاتے رہے ہیں ۔ موصوف نے ترجموں کی مدد سے نہیں بلکہ اصل مآخذ سے براہ راست استفادہ کر کے یہ کتاب تیار کی ہے۔

کتاب کے دو حصے ہیں۔ پہلے حصے کے ابتدائی تین ابواب میں اسلام کا بالترتیب مذہب، ریاست اور کلچر کی حیثیت سے تعارف ہے۔ چوتھا باب ہے––––– "اسلام مغربی لٹریچر میں " پانچویں اور چھٹے باب میں بالترتیب مشرق کا مغرب پر اور مغرب کا مشرق پر نفوذ و اثر دکھایا گیا ہے۔ ساتویں باب میں اس تحریک کا مختصر تعارف ہے جو اسلام اور مغربی تہذیب کے درمیان مطابقت پیدا کرنےکے لیے مختلف اسلامی ممالک میں جاری ہے۔ کتاب کے دوسرے حصے میں قرآن اور دوسری قدیم کتابوں سے اسلام اور اسلامی تاریخ اور اسلامی شخصیتوں کے بارے میں اقتباسات نقل کیے گئے ہیں۔یہ اقتباسات کل 29 ہیں۔

ذیل میں کتاب کے چوتھے باب (Islam in Western literature) کا ترجمہ دیا جا رہا ہے،اس معذرت کے ساتھ کہ نقلِ کفر کفر نباشد۔

قرون وسطی کے مغربی لٹریچر میں پیغمبر اسلام کو عام طور پر جعل ساز اور جھوٹے رسول کی حیثیت سے متعارف کرایا جاتا تھا۔ قرآن ان کی ایک بناوٹی کتاب اور اسلام ایک نفس پرستانہ طریقِ حیات تھا، دنیا میں بھی اور دوسری زندگی میں بھی ۔ اس زمانے میں مذہب اسلام اور عیسائیت دونوں کے درمیان دشمنی کی سب سے بڑی وجہ تھی ۔ دونوں طرف یہ دعویٰ کیا جاتا تھا کہ ان ہی کا مذہب تمام صداقتوں کاواحد خزانہ ہے ۔ مگر سیاسی اور فوجی تصادم ، نظریاتی تصادم سے بھی زیادہ سخت ثابت ہوا۔

 محمد کے بعد ڈیڑھ صدی تک ان کے پیرو پہلے مدینہ، پھر دمشق اور اس کے بعد بغداد سے نکل کر بازنطینی سلطنت کو روندتے رہے ۔ یہاں تک کہ بڑھتے ہوئے مسیحیت کے مشرقی دارالسلطنت کے دروازے تک پہنچ گئے۔ قسطنطنیہ کے سقوط (1453 ء) کے بعد چار صدیوں میں مسلم سلجوق اور عثمانی ترک اپنی ہمسا یہ مسیحی طاقتوں کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن گئے۔ 711ء سے شروع ہو کر تقریباً آٹھ سو برس میں مسلمان اسپین کے ایک حصہ پر قابض ہو چکے تھے اور انھوں نے فرانس تک پر دھاوابول دیا تھا۔ سسلی دو صدیوں تک ان کے قبضے میں رہا۔ اور اٹلی کے خلاف ایک فوجی اڈے کا کام کرتا رہا۔ بارہویں اور تیرہویں صدی کے دوران میں مغربی اقوام مسلمانوں کی زمین پر صلیبی جنگ لڑتی رہیں۔ ان صلیبی لڑائیوں کی یاد آئندہ نسلوں میں باقی رہی۔

زرتشت ، بدھزم اور دوسرے کم ترقی یافتہ مذاہب کی کبھی اس طرح سے نفرت اور تحقیر نہیں کی گئی، جیسا کہ اسلام کے ساتھ پیش آیا۔ وہ قرون وسطی ٰکے مغرب کے لیے کوئی خطرہ نہیں تھے۔ اور نہ انہوں نے مقابل میں آنے کی کبھی کوشش کی۔ اس لیے یہ بنیادی طور پر خوف ، دشمنی اور تعصب تھا جس نے اسلام کے بارےمیں مغرب کے نقطۂ نظر کومتاثر کیا۔ اسلام کا عقیدہ ایک دشمن عقیدہ تھا۔ اس لیے وہ غلط نہ ہوجب بھی شبہ کی نظر سے دیکھا جا نالازمی تھا۔

پھر زبان کا روک بھی تھا۔ مسیحیت اور دنیائے اسلام کے درمیان سیاسی اور فوجی تصادم کےچھ سو سال تک یورپ قرآن کی زبان کے باقاعدہ مطالعہ کی سہولت سے محروم رہا۔ اس پوری مدت میں لاطینی زبان کا کوئی عالم یورپ میں ایسا نہیں ملتا جو عربی زبان پر بھی عبور رکھتا ہو۔ قرآن کی زبان سے اس کامل بے خبری نے قرآن کے بارے میں غلط تعارف کو پھیلنے کا موقع دے دیا۔

