ضمیر کی آواز

کوریا 1905 سے جاپان کے تحت تھا ۔ دوسری عالمی جنگ میں جاپان کی شکست کے بعد کوریا کی تقسیم عمل میں آئی ۔ نارتھ کو ریا روس کے زیر اثر آگیا اور ساؤتھ کوریا امریکہ کے زیر اثر ۔

 اسی وقت سے ملک کے دونوں حصوں میں رقابت جاری ہے اور دونوں برا بر ایک دوسرے کو گرانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں ۔ 1987 میں ساؤتھ کوریا میں اولمپک تھا ۔ اولمپک کی میزبانی موجودہ زمانے میں ایک باعزت چیز سمجھی جاتی ہے ۔ چنانچہ نارتھ کوریا نے اس کو نا کام کرنے کا ایک خفیہ منصوبہ بنایا ۔ اس منصوبے کا مقصد یہ تھا کہ ساؤتھ کوریا کے سفر کو پُر خطر بنا دیا جائے تاکہ اولمپک کے موقع پر باہر کے ملکوں سے ساؤتھ کو ریا جانے والوں کی حوصلہ شکنی ہو :

to discourage foreign countries from participating in the Seoul Olympics.

اس مقصد کے لیے ایک 22 سالہ کو ریائی عورت کم ہیان ہی (Kim Hyon-Hee) اور 69 سالہ مرد کم سنگ (Kim Sung II) کو تیار کیا گیا ۔ منصوبے کے مطابق دونوں بیٹی اور باپ کے روپ میں 29 نومبر 1987 کو ساؤتھ کوریا کی ایر لائنز فلائٹ 858 پر سوار ہوئے ۔ یہ جہاز بغداد سے سیول جارہا تھا۔ عورت کے پاس ایک پرس تھا جس کو اس نے "اور ہیڈ لا کر" میں رکھ دیا ۔ جہاز درمیان میں ابوظبی کے ہوائی اڈہ پر اترا تو وہ پرس کو جہاز کے خانے میں چھوڑ کر اتر گئی ۔

مذکورہ پرس میں بظاہر ایک ٹرانسسٹر تھا، مگر حقیقتاًوہ ٹائم بم تھا۔ جہاز جب ابو ظبی سے اڑ کر دوبارہ فضا میں پہونچا تو بم پھٹ گیا۔ جہاز تباہ ہو گیا ۔ اس وقت جہاز میں 115 مسافر تھے جو سب کے سب ہلاک ہو گئے ۔

ابوظبی میں اترنے والے مسافروں کا ریکارڈ دیکھ کر فوراً ان کی تلاش ہوئی ۔ وائرلیس کے ذریعے مختلف مقامات پر پیغام بھیج دیا گیا۔ آخر کار عورت اور مرد دونوں روم کے ہوائی اڈہ پر پکڑ لیےگئے ۔ دونوں کے پاس سائنائڈ کیپسول (Cyanide capsule)تھا جس کو انھوں نے گرفتار ہوتےہی فور اًنگل لیا۔ مرد اسی وقت مر گیا تا ہم عورت بچ گئی۔

کچھ روز اسپتال میں رہنے کے بعد اس کو سیول لے جایا گیا۔ وہاں 15 جنوری 1988 کو ایک پریس کا نفرنس ہوئی۔ اس میں مختلف ملکوں کے اخباری نمائندے بڑی تعداد میں جمع تھے۔ عورت کو اس پر یس کا نفرنس میں پیش کیا گیا۔ اس کی تصویر انڈین اکسپریس (17 جنوری 1988) میں چھپی ہے جس میں وہ سخت حو اس باختہ حالت میں دکھائی دے رہی ہے ۔

 ٹائم (25 جنوری 1988) کی رپورٹ کے مطابق، عورت نے روتے ہوئے اور سسکیاں بھرتے ہوئے اخباری نمائندوں کے سامنے کہا کہ جو گناہ میں نے کیا ہے وہ اتنا برا ہے کہ اس کے لیے مجھےسخت ترین سزادی جائے اور مجھے ایک سو بار قتل کیا جائے:

I should be punished and killed a hundred times for my sin.

یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ انسان کے اندر پیدائشی طور پر ایک نہایت طاقت ور استعداد موجود ہے ۔ یہ وہی ہے جس کو عام طور پر ضمیر کہا جاتا ہے۔ کسی لالچ میں یا کسی وقتی اشتعال کے تحت کوئی شخص ایک برا فعل انجام دے سکتا ہے ۔ مگر جیسے ہی وقتی جذبے کا طوفان ہٹتا ہے ۔ اس کا اندرونی ضمیر اس کو ملامت کرنے لگتا ہے ۔ ضمیر کو چھوتے ہی اس کا ٹائر پنکچر ہو جاتا ہے ۔ وہ اس قابل نہیں رہتا کہ اپنے جرم کو مزید جاری رکھ سکے ۔

بعض سیاه قلب یا پیشہ ور افراد کا اس میں استثناء ہو سکتا ہے۔ مگر عام انسانی فطرت یہی ہے۔ عام انسان اپنے ضمیر کی آواز کو دبا نہیں سکتا ۔کسی انسان کو اس کے جرم سے روکنے کی سب سے آسان تدبیر یہ ہے کہ اس کے اندر چھپے ہوئے ضمیر کو مخاطب بنایا جائے ۔ ضمیر گویا خدا کی عدالت ہے۔ اور اگر مقدمہ ضمیر کے سامنے رکھ دیا جائے تو اس کے لیے ممکن نہیں کہ وہ سچائی کے سوا کسی اور بات کا فیصلہ کرے ۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom