قربانی اسلام میں
حج ایک عالمی اور اجتماعی عبادت ہے۔ اس کی تاریخیں قمری مہینے کے مطابق مقرر کی گئی ہیں ۔ حج کے مراسم مکہ اور اس کے آس پاس کے مقامات پر پانچ دن کے اندر ، 8 ذی الحجہ سے 12 ذی الحجہ تک ادا کیے جاتے ہیں۔ اس دوران دس ذی الحجہ کومنی ٰمیں قربانی کی جاتی ہے ۔ جانور کو ذبح کرتےہوئے جو دعا پڑھی جاتی ہے وہ یہ ہے: إِنِّي وَجھتُ وَجْهيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّماوات والارض حنيفاً وما انا من المشركين إن صلاتي وَنُسُكى ومَحْيَايَ وَمَمَاتِي الله رب العالمين - لا شَرِيكَ لَه وبذالك أُمِرْتُ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِین اللهُمَّ مِنْكَ وَلَكَ۔ بِسمِ اللهِ الله اكبر۔
میں نے یکسو ہو کر اپنا چہرہ اس ذات کی طرف پھیر لیا جس نے آسمانوں کو اور زمین کو پیدا کیا ہے۔ اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔ بے شک میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ کے لیے ہے جو سارے جہان کا مالک ہے ۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے۔ اور میں فرماں برداروں میں سے ہوں۔ اے اللہ یہ تیرا ہی دیا ہوا ہے اور تیرے ہی لیے ہے۔ اللہ کےنام سے ، اللہ سب سے بڑا ہے ۔
اس دعا میں وہ مقصد پوری طرح جھلک رہا ہے جس کے لیے قربانی کا طریقہ مقر رکیا گیا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ جانور کو ذبح کرنا محض ایک علامتی واقعہ ہے۔ اصل چیز جو حاجی سے یا صاحبِ قربانی سے مطلوب ہے وہ اس کی اپنی قربانی ہے۔ اصل مقصود ذاتی ذبیحہ ہے ، جانور کا ذبیحہ تو صرف ایک ظاہری علامت کے طور پر مقرر کیا گیا ہے۔
ذاتی ذبیحہ یا ذاتی قربانی سے کیا مراد ہے۔ اس سے مراد وہ انسان بننا ہے جس کو مذکورہ دعا میں حنیف اور مسلم کہا گیا ہے۔ یعنی سرکشی کا طریقہ چھوڑ کر پوری طرح تابع دار اور فرماں بردار بن جانا۔ اپنی خواہش کو رہنما بنانے کے بجائے خدا کے حکم کو اپنا رہنما بنانا۔ اپنی چیزکو اپنا کسب سمجھنے کے بجائے اس کو خدا کا عطیہ سمجھنا ۔ یہی اسلام (حوالگی ) قربانی کی اصل روح اور اس کی اصل اسپرٹ ہے۔ کسی شخص کی قربانی اسی وقت قربانی ہے جب کہ قربانی سے اس کے اندر یہ روح پیدا ہو جائے ۔ اسی لیے قرآن میں کہا گیا ہے کہ اللہ کو جانور کا گوشت اور خون نہیں پہنچتا۔اللہ کو تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے (الحج: 27)