قرون وسطیٰ اور اس کے بعد کی مسیحیت نے جس تحریری یا زبانی ذرائع سے اسلام کے بارے میں اپنا تصور قائم کیا ، وہ وہی تھا جو صلیبی جنگوں کے دوران میں وجود میں آئے یا ان ممالک کی معرفت ملےجن سے اسلام کی لڑائی پیش آچکی تھی۔ مسیحی علماء اور پادریوں نے اسی کے ذریعے سے اسلام کی تصویر بنائی۔اسلام کی اس یورپی تصویر اور اس کی حقیقی اسلامی تصویر میں کوئی مشابہت محض اتفاقی ہے۔

شام کے مشہور عیسائی عالم سینٹ جان آف دمشق (749ء)کو بازنطینی روایات کا بانی کہا جا سکتا ہے۔ جان نوجوانی کی عمر میں بنو امیہ کے دربار میں حاضر ہوا۔ وہ عربی، سریانی اور یونانی زبا نیں جانتا تھا اور اپنے زمانے کے اہل ِعلم میں ممتاز درجہ رکھتا تھا۔ اس نے اپنی کتاب میں اسلام کا تعارف ایک بت پرستانہ مذہب کی حیثیت سے کیا ہے جس میں ایک جھوٹے رسول کی پرستش ہوتی ہے ۔ اس کے بیان کے مطابق محمد نے ایک آرین راہب کی سرپرستی میں بائبل کی مدد سے اپنے اصول وضع کیے ۔ یہ اسلام کے متعلق عیسائیت کے قدیم اور عام تصور کی ایک مثال تھی ۔ چنانچہ ڈانٹے (م 1321) نے اپنی مشہور کتاب میں محمد اور علی کو نویں جہنم کے سپرد کر دیا جو تفرقہ پردازوں اور رسوا کن اعمال کرنے والوں کے لیے مخصوص ہے (نعوذ باللہ )

بازنطینیوں میں پہلا شخص جس نے محمد  کا باقا عدہ ذکر کیا اور اسلام پر گفتگو کی ، وہ مؤرخ تھیوفین (Theophane) ہے جس کا زمانہ 818 - 758 ہے ۔ وہ ایک خانقاہ کا بانی بھی تھا۔ تھیو فین بغیر کسی حوالے کے محمد کو "مشرقی باشندوں کا حکمراں اور ایک بناوٹی رسول " لکھتا ہے۔ ڈانٹے کا ایک ہم عصر مسیحی جس نے بغداد کا سفر کیا تھا، اس نے یہ نظریہ پیش کیا کہ شیطان جب خودمشرقی ممالک میں عیسائی مذہب کی ترقی کو روک نہ سکا تو اس نے اپنی طرف سے ایک آسمانی کتاب تیار کی اور ایک ابلیس فطرت آدمی کو اپنے وسیلہ کے طور پر استعمال کیا۔ یہ آسمانی کتاب قرآن اور وہ وسیلہ محمد ہیں۔ (نعوذ بالله )

عبد المسیح بن اسحاق الکندی ایک مشرقی عیسائی تھا۔ اس کو اسپین میں ایک سید زادہ مسلمان نے تحریری طور پر اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔ اس واقعے نے عرب کے اس عیسائی کو موقع دیا کہ وہ عیسائیت کا دفاع کرے اور اسلام پر حملہ آور ہو ۔ الکندی نے محمد کو ایک شہوت پرست اور ایک قاتل کی حیثیت سے پیش کیا جن کی کتاب محض مصنوعی الہامات کا مجموعہ تھی اور جن کا مذہب دھو کے، تشدداور نفس پرستانہ تعلیمات کی چاٹ دلا کر پھیلا یا گیا۔ (ر سالات الکندی مطبوعہ قاہره  1912ء )

 ان باتوں کے نتیجےمیں عیسائی دنیا میں محمد کے خلاف کچھ ایسی فضا پیدا ہو گئی تھی کہ کوئی افسانہ خواہ وہ کتناہی عجیب ہو اور اس کی کوئی اصل نہ ہو ، فوراً قبول کر لیا جاتا تھا۔ قرطبہ کا ایک بشپ ایولوگیس (Eulogius) جو اپنے وقت کا بہت بڑا عالم تھا، وہ ،  ایک لاطینی تحریر کے حوالے سے جو ایک عیسائی راہب نے تیار کی تھی ، لکھتا ہے کہ محمد کی وفات کے بعد ان کے اصحاب فرشتوں کا انتظار کر رہے تھے جو اتر یں اور ان کے جسم کو اوپر لے جائیں۔ مگر اس کے بجائے کتے آئے اور ان کے جسم کو کھا گئے اسی لیے مسلمان ہر سال بہت بڑے پیمانے پر کتوں کو ہلاک کرتے ہیں ۔ ایو لو گیس ، اسپین کے مسلم دار السلطنت میں رہتا تھا ۔ وہ معمولی کوشش سے جان سکتا تھا کہ اس پورے افسانہ میں صرف اتنی سی حقیقت ہے کہ مسلمان کتّے کو ایک ناپاک جانور سمجھتے ہیں ۔

لاطینی زبان سے یہ کتّے کا افسانہ فرانسیسی میں پہنچا۔ چنانچہ ایک قدیم فرانسیسی نظم میں کتّے اور سوّر دونوں کو دکھایا گیا ہے کہ وہ محمد کے جسم کو کھا رہے ہیں۔ سوّر کی یہ روایت عوام میں بہت مقبول ہوئی اور قرآن میں سور کی حرمت کی بہت آسان توجیہہ بن گئی ۔ حالاں کہ سور کی حرمت آپ کی وفات سے بہت پہلے کا واقعہ ہے  –––––  دروغ گورا حافظہ نباشد، مترجم ) اسی طرح یہ بھی کہا گیا کہ محمد کا تابوت زمین وآسمان کے درمیان فضا میں معلق ہے ۔ اور لوگوں نے اس پر یقین کر لیا۔

 بار ہویں اور تیر ہویں صدی میں صلیبی جنگوں کے ذریعہ اسلام کو مغلوب کرنے کی کوشش جب ناکام ہو گئی تو مسیحی  حلقہ میں ایک نیا رجحان اُبھرا  –––––– اسلام کو تبلیغ و تحریص کے ذریعے تباہ کیا جائے۔ بے دخلی کی کوشش کی جگہ عقیدہ کی تبلیغ نے لے لی میشنری تحریک وجود میں آئی ۔ کار ملی رہبانوں کا حلقہ (Carmelite Friar Order) ایک صلیبی ہی   کے (1154) ماونٹ کا رمل پر قائم کیا تھا۔ اس صلیبی کا نام (Berthold) ہے ۔ اس جماعت کے لوگ سفید چغہ پہنتے تھے ، اس لیے ان کو سفید پوش رہبان (White Friars) کہا جاتا ہے۔ (مترجم) فرانسس کن نے اس کی پیروی کی۔ 1219ء میں سینٹ فرانس آف اسیسی قا ہرہ گئے اور اپنی فرانسس کن مشنری سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ مگر اس دور کی سب سے بڑی مشنری تحریک ایک اسپینی تحریک تھی، جو ریمنڈلل (Raymond Lull) نے شروع کی جس کا زمانہ 1315 - 1235 ہے ۔ لل نے روحانی صلیبی جنگ (Spiritual Crusades) کے لیے بہت دانشمندانہ نقشے بنائے جس کا مقصد مسلمانوں کو عیسائی بنانا تھا۔ بحث و مناظرہ اور استدلال کے ذریعے کامیاب ہونے کے بارے میں اس کا یقین آخر وقت تک قائم رہا۔ اس کی تیاری کے لیے اس نے عربی پڑھی اور اپنی خانقاہ میں اس کا درس دینا شروع کیا جو اس نے مرامر (Miramar) میں قائم کی تھی۔ اس کی عربی زبان اور اسلام سے اس کی واقفیت اس زمانہ میں اپنی مثال نہیں رکھتی تھی۔ مگر ٹیونس میں اس کی مشنری سرگرمیاں ناکام ہو گئیں۔ توحید پرست مسلمانوں کے ذہن میں تثلیث کا عیسائی عقیدہ بٹھانے کی کوشش اتنی فضول تھی کہ بالآخر اس نے اسلام پر حملہ کرنا شروع کیا ۔ وہ گلیوں میں نکل کر چلاتا پھرتا تھا ––––––  "عیسائیوں کا عقیدہ صحیح ہے اور مسلمانوں کا عقیدہ غلط ہے " ٹیونس میں ایک مشتعل مجمع نے اس پر حملہ کیا اورپتھر مارنے شروع کیے۔ یہاں تک کہ وہ ہلاک ہوگیا۔

