دو قسمیں
ہر آدمی اپنی نفسیات کے مطابق عمل کرتا ہے ۔ یہی معاملہ مسلمانوں کا بھی ہے۔ کسی مسلمان کے اندر جس قسم کی نفسیات بنے گی ، اسی کے مطابق اس کے تمام اعمال ظاہر ہوں گے ۔ یہ نفسیات دو قسم کی ہو سکتی ہیں ، ان کو مختصر الفاظ میں اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے:
اسلام برحق ہے ، میں برحق ہوں
ان دو جملوں میں بظاہر صرف ایک لفظ کا فرق ہے ۔ ایک فقرہ میں "اسلام " ہے ، اور دوسرے فقرہ میں "میں " مگر اسی معمولی فرق میں مسلمانوں کے عروج وزوال کی پوری کہانی چھپی ہوئی ہے۔ مسلمان جب ایک زندہ گروہ ہوں تو وہ اسلام کو برحق سمجھتے ہیں۔ اور جب وہ تنّزل کا شکار ہوں تو اپنے آپ کوبرحق ۔ پہلے تصور سے خوفِ خدا کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور دوسرے تصور سے جھوٹے احساس ِبرتری کا ۔
اسلام بلا شبہ سب سے زیادہ سچا دین ہے۔ جب کسی آدمی پر اس کی سچائی منکشف ہوتی ہے تو اس کے اندر زبردست انقلاب آجاتا ہے۔ وہ اعلیٰ اخلاقیات کا پیکر بن جاتا ہے۔ وہ اسلام کو تمام انسانوں تک پہنچانے کے لیے بیتاب ہو جاتا ہے۔ ارشمیدس کو صرف پانی کا ایک قانون دریافت ہوا تھا۔ اس سے وہ اتنا بے خود ہوا کہ حوض سے ننگا نکل پڑا ، اور یوریکا، یوریکا( میں پا گیا ، میں پاگیا) کہتا ہوا باہر بھاگا۔ پھر کائنات کی سب سے بڑی سچائی جس کو مل جائے اس کا حال کیا ہو گا ۔
معرفت کے طور پر ملنے والا اسلام براہ راست خدا کی طرف سے ملتا ہے ۔ اس لیے ایسے شخص کے اندر وہ صفات ابھرتی ہیں جو خدا کو دیکھنے اور اس کا تجربہ کرنے والے کسی شخص کے اندر پیدا ہونی چاہئیں۔ وہ عظمت خداوندی سے کانپ جاتا ہے ۔ خدا کے کمالات کا احساس اس سے سر کشی کا مزاج چھین لیتا ہے ۔ اس کے برعکس جس شخص کو دین خاندانی اثاثہ کے طور پر ملے ، اس کو وہ قومی فخر یا خاندانی اعزاز کے ہم معنیٰ سمجھ لے گا۔ اس کے نتیجے میں اس کے اندر وہی چیز پیدا ہوگی جس کو ہم نے جھوٹے فخر کا نام دیا ہے ۔
سمندر کا پانی اڑ جائے تو اس میں صرف نمک ہی نمک رہ جائے گا۔ ایسا ہی کچھ معاملہ مسلمانوں کا بھی ہے۔ ان کے دین سے جب خدا کا خوف نکل جائے تو اس کے بعد وہ صرف نمک بن کر رہ جاتا ہے جس کا ذائقہ لوگوں کو بدمزہ کر دے ۔