غلط بیانی
انگریزی روز نامہ انڈین اکسپریس (19 اکتوبر 1988) میں اس کے ایڈیٹر مسٹر ارن شوری کے قلم سے ایک تفصیلی مضمون شائع ہوا ہے ۔ اس کی سنسنی خیز سرخی یہ ہے –––– مگر خود آیات کے بارے میں کیا :
But what about the verses themselves?
اس مضمون میں کئی باتیں کہی گئی ہیں ۔تاہم دوسری باتوں کو چھوڑتے ہوئے ہم اس کے صرف اس حصے کے بارے میں کچھ عرض کریں گے جس کا تعلق براہ راست طور پر قرآن سے ہے ۔ اس حصہ ٔمضمون کا خلاصہ یہ ہے کہ سلمان رشدی کی کتاب شیطانی آیات (Satanic Verses) پر حکومت نے جو پابندی لگائی ہے وہ اس لیے لگائی ہے کہ اس سے ایک فرقہ کے جذبات مجروح ہوتے ہیں ۔ اس منطق سے خود قرآن پر بھی پابندی لگائی جانی چاہیے کیوں کہ اس میں بھی نہیں آیتیں موجود ہیں جن سے دوسرے فرقوں کے لوگوں کے جذبات مجروح ہورہے ہیں یا مجروح ہو سکتے ہیں ۔
یہ آیتیں کیا ہیں۔ یہ آیتیں وہ ہیں جو جنگ سے تعلق رکھتی ہیں ۔ ارن شوری نے اس قسم کی کچھ آیتوں کو نقل کر کے یہ تاٴثر دینے کی کوشش کی ہے کہ قرآن اپنے ماننے والوں کو یہ حکم دیتا ہے کہ کافروں کو مارو ، انہیں قتل کرو ۔ اس طرح کی آیتیں واضح طور پر غیر مسلموں کے جذبات کو مجروح کرنےوالی ہیں۔ اس لیے ان کے خیال کے مطابق ، خود قرآن پر بھی پابندی لگنا ضروری ہے ۔
ارن شوری نے یہ بات آزادانہ تحقیق اور عقلی اظہار خیال (Rational discourse)کے نام پر کی ہے۔ مگر زیادہ صحیح یہ تھا کہ وہ اپنی اس بات کو خود ساختہ الزام یا غلط بیانی (Rational falsification) کا نام دیتے ۔ کیوں کہ انھوں نے قرآن کی جو چند آیتیں پیش کی ہیں وہ سب سیاق وسباق سے کاٹ کر پیش کی ہیں۔ اور اس طرح ان سے ایک ایسا خود ساختہ مفہوم نکالنے کی کوشش کی ہے جو خود آیتوں کے اندر موجود نہیں۔ یہاں ہم نمونے کے طور پر ان کے پیش کردہ حوالوں میں سے دو بنیادی حوالوں کا ذکر کریں گے۔
سورہ البقرہ کی دو آیتوں کے جزائی حصہ کا ترجمہ (انگریزی میں ) انھوں نے اس طرح نقل کیا ہے : اور ان کو نکالو جس طرح انھوں نے تم کو نکالا ہے ، اور فتنہ قتل سے بھی زیادہ سخت ہے(191)اور ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ نہ رہے اور دین اللہ کا ہو جائے (193)
اس طرح جنگ سے متعلق چند آیتیں نقل کرنے کے بعد انھوں نے سورہ الاحزاب کی ایک آیت کا ترجمہ (انگریزی میں ) اس طرح دیا ہے : اور کسی مومن اور مومنہ کے لیے گنجائش نہیں، جب کہ اللہ اور اس کا رسول کسی کام کا حکم دیدیں کہ پھر ان کو اس کام میں کوئی اختیار باقی رہے، اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کا حکم نہ مانے گا تو وہ صریح گمراہی میں پڑگیا (36)
اس طرح کے کچھ اقتباسات نقل کر کے مضمون میں یہ تاٴثر دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ قرآن غیرمسلموں کو مارنے اور انھیں قتل کرنے کا حکم دیتا ہے۔ اور جب خدا کا حکم آجائے تو قرآن کے مطابق ، مومنینِ قرآن پر لازم ہو جاتا ہے کہ وہ بے چون و چرا اس کی تعمیل کریں۔ یعنی تلوار لےکر اٹھیں اور غیر مسلموں کو ایک طرف سے مارنا شروع کر دیں ۔