خوراک ہر آدمی کی ایک ناگزیر ضرورت ہے ۔ آدمی اس دنیا میں کھائے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اسی خوراک کو قربانی کے ذریعہ ایک بہت بڑے سبق میں ڈھال دیا گیا ہے ۔ ذی الحجہ میں خدا کے نام پر جو جانور ذبح کیا جاتا ہے ، وہ گویا وہی جانور ہے جس کو عام حالات میں بھی ذبح کر کے آدمی اپنی خوراک بناتا ہے ۔ مگر حج کی مقدس عبادت کے ساتھ اس کو جوڑ کر اس بات سے سبق کا ذریعہ بنا دیا گیا کہ جس طرح تم جانور کو قربان کرتے ہو ، اسی طرح تمہیں اپنے آپ کو قربان کرنا ہے ۔ قربانی کے جانور کے گوشت کو صاحب قربانی خود کھاتا ہے اور دوسروں کو کھلاتا ہے ۔ اور اگر وہ مقدار میں زیادہ ہو تو اجازت ہے کہ اس کو آئندہ استعمال کے لیے محفوظ کر لیا جائے۔
قربانی کی ظاہری صورت تو جانور کو ذبح کرنا ہے مگر اس کی روح اور اس کی اسپرٹ یہ ہےکہ اعلیٰ انسانی تقاضوں کے لیے اپنے آپ کو وقف کیا جائے ۔ مقصد یا آدرش کی راہ میں اپنے آپ کو فنا کر دیا جائے ۔ ہر چیز کی ایک ظاہری صورت ہوتی ہے اور ایک اس کی اندرونی اسپرٹ ہوتی ہے۔ یہی معاملہ قربانی کا ہے۔ اس کی ظاہری صورت ذبیحہ ہے، اور اس کی اصل اسپرٹ قربانی ہے۔
غور کیجئے تو ایک صحت مند سماج کو بنانے کے لیے واحد سب سے بڑی چیز جو در کا رہے ، وہ یہ ہے کہ اس کے افراد کے اندر قربانی کی اسپرٹ زندہ ہو ۔ افراد کی قربانی پر ہی سماج اور قوم کو زندگی ملتی ہے ۔ یہی وہ سبق ہے جو قربانی کے ذریعہ صاحب قربانی کو دیا جاتا ہے۔
اس کی ایک مثال خود اس حکم کے اندر موجود ہے جو سفر حج کے دوران حاجی کو دیا گیا ہے۔ قرآن میں حکم ہوا ہے کہ جب حج کے لیے نکلو تو جدال نہ کرو ( البقرہ: 197) یعنی سفر کے دوران تمہار ا سابقہ جن لوگوں سے پیش آتا ہے ان سے جھگڑا اور تکرار نہ کرو ۔ یہ ظاہر ہے کہ کوئی شخص خواہ مخواہ کسی سے جھگڑا اور تکرار نہیں کرتا۔ اس قسم کے نا خوش گوار واقعات ہمیشہ ردِّ عمل کے طور پر پیش آتے ہیں۔ یعنی ایک ساتھی کی طرف سے کوئی قابل شکایت بات پیش آئی ، اس پر دوسراسا تھی بگڑ کر اس سے لڑنے لگا۔
اس حقیقت کو ذہن میں رکھئے تو مذکورہ حکم کا مطلب یہ ہے کہ قابل شکایت بات پیش آنے کے باوجود جھگڑا نہ کرو ۔ یہ اعلیٰ اخلاق کی بات ہے ، اور اس قسم کا اعلیٰ اخلاق قربانی کے بغیر ممکن نہیں۔ آدمی جب اپنے اندر اٹھنے والے جوابی اشتعال کو دباتا ہے ، وہ اپنے منفی جذبات کو قربان کر دیتا ہے تب جاکر یہ ممکن ہوتا ہے کہ وہ اپنے ساتھی کی قابل شکایت بات پر اس سے جدال نہ کرے ۔ یہ قربانی ہی وہ زمین ہے جس پر وہ اخلاق قائم ہوتا ہے جو حاجی سے مطلوب ہے۔
فرد کے جذبات کی یہی قربانی صحت مند سماج بنانے کی واحد تد بیر ہے۔ جب بہت سے انسان مل کر رہتے ہیں تو لازماً ایسا ہوتا ہے کہ ایک کو دوسرے سے ٹھیس پہنچتی ہے ۔ ایک کا مفاد دوسرے کے مفاد سے ٹکراتا ہے۔ ایسی حالت میں اگر لوگ جو اب اور ردِّ عمل کا طریقہ اختیار کریں تو پورا سماج خلفشار کا شکار ہو جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ سماجی نظام کو بہتر حالت پر باقی رکھنے کی واحد تدبیر یہ ہے کہ لوگ ایک دوسرے کے بارے میں برداشت سے کام لیں جس کا دوسرا نام جذبات کی قربانی ہے۔ یعنی آدمی شکایت کو نظر انداز کرے۔ وہ ناگواری کو بھول کے خانے میں ڈال دے۔ وہ اس طرح کے معاملات میں صبر و ضبط کا طریقہ اختیار کرے نہ کہ جواب اور ردِّ عمل کا۔
