تجربہ کے بعد

ایک امریکی خاتون لنڈا برٹن (Linda Burton) نے اپنے خاندانی تجربات پر ایک کتاب لکھ کر شائع کی ہے جس کا نام ہے: تمہارے جیسی ایک تیز عورت گھر پر رہ کر کیا کام کرتی ہے :

What's a Smart Women Like You Doing at Home?

مذکورہ خاتون کی کہانی کا خلاصہ ، ان کے لفظوں میں یہ ہے کہ میرا گھر پر رہنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ میں ایک کمپنی میں پورے وقت کی ملازم تھی۔ 33 سال کی عمر میں میرے یہاں ایک لڑکا پیدا ہوا۔ اس کو سنبھالنے میں مجبورانہ طور پر مجھے اپنی ملازمت چھوڑنی پڑی۔ یہاں تک کہ میرے لیے معاشی مسائل پیدا ہو گئے۔اور میں نے دوبارہ باہر کا کام کرنا شروع کر دیا ۔

میں اپنے بچے کے لیے شام کا وقت اور ہفتہ کی چھٹی کا دن دے سکتی تھی۔ مگر وہ ناکافی تھا۔ اب میں نے اس کے لیے تحفظ اطفال کا ایک ادارہ تلاش کیا۔ مگر ایک مہینےکے بعد ہی اس کو ناقص سمجھ کر مجھے چھوڑ دینا پڑا میں ملازمت ترک کر کے دوبارہ گھر پر رہنے لگی تاکہ بچے کی دیکھ بھال کر سکوں۔ میں دو سال تک کسی زیادہ بہتر ادارہ کی تلاش میں رہی۔ یہاں تک کہ میرے یہاں دوسرا بچہ پیدا ہو گیا۔

 میں نے دوبارہ ایک ملازمت کرلی اور اپنے دونوں بچوں کو گھر یلو قسم کے تحفظ اطفال کے ادارہ میں ڈال دیا۔ مگر اس کی کارکردگی پر مجھے اطمینان نہ ہو سکا۔ آخر کار میں نے خود اپنے گھر پر انفرادی خدمات حاصل کیں۔ میں نے پایا کہ آپ خواہ کتنا ہی قاعدہ قانون بنائیں ۔ کتنا ہی زیادہ رقم خرچ کریں مگر یہ ناممکن ہے کہ ایک شخص کسی دوسرے کے لیے محبت کر سکے :

In time, my search for child care taught me a critical lesson: no matter how many licences we issue, how many guidelines we establish or how much money we pay, it is impossible to have quality controls over the capacity of one human being to love and care for another (p. 94).

میں ایک ایسا شخص چاہتی تھی جو نرم مزاج اور محبت کرنے والا ہو۔ جو مستعد اور کسی قدر پُر مزاح ہو۔ ایک زندہ شخص جو میرے بچوں کی تخلیقیت کو بڑھائے ، وہ ان کو تفریح کے لیے باہر بھی لے جائے۔ وہ ان کے تمام چھوٹے چھوٹے سوالوں کا جواب دے ۔ وہ ان کو میٹھی نیند سلائے ۔ آہستہ آہستہ اور تکلیف دہ طور پر میں اس حیرت ناک واقفیت تک پہنچی کہ جس شخصیت کو میں برسوں سے تلاش کر رہی تھی وہ میری اپنی ناک کے نیچے موجود ہے ، یعنی میں خود ۔ یہ ہے وہ کام جو میرے جیسی تیز عورت اپنے گھر کے اندرکر رہی ہے :

I had wanted someone who was loving and tender, with a sense of humour and an alert, lively manner –––––– somebody who would encourage my children's creativity, take them on interesting outings, answer all their little questions, and rock them to sleep. Slowly, painfully, I came to a stunning realization: the person I was looking for was right under my nose. I had desperately been trying to hire me. And that's what a smart woman like me is doing at home. (Reader's Digest, August, 1988)

مذہب کی تعلیم کے تحت معاشرت کا یہ اصول مقرر کیا گیا تھا کہ مرد کمائے اور عورت گھر کی دیکھ بھال کرے ۔ اس طرح تقسیم کار کے اصول پر دونوں زندگی کا کاروبار چلائیں ۔ یہ ایک انتظامی بندو بست تھا نہ کہ کسی کو بڑا درجہ اورکسی کو چھوٹا درجہ دینا۔ مگر جدید دور میں" آزادیِ نسواں" کی تحریک اٹھی جس نے اس طریقے کو عورت کی تصغیر کے ہم معنی قرار دیا۔ اور یہ نعرہ دیا کہ دونوں صنفوں کو کسی تقسیم یا حد بندی کے بغیر کام کرنا چاہیے۔ یہ نظریہ اتنا پھیلا کہ عورتوں کی ایک پوری نسل گھر سے باہر نکل پڑی ۔

نام نہاد مساوات کے اس تجربے پر اب تقریباً سو سال بیت چکا ہے ۔ خاص طور پر مغربی دنیا میں اس کا تجربہ آخری ممکن حد تک کیا گیا ہے۔ مگر ان تجربات نے اس کی افادیت ثابت کرنے کے بجائے صرف اس کا نقصان ثابت کیا ہے ۔ موجودہ مغربی معاشرہ میں مختلف انداز سے مسلسل اس کی مثالیں سامنے آر ہی ہیں ۔ انھیں میں سے ایک مثال وہ ہے جس کو اوپر نقل کیا گیا ۔

 مذہب نے مرد اور عورت کے عمل کے درمیان یہ تقسیم رکھی تھی کہ مرد معاش فراہم کرے،اور عورت نئی نسل کی اخلاقی تعمیر کرے :

Man the bread-earner, woman the character-builder

جدید تہذیب نے اس مذہبی تعلیم سے انحراف کیا۔ مگر جدید تہذیب کے تجربات نے صرف یہ کیا ہے کہ اس نے مذہب کی تعلیمات کی صداقت کو از سر نو مزید قوت کے ساتھ ثابت کر دیا ہے ۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom