خبر نامہ اسلامی مرکز -46
1۔گول مارکیٹ (نئی دہلی )میں ایک اجتماع ہوا جس میں تعلیم یافتہ افراد شریک ہوئے ۔ اس موقع پر صدر اسلامی مرکز نے ایک مفصّل تقریر کی ۔ تقریر کا موضوع تھا : موجودہ زمانہ میں اسلام کا احیاء ، مسائل اور امکانات ۔
2۔محمد حسین مقدم صاحب ( پیدائش 1954) عرب میں رہتے ہیں ۔ وہ کلاتھ امپورٹر ہیں۔ اپنے کام کے سلسلے میں انھیں اکثر انگلینڈ ، سوئزرلینڈ ، جرمنی اور دوسرے پورپی ملکوں میں جانا ہوتا ہے ۔ انھوں نے بتایا کہ وہ اپنے ساتھ الرسالہ انگریزی کے پرچے رکھتے ہیں اور سفر کے دوران جن سنجیدہ لوگوں سے ملاقات ہوتی ہے ان کو پیش کرتے ہیں۔ انھوں نےبتایا کہ جو لوگ پڑھتے ہیں وہ اچھے تاٴثر کا اظہار کرتے ہیں ۔
3۔صدر اسلامی مرکز کا ایک درس 20 اگست 1988 کو نئی دہلی میں ہوا تھا ۔ اس کا موضوع" عقیدۂ آخرت کا عقلی تجزیہ " تھا۔ درس کے بعد حاضرین میں سے ایک صاحب کا خط مؤرخہ 27 اگست 1988 موصول ہوا ہے ۔ اس خط کا ایک حصہ یہ ہے:
I take this opportunity to inform you that your talk on Akhirat had tremendous effect on the audience. Your points have been very well received and appreciated. One of the persons, who attended the meeting for the first time, said that he never expected such deeply explored materials from a theologian. (S. Shafiuddin, M.A.)
4۔جَن جاگرن جَن کلیان مومنٹ کی آل انڈیا کا نفرنس 17 - 18 ستمبر 1988 کو کانچی پورم (مدراس) میں ہوئی ۔ اس میں شرکت کے لیے صدر اسلامی مرکز کے نام دعوت نامہ موصول ہوا تھا ۔ مگر بعض دوسری مصروفیات کی بنا پر موصوف اس میں شرکت نہ کر سکے۔ البتہ تحریک کے ذمہ داروں کے نام مرکز کا انگریزی لٹریچر بذریعۂ ڈاک روانہ کر دیا گیاہے ۔
5۔"گاڈا رائزز " خدا کے فضل سے جدید طبقہ میں غیر معمولی مقبولیت حاصل کر رہی ہے۔ اس کا اندازہ کرنے کے لیے یہاں ایک خط کے الفاظ نقل کیے جاتے ہیں ۔ مسٹرایس بورا (سپر نٹنڈنگ انجینئر آسام ) اپنی فرمائش بھیجتے ہوئے لکھتے ہیں :
Please rush me one copy of God Arises (In English language) by Maulana Wahiduddin Khan.
6۔الرسالہ مشن کے ذریعے خدا کے فضل سے ایک نیا ذہن بن رہا ہے جو فرقہ وارانہ فسادات کی جڑ کاٹ رہا ہے ۔ ایک مقام کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہاں ایک شرپسند نے خنزیر کاٹ کر اس کا سر مسجد کے اندر ڈال دیا ۔ فجر کے وقت چند مسلمان جب اس مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے آئے تو انھوں نے خنزیر کا سر دیکھا۔ یہ الرسالہ کے پڑھنے والے لوگ تھے ۔ چنانچہ انھوں نے فوراً ہی اس کو بوری میں لپیٹا اور لے جا کر ایک گہرے گڑھے میں ڈال دیا ۔ یہ واقعہ جب مشہور ہوا تو بستی کے سر بر آوردہ لوگ اس سے بہت خوش ہوئے۔ جو واقعہ عام حالات میں بستی کی بربادی کا سبب بنتا وہ بستی کے اندر مسلمانوں کی اخلاقی عظمت اور ہندو مسلم تعلقات کی بہتری کا سبب بن گیا ۔
7۔مسٹر کے۔ این ۔ تیاگی (ریڈر میرٹھ کالج۔ میرٹھ) اپنے خط 3 ستمبر 1988 میں لکھتے ہیں :
I am a regular reader of your benevolent Journal for over a year now.