ارن شوری کی اس لغو تشریح کا قرآن سے کوئی تعلق نہیں ۔ یہ سراسر ایک خود ساختہ تشریح ہے جو ناقص اقتباسات کی بنیاد پر بنائی گئی ہے۔ یہ بات اس وقت نہایت آسانی سے واضح ہو جاتی ہے جب کہ مذکورہ آیات کو ان کے سیاق (Context) میں رکھ کر دیکھا جائے ۔
1۔سب سے پہلے سورہ البقرہ کو لیجیے۔ اس کے جس حصہ سے مذکورہ الفاظ لیے گئے ہیں ،اس پورے حصہ کا ترجمہ یہ ہے:
اور اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑائی کرتے ہیں ، اور زیادتی نہ کرو ، اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ اور ان کو قتل کرو جہاں انھیں پاؤ اور ان کو نکالو جہاں سے انھوں نے تم کو نکالا ہے ۔ اور فتنہ قتل سے زیادہ سخت ہے، اور ان سے مسجد حرام کے پاس نہ لڑو جب تک کہ وہ تم سے اس میں جنگ نہ چھیڑیں ، پس اگر وہ تم سے جنگ چھیڑیں تو ان سے جنگ کرو، یہی سزا ہے انکار کرنے والوں کی۔ پھر اگر وہ باز آجائیں تو اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ (Persecution) باقی نہ رہے اور دین اللہ کا ہو جائے کہ پھر اگر وہ باز آجائیں تو اس کے بعد سختی نہیں ہے مگر ظالموں پر(193 – 193)
مذکورہ آیت میں "ان سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں" ( وَقَاتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ الَّذِيْنَ يُقَاتِلُوْنَكُمْ) کے الفاظ ہیں۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اس آیت میں دفاع (Defence) کا حکم دیا گیا ہے نہ کہ جنگ کا ۔ یعنی یہ کوئی مطلق یا عمومی ہدایت نہیں ہے ، بلکہ اس کا تعلق اس ہنگامی صورت حال سے ہے جب کہ کچھ لوگوں نے جارحیت کا آغاز کر کے اہلِ ایمان کے خلاف جنگ چھیڑ دی ہو۔ گویا کہ یہ دفاع کی آیت ہے نہ کہ قتال کی آیت ۔ آیت کے اس ٹکڑے کا صحیح انگریزی ترجمہ یہ ہوگا :
And fight in the way of God those who fight you (2:190)
اب مسٹر ارن شوری یا ان کے ہم خیال لوگ بتائیں کہ دنیا کا کون سا قانون یا کون سا بین اقوامی رواج ہے جو دفاع کو قابل اعتراض قرار دیتا ہے۔ مسٹر ارن شوری کو اگر ہندستان کا پرائم منسٹر بنا دیاجائے توکیا وہ ایساکریں گے کہ وزارت دفاع کا شعبہ ہمیشہ کے لیے ختم کردیں۔ کیا وہ برّی ، بحری ، اور ہوائی افواج کے تمام لوگوں کو ریٹائر کر کے گھر بھیج دیں گے۔ ملک کے بچاؤ کے لیے جو ہتھیار جمع کیے گئے ہیں ان کو وہ بحر ہند میں پھینکو ا دیں گے اور ملک میں فوجی سامان تیار کرنے کے جتنے کارخانے ہیں ان سب کو تبدیل کر کے انھیں کھیل اور تفریح کا کلب بنا دیں گے۔ اگر وہ ایسا نہیں کریں گے اور یقیناً نہیں کریں گے تو انھیں کیا حق ہے کہ قرآن کے ایک ایسے حکم پر اعتراض کریں جو دنیا کے تمام قوانین اور تمام بین اقوامی رواج کے مطابق عین درست ہے اور مسلمہ طور پر ایک جائز حق ہے۔ یعنی جارحانہ کاروائی کے خلاف دفاع کا حق ۔