عیسائیت اور اسلام میں زبان کا روک پہلی بار اس وقت ٹوٹا جب فرانس میں قرآن کا ترجمہ لاطینی زبان میں کیا گیا۔ یہ بیرونی زبان میں قرآن کا پہلا ترجمہ ہے۔ یہ ترجمہ تخمیناً 1141 ء میں کیا گیا اوراس کے کرنے والے تین عیسائی اور ایک عرب باشندہ تھا۔ اس ترجمۂ قرآن کے ساتھ ایک ضمیمہ اس عنوان کے ساتھ لگا ہوا تھا ––––  "مسلمانوں کے عقائد کی تردید "۔اس کے بعد 1649 میں سیور ڈوریر (Sieur du Ryer) نے اس ترجمہ کی مدد سے قرآن کو فرانسیسی زبان میں منتقل کیا۔ یہ شخص اسکندریہ میں فرانسیسی قونصل رہ چکا تھا ۔ پھر اسی سال سیور ڈوریر نے براہ راست عربی زبان سے فرانسیسی زبان میں قرآن کا ترجمہ کیا۔ اور اس کے بعد اس کو محمد کا قرآن (The Alcoran of Mahomet) کے نام سے انگریزی میں منتقل کیا گیا ۔ اس ترجمہ کی اشاعت کا مقصد مترجم کے الفاظ میں "ان تمام لوگوں کو مطمئن کرنا تھا جو ترکی کے کھو کھلے مذہب (Turkish Vanities) کے جاننے کے خواہشمند تھے"۔ لفظ Mahomet خود محمد کی بگڑی ہوئی صورت ہے ۔ اکسفرڈ انگلش ڈکشنری میں اس کی اٹھارہ شکلیں بتائی گئی ہیں ۔ا سی طرح Mahound کی سترہ شکلیں Mohammad  کی پانچ  Muhammad  کولے کر ایک ہی نام  کی 41 مختلف  شکلیں ۔ مصنف نے یہاں Maumet کو شمار نہیں کیا جس کی سب سے زیادہ شکلیں آکسفرڈ ڈکشنری میں بتائی گئی ہیں اور ان کو شامل کرنے کے بعد ناموں کی یہ فہرست ستر سے بھی زیادہ تک پہنچ جاتی ہے (مترجم) قرآن کا یہ گمنام ترجمہ الکزنڈر راس (Alexander Ross) کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔

اسپین میں نام نہاد مورس (Moors) کے زوال کے بعد عثمانی ترک دشمن مذہب (اسلام) کے علم بردار نظر آرہے تھے ۔ مارٹن لوتھرنے پہلے یہ خیال کیا کہ ترکوں کومسیحیت کے گنا ہوں کی پاداش میں خدا کا بھیجا ہوا عذاب سمجھ کر گوارا کرنا چاہیے۔ مگر 1529 میں جب ترک وائنا کے دروازوں تک پہنچ گئے تو اس نے اپنے ذہن کو بدل دیا اور یہ تبلیغ کی کہ ان کافروں کے خلاف جنگ کرنے کی ضرورت ہے۔

 قرآن کا پہلا انگریزی ترجمہ براہ راست عربی زبان سے 1735 میں کیا گیا ، اور اس کا مترجم جارج سیل  (George Sale) تھا۔ سیل عیسائی علوم کی ترقی کی انجمن کا ایک رکن تھا اور اس نے شامی علماء کی مدد سے عربی زبان سیکھی تھی۔ سیل کا ترجمہ انگریزی دنیا میں ڈیڑھ صدی تک چھایا رہا۔

سترہویں صدی میں ایک نیا سنگ میل پیدا ہوا جب آکسفرڈ یونیورسٹی نے عربی کی تعلیم کے لیےایک نشست اپنے یہاں مخصوص کی۔ اور ایڈورڈ پکاک (Edward Pocock) کو 1636 میں اس منصب پر مقر کیا ۔ پکاک چھ سال تک شام میں پادری کی حیثیت سے رہ چکا تھا اور عربی میں دستگاہ اور اسلام کی براہ راست معلومات حاصل کر چکا تھا۔ آکسفرڈ میں عربی شعبہ کے کھلنے سے یورپی عربی داں پیدا ہونے کا دروازہ کھل گیا۔ پکاک خود غالباً  اپنی صدی کا سب سے بڑا یورپی عربی داں تھا۔ اس نے متعددکتا بیں تصنیف یا ایڈٹ کیں ۔ اس نے اپنے قارئین کو یقین دلایا کہ معلق تابوت کا افسانہ مسلمانوں کے لیے ایک مضحکہ خیز بات ہے جس کو وہ صرف عیسائیوں کی ایجاد سمجھتے ہیں۔ اس نے مزید اس مروجہ کہانی کو چیلنج کیا کہ اسلام کے بانی نے ایک سفید کبوتر کو تربیت دے رکھا تھا تاکہ وہ ان کے کندھے پر بیٹھا رہے اور کان کے اندر پڑے ہوئے دانے کو چگنے کے لیے کان میں چونچ مارتا رہے۔ اس سے وہ اپنے متبعین کو یہ یقین دلانا چاہتے تھے کہ کبوتر کے ذریعہ سے روح القدس ان کو الہام کر رہا ہے ۔ یہ افسانہ اس قدر مشہور ہوا کہ وہ انگریزی ادب میں شامل ہوگیا۔ چنانچہ شکسپئر کے ایک کردارکی زبان سے ہم سنتے ہیں:

Was Mahomet inspired by a dove,

Thou with an eagle art inspired then.

شکسپئر سے بہت پہلے جان لڈ گیٹ (John Lydgate) م 1451 اس کبوتر کا رنگ تک جانتا تھا۔ اس کے بیان کے مطابق کبوتر کا رنگ دودھیا سفید تھا۔ پھر یہ یقین یہاں تک بڑھا کہ اٹھارہویں صدی کے ایک کبوتروں کے ماہر نے ایک خاص قسم کے کبوتر کا نام مومت (Maumet) رکھ دیا جو دراصل لفظ محمد کی بگڑی ہوئی شکل تھی۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ کبوتر عیسائیوں کے یہاں تو روح القدس کی علامت ضرور ہے)لوقا 3 : 22 (مگر اسلام میں اس کی کوئی اصل نہیں۔

اسی طرح مومت (Maumet) کا لفظ بُت کے معنی میں استعمال ہونے لگا۔ وہ شخص جس نے  کعبہ میں سیکڑوں بتوں کو توڑا، جس کے پیرو فخر کرتے ہیں کہ وہی صرف حقیقتاً توحید پرست ہیں اور کسی قسم کے بت یا مورتی کو تسلیم نہیں کرتے ۔ وہی شخص مغر بی من گھڑت میں ایک خدا اور ایک بت بن گیا۔ قرون وسطی کی انگریزی روایات میں مہون (Mahoun) بار بار پرستش کا ایک مظہر قرار دیا گیا ہے۔ یہ مان لیا گیا تھا کہ ترکوں اور مسلمانوں کے یہاں اس کی پوجا ہوتی تھی ۔

مومٹ کی طرح قرآن بھی الکرون (Alkaron) کے نام سے مسلمانوں کا ایک بت قرار پایا۔ مغربیوں کویقین دلایا گیا کہ مسلمان اپنے بتوں کے آگے عبادتی رسوم منعقد کرتے ہیں جن میں لو بان جلایا جاتا ہے اور نرسنگھا پھونکا جاتا ہے ۔ اسی طرح سورج (Apollo) ان کا دوسرادیوتا تھا۔ ایک فرانسیسی مصنف کے بیان کے مطابق 778  میں شارلی مین کی فوجوں سے مسلمانوں کو "شکست "ہوئی تو انھوں اپنا غصہ سورج دیوتا کے اوپر نکالا اور اس پر پل پڑے۔ ایلز بتھ کے دور کا ایک اور نامور مصنف فرانسس بیکن (Francis Bacon) محمد کو عطائی (Mountebank) قرار دیتا ہے ۔ اس نے اپنے مقالہ "ہمت و استقلال"  (Boldness) میں نقل کیا ہے :

"محمد نے لوگوں کو یقین دلایا کہ وہ ایک پہاڑی کو بلائیں گے اور وہ ان کے پاس چلی آئے گی۔ لوگ جمع ہوئے محمد نے پہاڑی کو اپنے پاس آنے کے لیے کہا۔ وہ بار بار پکارتے رہے اور جب پہاڑی اپنی جگہ کھڑی رہی تو وہ ذرا بھی نہیں شرمائے ۔ بلکہ انھوں نے کہا  ––––– "اگر پہاڑی محمد کے پاس نہیں آسکتی تو محمد تو پہاڑی تک جا سکتے ہیں" ۔

Works of Francis Bacon, Vol. II. London 1929, p. 279

  مگر حقیقت یہ ہے کہ اسلام میں اس واقعہ کی کوئی اصل موجود نہیں ہے ۔ تاہم قرون وسطیٰ کے تمام مصنفین نے اس خلافِ اسلام انداز کو نہیں اپنایا تھا ۔صلیبی دور کا ایک بشپ جس کی پیدائش شام میں ہوئی تھی ، ولیم آف ٹریپولی (William of Tripoli) نے 1270  میں ایک رسالہ لکھا جس میں اگر چہ محمد کو وہ جھوٹے رسول کی حیثیت سے تسلیم کرتا ہے۔ مگر آپ کے حالات میں دشنام طرازی اور افسانوی حصے کو بہت کم کر کے پیش کیا ہے ۔ اسی طرح 1679 میں ایک انگلش پادری لانس لاٹ اڈیسن (Lancelot Addison) نے ایک کتاب لکھی جس میں اس نے ان من گھڑت اجزاء کو الگ کرنے کی کوشش کی جو محمد کے نام کے ساتھ وابستہ ہو گئے تھے۔ بعض بعض مواقع پر اس نے پہلے کسی واقعہ کی افسانوی تصویر کو نقل کیا ہے اور اس کے بعد تاریخی حقیقت کو بیان کیا ہے۔ اڈیسن کے ایک ہم عصر ہمفری پرائیڈ کس (Humphrey Prideaux) نے آپ کی مکمل سوانحِ حیات لکھی جس میں کبوتر کے قصہ کو اور اسی طرح دوسری بہت سی کہانیوں کو یہ کہہ کر رد کر دیا کہ ان کو صحیح ماننے کے لیے کوئی واقعی بنیاد موجود نہیں ہے۔ تا ہم اس سوانح حیات کا مقصد صرف یہ ثابت کرنا تھا کہ اسلام ایک مکارانہ مذہب( (Fraudulent Religionکا معیاری نمونہ ہے۔ یہ سوانح عمری ایک صدی تک مغربی حلقوں میں مستند سمجھی جاتی تھی۔