Its contents are not to the benefit of Muslims alone but to the people of all communities, castes and creed and to the members of any sex. The article 'A Journey' by Maulana Wahiduddin Khan (Al-Risala, Sept. 88) was revealing. The Conference on Communalism and National Integration held in August 1986 at Bombay gave the matured, deep rooted thinking of the Maulana on the vulnerable subject of communalism. At a time when fundamentalists in various communities are bent upon injecting the venom of communalism into the blood of ignorant masses this article and sustained thoughts portraying the real man in the Maulana will go a long way to diffuse the detonator of the communal bomb. I keep the Maulana with great esteem. I have carefully read the book Muhammad ––––The Prophet of Revolution by the same author.
8۔ الرسالہ میں جس طرح دعوت پر زور دیا جارہا ہے ، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ قارئین الرسالہ میں عام طور پر دعوت کا طاقتور جذبہ پیدا ہو رہا ہے ۔ لوگ اپنے اپنے حالات کے اعتبار سے مختلف صورتوں میں دعوتی ذمہ داری کو ادا کر رہے ہیں۔ ایک بڑے مقام پر بہت سے بیرونی ماہرین کام کرنے کے لیے آئے ہوئے ہیں ۔ وہاں ہمارے ساتھی ان سے رابطہ قائم کر کے الرسالہ انگریزی انہیں پہنچا رہے ہیں۔ احمد شریف صاحب (سیلم ) نے حال میں اپنا یا گھر بنوایا تو تعمیر کے دوران غیر مسلم مزدوروں اور مستریوں کو الرسالہ کے مضامین پڑھ کر سناتے اور ٹامل زبان میں اس کی تشریح کرتے ۔ وغیرہ
9۔ ابو الکلام آزاد اور نٹیل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (حیدر آباد) کے تحت مولانا ابوالکلام آزاد کی صد سالہ برسی منائی گئی ۔ اس کے تحت حیدر آباد میں تین روزہ پروگرام تھا ۔ اس کے لیے دعوت نامہ موصول ہوا ، اور 12 نومبر 1988 کے پروگرام میں صدر اسلامی مرکز کو چیف گیسٹ کے طور پر مقرر کیا گیا۔ مگر صدر اسلامی مرکز اپنی بعض مصروفیات کی بنا پر اس میں شریک نہ ہو سکے۔ البتہ متعلقہ موضوع سے متعلق کچھ تحریری مواد کا نفرنس کے منتظمین کے نام روانہ کر دیا گیا۔
10۔ ایک صاحب اپنے خط یکم ستمبر 1988 میں لکھتے ہیں : الرسالہ میری روح کی غذا بن چکا ہے۔ وہ قدم قدم پر میری رہنمائی کرتا ہے ۔ اس طرح میں بہت سے غلط اقدام سے محفوظ رہتا ہوں۔ یہ الرسالہ ہی ہے جس نے مجھے اس قابل کیا کہ میں اپنا احتساب خود کر سکوں (ڈاکٹر انور عباس ،امر وہہ)
11۔ڈاکٹر شکری سری لنکا کے انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز کے ڈائریکٹر ہیں۔ انہوں نے اپنے خط مورخہ 30 اگست 1988 میں الرسالہ (انگریزی) کے پیغام اور اس کی زبان و اسلوب کا غیر معمولی اعتراف کرتے ہوئے مرکز کی انگریزی کتابوں کے بارے میں مزید لکھا ہے:
I am also very much pleased to receive your two books Religion and Science and God Arises. You have marshalled all your arguments beautifully and convincingly in justifying the case for Divine revelation and also invalidating the secularist, empirical approach in the understanding of the mysteries of the universe and life. This will no doubt clear the mental confusion in which the contemporary youths are entangled due to the pernicious influence of modern secular civilization. (Dr M.A.M. Shukri)
12۔ایک صاحب اپنے خط 11 ستمبر 1988 میں لکھتے ہیں کہ الرسالہ کئی سالوں سے زیر ِمطالعہ ہے۔ الحمد للہ الرسالہ وقت کی اہم ترین تحریک ہے ۔ یہ وہ آواز ہے کہ ان شاء اللہ اس آواز سے قلوب مسلم ایسے بیدار ہوں گے جو اسلافِ اسلام کی جیتی جاگتی تصویر ہوں گے ۔ یہ وہ شمع ہے جو ہر اس قلب میں منور رہے گی جس میں ایمانی کی چنگاری موجود ہو ۔(محمد ادریس حبان رحیمی ، بنگلور)