اب دوسری سورہ (الاحزاب )کے اقتباس کو لیجیے ۔اس آیت کا پورا ترجمہ یہ ہے : اور کسی مومن مرد یاکسی مومن عورت کے لیے گنجائش نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملہ کا فیصلہ کر دیں تو پھر ان کے لیے اس میں اختیار باقی رہے ۔ اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا تو وہ صریح گمراہی میں پڑ گیا (36)
سورہ الاحزاب کی یہ آیت جس سلسلہ ٔبیان میں آئی ہے ، اس کا قطعاً کوئی تعلق جنگ سے نہیں ہے ۔ یہ آیت در اصل ایک معاشرتی اصلاح کے ذیل میں نازل ہوئی ہے ۔ اس کی تفصیل تفسیر کی کتابوں میں موجود ہے جس کا خلاصہ یہ ہے ۔
مدینہ میں ایک خاتون تھیں جن کا نام زینب بنت جحش تھا۔ وہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی زاد بہن تھیں ، اور قریش کے اعلیٰ خاندان سے تعلق رکھتی تھیں ۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے 4 ھ میں ان کے یہاں زید بن حارثہ کے لیے نکاح کا پیغام دیا جو ایک آزاد کردہ غلام تھے۔ یہ بظاہر ایک نابرابری کارشتہ تھا۔ چنانچہ زینب بنت جحش اور ان کے گھر والوں نے اس کو نامنظور کر دیا، خودزینب نے کہا کہ میں زید سے نسب میں بہتر ہوں (أنا خیر منه حسباً)
زینب اور ان کے گھر والے سب کے سب مسلمان تھے ۔ انھوں نے حسب نسب کے فرق کی بنیاد پر اس رشتہ کو ماننے سے انکار کیا تھا جو قرآنی اسکیم کے سراسر خلاف تھا۔ اس وقت قرآن میں یہ آیت اتری ۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اسلام کی شریعت خدا کے احکام پر مبنی ہے نہ کہ قومی اور خاندانی رواج پر ۔ اگر تم واقعتاًاللہ اور رسول کے مومن ہو تو تمہیں وہی کرنا چاہیے جس کا حکم خدائی شریعت میں دیا گیا ہے۔ روایات بتاتی ہیں کہ اس آیت کے اترتے ہی زینب اور ان کے گھر والوں نے خاندانی نخوت کو ترک کر دیا اور خدا کے حکم کے مطابق زید بن حارثہ سے نکاح پر راضی ہو گئے (فامتنعت ثم أجابت)
اصل پس منظر کے اعتبار سے دیکھیے تو مذکورہ آیت ایک عظیم سماجی انقلاب کا عنوان ہے جب کہ تاریخ میں پہلی بارمصنوعی اونچ نیچ کوختم کرکے حقیقی انسانی مساوات کو قائم کیا گیا۔ قرآن کی یہ آیت نہ صرف مومنین قرآن کے لیے بلکہ تمام قوموں کے لیے فخر کی آیت ہے ۔ یہ آیت اس دن کو یاد دلاتی ہے جب ہزاروں سال سے جکڑی ہوئی انسانیت کو جھوٹے بندھنوں سے آزادی حاصل ہوئی اور تاریخ میں وہ نیا عمل شروع ہوا جو موجودہ زمانے میں مساوات انسانی کے عمومی اعتراف کے مرحلہ تک پہنچا۔
آدمی کے اندر اگر اعتراف کا حوصلہ ہو اور اس کو دیکھنے والی آنکھ حاصل ہو تو وہ اس آیت میں سچی انسانیت کی روشنی دیکھے گا ، مگر جو لوگ بصیرت سے محروم ہوں ، ان کے لیے تو اجالا بھی ویسا ہی تاریک ہے جیسا کہ اندھیرا :
گرنہ بیند بروز شپرۂ چشم چشمۂ آفتاب را چہ گناه
ایک مثال
انڈین پینل کوڈ کی دفعہ 96 سے لے کر دفعہ 106 تک ذاتی دفاع کے بارے میں ہیں۔ اس کی دفعہ 96 آدمی کو یہ حق دیتی ہے کہ وہ اپنے دفاع (بچاؤ)میں لڑے۔ اگر کسی شخص پر جارحیت کی جائے اور وہ اپنے دفاع میں دوسرے شخص پر حملہ کرے تو یہ قانونی اعتبار سے اس کے لیےجرم نہیں ہو گا :
Nothing is an offence which is done in the exercise of the right of private defence.
