فتح بغیر جنگ
امریکی ہفتہ وار ٹائم (4 جولائی 1988) کی کور اسٹوری جاپان سے متعلق ہے ۔ اس کا عنوان با معنی طور پر یہ ہے کہ کیا ایک اقتصادی دیو ایک عالمی طاقت بن سکتا ہے :
Super Japan: Can an economic giant become a global power?
1945 میں امریکہ نے جاپان کے اوپر فتح کی خوشی منائی تھی ۔ آج مفتوح جا پان خود امریکہ کے او پر فتح حاصل کر رہا ہے۔ ابتداءً یہ فتح صرف اقتصادی معنی میں تھی، مگر اب وہ دوسرے دائروں میں وسیع ہوتی جار ہی ہے ۔ امریکہ آج سب سے بڑا قرضدار ملک ہے جس کے اوپر 400 بلین ڈالر کا خارجی قرضہ ہے ۔ اس کے برعکس جاپان سب سے بڑا دائن ملک ہے جس نے دنیا کو 240 بلین ڈالر قرض دے رکھا ہے۔ امریکہ میں آج کل کثرت سے ایسی کتابیں چھپ رہی ہیں اور ایسے مضامین شائع ہو رہے ہیں جن میں بتایا جاتا ہے کہ امریکہ تیزی سے زوال کی طرف جا رہا ہے اور اس کے مقابلے میں جاپان تیزی سے ترقی کا سفر طے کر رہا ہے ۔ ان میں سے ایک کتاب کا نام یہ ہے :
Prof. Paul Kennedy, The Rise and Fall of the Great Powers
ٹائم کے مذکورہ شمارہ کو پڑھنے کے بعد اس کے قارئین نے اس کو بہت سے خطوط لکھے ۔ ان میں سے کچھ خط اس کی اگلی اشاعت (25 جولائی 1988) میں شائع ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک خط پرنسٹن کے برائن مرسکی (Brian Mirsky) کا ہے ۔ انھوں نے اپنے مختصر خط میں لکھا ہے کہ جاپان کی اقتصادی کامیابی پر آپ کا مضمون اس کو بالکل واضح کر رہا ہے کہ اگر چہ امریکہ نے جنگ جیتی تھی مگر جاپان نے امن کو جیت لیا :
Your article on Japan’s economic success makes it obvious that although the U.S. won the war, Japan won the peace.
جاپان کا یہ واقعہ بتاتا ہے کہ خدا کی دنیا میں امکانات کا دائرہ کتنا زیادہ وسیع ہے ۔ یہاں ایک مفتوح اپنے فاتح کے اوپر غالب آسکتا ہے ، بغیر اس کے کہ اس نے فاتح سے جنگ کی ہو، بغیر اس کے کہ اس کا اپنے فاتح سے کبھی ٹکر اؤ پیش آیا ہو ۔