 زیادہ رواداری کا نقطہ ٔنظر اٹھارہویں صدی میں پیدا ہوا۔ اس زمانے میں مغرب کے عربی دانوں نے اسلام کے متعلق زیادہ قابلِ اعتماد ذرائع کا ترجمہ کیا۔ سیاح اور تاجر زیادہ اچھے تاثرات لے کر لوٹے اور سفیروں اور مشنری کے عہدیداروں نے بھی اضافہ ٔمعلومات میں حصہ لیا۔ مثال کے طور پر جارج سینڈیز (George Sandys) جس نے قسطنطنیہ ، مصر اور فلسطین کی زیارت کی تھی ، وہ 1615 ء میں اپنے سفر کی روداد لکھتے ہوئے مسلمانوں کی اور بہت سی چیزوں کے ساتھ زکوٰۃ کی تعریف کرتا ہے جو عیسائی اور یہودی غر باء کو بھی دی جاتی تھی ۔ تاہم زیادہ تر مثالوں میں لوگ ذاتی تحقیق سے زیادہ روایتی معلومات ہی پر اکتفا کرتے رہے۔ حتٰی کہ متخصصین پر وفیسروں تک کا یہ حال تھا کہ پیدائشی طور پر سنی سنائی روایات کو دہرا دیا کرتے تھے ۔ پکاک کا جانشین  جوزف وائٹ (Josef White) 1784 ء  میں اپنے مشہور بیمپٹن لکچرز (Bampton lectures) میں مسیحیت کی حمایت کرتے ہوئے جب اسلام پر آیا تو محمد کے لیے اس کے پاس جو لفظ تھا وہ وہی عام روایتی لفظ تھا یعنی مکار اور فریبی (Imposter) اسی طرح بعد کے ممتاز علماء مثلاً ولیم میور (اڈنبرا یونیورسٹی ) ڈایس ۔ مارگولیتھ (آکسفرڈ) ہنری لامنز (بیروت یونیورسٹی) کے یہاں بھی قدیم رجحانات کے آثار ملتے ہیں۔

مقالہ نگاروں اور مؤرخوں کے ہاتھوں میں محمد ، قرآن اور اسلام کا معاملہ اس سے بہتر رہا ہے جو پہلے مذہبی علماء ، ناول نگاروں اور شاعروں کے ہاتھ میں ان کا حشر ہوا تھا۔ اس سلسلے میں پہلاقا بلِ ذکر نام سائمن آکلے (Simon Ockley) کا ہے جو کیمبرج یونیورسٹی میں عربی کا پروفیسر تھا۔ اس نے مسلمانوں کی تاریخ پر دو جلدوں میں ایک کتاب لکھی ہے۔ اگر چہ کیمبرج کا یہ عالم بھی مکار (Imposter) کو محمد کے ہم معنی لفظ کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ اور اسلام اور توہمات اس کے یہاں مرادف الفاظ ہیں ۔ مگرمخصوص تاریخی واقعات کے بیان میں اس نے راست گوئی سے کام لیا ہے ۔ شام کی فتح کا حال بتاتے ہوئے، مثال کے طور پر ، وہ بازنطینیوں کی غارت گری اور دغا بازی کا مقابلہ ابوبکر کی فوجوں کی شجاعت اور ان کے اعلیٰ رویہ سے کرتا ہے جن کو خلیفہ کی ہدایت تھی کہ کسی عورت یا بچہ کو قتل نہ کریں، کھجوروں کے درخت نہ کاٹیں اور نہ کھیت کو نقصان پہنچائیں۔ اسکلے کی اس کتاب نے مستند درجہ حاصل کیا اورگبن کے ظہور سے پہلےتک وہ عرب تاریخ پر بنیادی ماخذ سمجھی جاتی رہی ۔

 اڈورڈ گبن (Edward Gibbon) جو جدید انگریزی تاریخ کا بانی ہے ، اس نے اپنی مشہور کتاب" سلطنت روما "کا زوال کی پانچویں جلد کے پچاسویں باب کو اس موضوع کے لیے مخصوص کیا ہے ۔ اپنے اعتراف کے مطابق وہ "مشرقی زبانوں سے مکمل طور پر نا واقف" تھا۔ اس لیے قدرتی طور پر اس کا ماخذ وہی کتا بیں تھیں جو اس سے پہلے یورپ میں لکھی گئی تھیں اور اس بنا پر اس کی ترجمانی بھی واقعہ کےمطابق نہ ہو سکی ۔ تاہم اس نے بہت سی روایات کو غلط قرار دیا مثلاً  اس نے کہا کہ مکار نبی کا لقب ایک خطرناک اور ناقابلِ اعتبار (Perilous and Slippery) چیز ہے۔

فرانس میں والٹیر پیدا ہوا جو بحیثیت ِمؤرخ زیادہ محتاط تھا مگر بحیثیت المیہ نگار (Tragedian) محتاط نہیں تھا۔ اپنی تاریخی کتاب 1756 میں وہ محمد کا ذکر رواداری کے ساتھ کرتا ہے۔ وہ محمد کا مقابلہ کر امویل (Cromwell) سے کرتا ہے ۔ وہ ان کے کارناموں کو انگلینڈ کے نجات دہندہ (کر امویل) سے بہت زیادہ عظیم قرار دیتا ہے مگر اپنے المیہ ناٹک(Tragedy) 1742 میں وہ محمد کو قرون وسطی کے لباس میں مکار، ظالم اور عیاش بنا کر پیش کرتا ہے۔ اگر چہ یہ بھی حقیقت ہے کہ والٹیر کا اسلام پر حملہ، عمومی طور پر اس کے مخالف مذہب ہونے کا نتیجہ تھا۔ والٹیر کا انحصار انگریزی مآخذ پر تھا۔ خاص طور پر سیل کاترجمہ ٔقرآن کیوں کہ وہ انگلینڈ میں رہا تھا اور انگریزی زبان سیکھی تھی۔

 والٹیر سے زیادہ جرمن شاعر گوئٹے (1832 – 1749)وہ شخص تھا جو جدید اسپرٹ اور نئےبین اقوامی نقطۂ نظرکا پیغامبر بنا ۔گوئٹے نے اپنی زندگی میں محمد کے حالات پر ایک نظم شروع کی مگر وہ اس کو مکمل نہ کر سکا۔ گوئٹے یہ یقین کرنے کے لیے تیار نہ تھا کہ عربی پیغمبر ایک مکار شخص تھا۔ سعدی  کی گلستان کے جرمن ترجمے نے خاص طور پر گوئٹے کو بہت متاثر کیا۔ 1812 میں حافظ کے کلام کا جرمن زبان میں ترجمہ ہوا تو گوئٹے کو اس میں حکمت ، تقدس اور سلامتی نظر آئی جو اس کے خیال میں مغرب کو خاص طور پر در کا رکھی ۔

اسلامی کلچر کے بارے میں مغربی علماء کا بدلا ہوا نقطہ ٔنظر جس کا آغاز انگریزی اور فرانسیسی پر وفیسروں نے کیا تھا اور جرمن اور دوسرے ادبیوں اور شاعروں نے جس کو تقویت دی تھی، وہ انیسویں صدی کے وسط تک بالکل واضح ہو گیا۔ کارلائل کا محمد کو پیغمبرانہ ہیرو کے کر دار کے لیے منتخب کرنا ، بیک وقت نئے رجحان کی طرف اشارہ تھا۔ اور اس میں اضافہ کرنے والا بھی تھا۔ کار لائل کی کتاب میں مشکل سے کوئی نا خوش گوار فقرہ ہو گا۔ در حقیقت یہ کتاب اس لیے قابلِ تنقید ہو سکتی ہے کہ وہ غیر تنقیدی ہے "محمد ایک سازشی مکار ہیں ، وہ جھوٹ کا مجسمہ ہیں۔ ان کا مذہب محض عطائی نسخوں کا مجموعہ ہے" ––––  اس قسم کی باتیں کارلائل کو گوارا نہیں تھیں ۔ اس کا ہیرو (محمد)واقعی ایک انسان تھا ، سچا انسان ۔

عرض مترجم

او پر جو ترجمہ نقل کیا گیا ہے، وہ بتاتا ہے کہ عیسائی حضرات نے پیغمبر اسلام کو بد نام کرنے کے لیے کتنی زیادہ لغو حرکتیں کی ہیں۔ مزید یہ ایک مثال ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قدیم زمانے میں پیغمبروں کے ساتھ کس قدر ظالمانہ سلوک کیا گیا ہے ۔

خدا کے پیغمبر  خالص سچائی کے علمبردار تھے۔ ان کا وجود ان لوگوں کو غیر معتبر ثابت کرنے کے ہم معنی تھا جو جھوٹ پر کھڑے ہوئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ پیغمبروں کو برداشت نہ کر سکے۔ انہوں نے پیغمبروں کی سخت ترین مخالفت کی اور ان کے بعد ان کی تاریخ کو اس طرح بگاڑ ڈالا کہ کوئی شخص ان کی سیرت اور ان کے پیغام کو جاننا چاہے تو اس کے لیے اس کے متعلق صحیح معلومات حاصل کرنا ممکن ہی نہ رہے ۔

اوپر یورپ کے مسیحی لٹریچر کی جو مثا لیں ، نقل ِکفر کفر نباشد کے اصول کے تحت درج کی گئی ، ہیں ، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی وہی سب کچھ بدترین شکل میں کیا گیا جو دوسرے پیغمبروں کے ساتھ کیا گیا تھا ۔ آپ کے مخالفین نے آپ کی سیرت اور آپ کے پیغام کو بگاڑنے کے لیے وہ سب کچھ کیا جو وہ کر سکتے تھے۔