اب اگر کوئی شخص ان دفعات کو لے کر یہ کہنے لگے کہ ہندستان کا قانون ہر آدمی کو کھلی اجازت دیتا ہے کہ وہ اپنے مذہب کے خلاف جس کو پائے اس کو مارنا شروع کر دے ۔ تو ایسا شخص یقیناً غلطی کرے گا۔ کیوں کہ وہ خصوصی حکم کو عمومی حکم بنا رہا ہے ۔ وہ دفاع کے حکم سے آزادی ِمذہب کا حکم نکال رہا ہے ۔
ہندستان کا قانون مذہبی آزادی کے معاملے میں کیا ہے ، اس کو پینل کوڈ (قانون فوجداری) سے اخذ نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے لیے دستور ہندکی وہ دفعہ دیکھنی ہوگی جو بنیادی حقوق (Fundamental rights) سے تعلق رکھتی ہے۔ اس کو دیکھنے سے معلوم ہو گا کہ ہندستان کے قانون نے مذہب کے معاملے میں ہر آدمی کو پوری آزادی عطا کی ہے ۔ اس کے مطابق ، نہ کسی سے اپنی پسند کاعقیدہ رکھنے کا حق چھینا جا سکتا اور نہ اس معاملےمیں اس کو مجبور کیا جا سکتا ۔
مسٹرارن شوری نے یہی غلطی قرآن کو سمجھنے میں کی ہے۔ وہ قانونِ دفاع اور قانونِ مذہب کو ایک دوسرے میں گڈ مڈ کر رہے ہیں۔ انھوں نے قرآن سے "قتال" کی جو آیتیں نقل کی ہیں وہ سب دفاع کے موضوع سے تعلق رکھتی ہیں۔ یعنی یہ کہ جارحیت کے وقت مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے۔ جہاں تک اس دوسرے سوال کا تعلق ہے کہ مذہب کی آزادی کے بارے میں قرآن کا نقطہ ٔنظر کیا ہے ، اس سلسلےمیں مسٹر ارن شوری کو چاہیے کہ وہ قرآن کی ان آیتوں کا مطالعہ کریں جو خاص طور پر اس دوسرے مسئلہ سے تعلق رکھتی ہیں ۔ مثلاً :
1۔ دین کے معاملے میں کوئی زبردستی نہیں، ہدایت گمراہی سے الگ ہو چکی ہے ۔ پس جو شخص طاغوت (شیطان) کا انکار کرے اور اللہ پر ایمان لائے، تو اس نے مضبوط حلقہ کو پکڑ لیا جوٹوٹنے والا نہیں ، اور اللہ سننے والا ، جاننے والا ہے (البقرہ: 256)
2۔ پس تم لوگوں کو نصیحت کرو ، تم صرف نصیحت کرنے والے ہو۔ تم ان کے اوپر داروغہ نہیں ہو (الغاشیہ: 21 – 22)
قرآن میں اس طرح کی بہت سی آیتیں ہیں جو واضح طور پر بتاتی ہیں کہ عقیدہ یا مذہب کا معاملہ تمام تر ذاتی ضمیر کا معاملہ ہے ، ہر آدمی کو یہ حق ہے کہ وہ جس عقیدہ یا جس مذہب کو چاہے مانے اور جب چاہے اپنے ذاتی فیصلہ سے اس کو بدل دے۔ مذہب کے معاملے میں کسی پر کوئی زبردستی نہیں۔مذہب کے معاملے میں صرف تبلیغ ہے نہ کہ جبر۔
خلاصہ یہ کہ اسلامی قانون جارحیت کے موقع پر ہر شخص یا قوم کو اپنے دفاع (بچاؤ ) کا حق دیتا ہے ۔ مگر جہاں تک مذہبی آزادی کا تعلق ہے ، وہ ہر ایک کے لیے مذہبی آزادی کا حق تسلیم کرتا ہے۔ "قتال" کے قرآنی حکم کا تعلق صرف پہلے معاملہ سے ہے ، دوسرے معاملہ سے جنگ وقتال کا کوئی تعلق نہیں ۔