قربانی کا سلوک ہی بہتر سماج کے قیام کا واحد ضامن ہے۔ جس سماج کے افراد میں برداشت اور قربانی کا مادہ نہ ہو ، اس سماج میں کبھی امن اور انصاف کا ماحول قائم نہیں ہو سکتا۔ افراد کی قربانی سماج کو زندگی عطا کرتی ہے۔ جس سماج کے افراد قربانی والی روش پر راضی نہ ہوں ، اس سماج کو اس دنیا میں زندگی اور ترقی کی نعمت بھی نہیں مل سکتی۔
قربانی کا طریقہ ہر مذہب میں رائج رہا ہے۔ یہ ایک مذہبی رسم ہے جس میں کسی چیز کو خدا کی نذر کیا جاتا ہے تاکہ اس کا تقرب اور وسیلہ حاصل کیا جائے ۔ یہ طریقہ ہر مذہب میں اور ہر دور میں پایا جاتا رہا ہے۔ یہ خدائے کبیر کے سامنے انسان صغیر کا نذرانہ ہے۔ آخری چیز جو کسی کے سامنے پیش کی جائے وہ جان ہے۔ انسان جب خدا کی عظمت سے سرشار ہوتا ہے تو وہ چاہتا ہے کہ اپنی جان اس کے اوپر فدا کر دے۔ اس موقع پر گو یا اللہ تعالیٰ اپنی خصوصی عنایت سے آدمی کی جان کے فدیہ کے طور پر جانور کی قربانی کو قبول کر لیتا ہے ۔ اور انسان کو موقع دیتا ہے کہ وہ زندہ رہ کر دنیا میں اعلیٰ مقصد کے لیے کام کرے ۔ وہ اپنی سرفروشی کے جذبات کو تعمیری راہوں کی طرف موڑ دے ۔
حج میں ضبط و تحمل کا تعلق محض انسانوں تک محدود نہیں ہے، بلکہ جانوروں تک کے بارے میں حاجیوں کو اسی کا حکم دیا گیا ہے۔ حجۃ الوداع کے سلسلے میں ایک حدیث ان الفاظ میں آتی ہے :
حَدَّثَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما، أَنَّهُ دَفَعَ مَعَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم يَوْمَ عَرَفَةَ، فَسَمِعَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم وَرَاءَهُ زَجْرًا شَدِيدًا وَضَرْبًا وَصَوْتًا لِلْإِبِلِ، فَأَشَارَ بِسَوْطِهِ إِلَيْهِمْ، وَقَالَ: "أَيُّهَا النَّاسُ، عَلَيْكُمْ بِالسَّكِينَةِ؛ فإِنَّ الْبِرَّ لَيْسَ بِالْإِيضَاعِ (صحیح البخاری،حدیث نمبر1681)
حضرت عبد اللہ بن عباس کہتے ہیں کہ عرفہ کے دن انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھا کوچ کیا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیچھے سخت ڈانٹ سنی اور اونٹ کو مارتے دیکھا۔ آپ نے اپنے کوڑے سے ان کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا کہ اے لوگو ، تم پر سکون لازم ہے۔ کیوں کہ نیکی تیز چلنے کا نام نہیں ۔