مگر یہاں دونوں کے درمیان ایک زبر دست فرق ہے۔ دوسرے پیغمبروں کی سیرت اوران کے پیغام کو بگاڑنے والے بظاہر اپنے اعتبار سے کامیاب ہو گئے۔ یعنی انھوں نے بگاڑ نا چاہا اور عملاً بگاڑ دیا۔ چنانچہ ان سابق پیغمبروں کے بارے میں آج قرآن کے باہر کہیں صحیح تاریخی ریکارڈ نہیں ملتا۔ حتٰی کہ ان کی اپنی کتابوں میں بھی نہیں۔ لیکن پیغمبر اسلام کے معاملے میں صورت حال بالکل مختلف رہی۔ یہاں مخالفین کی ساری کارروائیاں بالکل ناکام ہو کر رہ گئیں۔ لوگوں کی بدترین مخالفانہ کوششوں کے باوجود ، آج آپ کی تاریخ اور آپ کی لائی ہوئی تعلیمات کا متن اس طرح کامل صورت میں محفوظ ہے کہ اس سے زیادہ محفوظ اور مستند صورت موجودہ دنیا میں ممکن نہیں۔

یہ کوئی سادہ سی بات نہیں۔ یہ فرق در اصل پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم الرسل ہونے کا عظیم الشان ثبوت ہے۔ پچھلے زمانوں میں جو پیغمبر آئے ، وہ علم الہٰی کے مطابق ، سلسلہ ٔنبوت کے خاتم نہ تھے۔ ان کے بعد بھی نبیوں کی آمد کا سلسلہ جاری رہنے والا تھا۔ اس لیے اللہ تعالٰی نے ان کے ساتھ یہ معاملہ نہیں کیا کہ ان کے مخالفین کی معاندانہ کارروائیوں کو غیر مؤثر بنا دے تا کہ وہ ان کی تاریخ اور ان کی تعلیمات کو بگاڑنے سے عاجز رہ جائیں ۔

مگر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا معاملہ یہ تھا کہ علم الہٰی کے مطابق وہ آخری رسول اور خاتم النبیین تھے۔ آپ کے بعد پھر کوئی نبی یا رسول آنے والا نہ تھا، اس لیے ضروری تھا کہ آپ کی سیرت اور آپ کی تعلیم کامل طور پر محفوظ رہے۔ کیوں کہ آپ کی سیرت اور آپ کی تعلیم کے غیر محفوظ ہو جانےکی صورت میں دوسرے نبی کا آنا ضروری ہو جاتا۔

 خاتم النبیین صرف سلسلہ ٔنبوت کو ختم کرنے والے نہ تھے ، اس کے ساتھ آپ مخالفینِ حق کے لیے اس موقع کو بھی ختم کر دینے والے تھے کہ وہ پیغمبر کی سیرت اور اس کی تعلیمات کو بگاڑنے یا مٹانے میں کامیاب ہوسکیں۔ ختمِ نبوت لازمی طور پر حفاظت نبوت کی مقتضی ہے، اور اس کا اہتمام اللہ تعالیٰ کی طرف سے پوری طرح کر دیا گیا ہے۔

اب پیغمبر کی آمد کا سلسلہ بلاشبہ ختم ہو چکا ہے ۔ مگر خودختمِ نبوت ہی کے طفیل میں مومنان ِنبوت کو ایک عظیم الشان خدائی مدد ابدی طور پر حاصل ہے۔ وہ یہ کہ اگر وہ پیغمبر خدا کی سچی اور بے آمیز دعوت کو لے کر اٹھیں تو ان کے مخالفین کی بڑی سے بڑی کوششیں ہباءاً منثوراً ہو کر رہ جائیں گی۔ دعوت رسالت کو بد نام کرنے یا اس کو ناکام بنانے کی ہر کوشش کا وہی انجام    ہو گا جو خود ذاتِ رسالت کے معاملے میں ہوا ۔ یہ خدا وند عالم کا فیصلہ ہے ، اور خدا وند عالم کے فیصلہ کو کوئی بدلنے والا نہیں۔

ختم نبوت کا لازمی تقا ضا حفاظتِ نبوت ہے ، اور حفاظت نبوت کا لازمی تقاضا حفاظتِ امت ۔ یہ تینوں آپس میں لازم و ملزوم ہیں۔ ختم نبوت اس کے بغیر مکمل نہیں کہ نبوت کاریکارڈ پوری طرح محفوظ حالت میں موجود رہے۔ اور اس عالم اسباب میں نبوت کا ریکارڈاسی وقت محفوظ رہ سکتا ہے جب کہ ایک امت مسلسل اس کی پشت پر کھڑی ہوئی ہو۔

یہ صورت حال امت محمدی کی حفاظت کی سب سے بڑی ضمانت ہے ۔ اب امت کو صرف ایک کام کرنا ہے ۔ وہ نبوت کی چوکیدار بنی رہے ، جس میں نبوت کی تبلیغ و اشاعت بھی لازمی طور پر شامل ہے۔ اس کے بعد اغیار اور اعداء کے مقابلے میں اس کی حفاظت کا کام خود خدا کی طرف سے قیامت تک کیا جاتا رہے گا، اس کے لیے امت کو الگ سے اہتمام کرنے کی ضرورت نہیں۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom