دین کے بدلے دنیا
ڈیڑھ ہزار برس پہلے ساری دنیا میں شرک کا غلبہ تھا۔ حتٰی کہ توحید کے گھر ، کعبہ کو بھی بت خانہ بنا دیا گیا تھا ۔ اس وقت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں" تحفظ کعبہ" کی مہم شروع کی۔ مگر مکہ کے لوگوں نے آپ کو حقیر بنا دیا۔ یہاں تک کہ آپ کو ہلاک کرنے کے درپے ہو گئے ۔ چنانچہ تقریباً 13 سال کی پُر مشقت جد و جہد کے بعد آپ کو مکہ چھوڑ کر 300 میل دور مدینہ جانا پڑا۔ مگر آج یہ حال ہے کہ کعبہ تو درکنار کوئی شخص عام مساجد کے نام پر بھی اگر" تحفظ مسجد" کی تحریک شروع کرتا ہے تو اس کے چاروں طرف انسانوں کی بھیڑ جمع ہو جاتی ہے ۔ اس کے اوپر روپیہ کی بارش ہونے لگتی ہے ۔ وہ صبح و شام میں عزت و لیڈری کا مقام حاصل کر لیتا ہے ۔
مکی دور میں اہل مکہ مسلمانوں کو ستاتے تھے۔ چنانچہ مسلمانوں کی ایک تعداد عرب سے نکل کر حبش چلی گئی ۔ یہ سب کے سب اصحاب ِرسول تھے ۔ مگر حبش میں نہ ان عربوں کا استقبال ہوا، نہ وہاں ان کے لیے عظیم الشان کانفرنسیں کی گئیں ۔ وہ کچھ عرصہ تک وہاں محنت مزدوری کرتے رہے۔ اور اس کے بعد غیر اہم آدمی کی حیثیت سے دوبارہ اپنے وطن واپس آگئے ۔ مگر آج یہ حال ہے کہ اسی عرب کا کوئی شیخ جب ہندستان یا کسی اور ملک میں جاتا ہے تو مسلمانوں کے تمام اصاغر وا کا بر ان کے استقبال کے لیے دوڑ پڑتے ہیں۔ ان کے اعزاز میں ایڈریس پیش کیے جاتے ہیں۔ اور عظیم الشان کانفرنسیں منعقد کی جاتی ہیں ۔
لبید قدیم عرب کے ایک مشہور شاعر تھے۔ مکی دور میں انھوں نے قرآن کو سنا۔ اس کو سن کر انھوں نے اسلام قبول کر لیا اور شاعری چھوڑ دی ۔ کسی نے پوچھا کہ تم نے شاعری کیوں چھوڑ دی، انھوں نے جواب دیا : أ بعد القران ( کیا قرآن کے بعد بھی ) لبید کے اس عمل پر قدیم عرب میں انھیں کوئی اعزاز نہیں ملا۔لیکن آج اگر کوئی مشہورشا عرایسا کرے کہ وہ شہر کے چوراہے پر کھڑا ہو کر اپنے کوئی کلام کو جلا دے اور کہے کہ میں نے قرآن کو پڑھا تو مجھے اپنی شاعری پھیکی معلوم ہونے لگی۔ اب میں شاعری کو چھوڑ کر قرآن کو اختیار کرتا ہوں تو ایسے شاعر کی ہر طرف دھوم مچ جائے گی ۔ وہ صبح و شام میں عظمت اور مقبولیت کے آسمان پر پہنچ جائے گا۔
قدیم زمانہ اور موجودہ زمانے میں یہ فرق کیوں ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قدیم زمانےمیں اسلام اجنبی تھا۔ آج اسلام ایک معروف اور غالب دین بن چکا ہے ۔ قدیم زمانے میں صرف چند بے سرو سامان لوگ اسلام کے ساتھ تھے ۔ آج ساری دنیا میں ایک ارب انسان اسلام کے ساتھ ہیں ۔ دولت اور اقتدار کے تمام اسباب اس کی پشت پر جمع ہیں ۔ یہی وہ فرق ہے جس نے دو دوروں میں مذکورہ بالا قسم کا فرق پیدا کر دیا ہے ۔
یہ معاملہ ہر دین کے ساتھ پیش آتا ہے۔ اس سے پہلے یہودیوں اور عیسائیوں کے ساتھ ایسا ہی ہوا۔ اور اب مسلمانوں کے ساتھ یہی صورت پیش آرہی ہے ۔
ابتدائی دور میں خدا کی کتاب اور خدا کے دین کے ساتھ دنیوی اہمیت کی چیزیں جمع نہیں ہوتیں۔ اس بنا پر کسی کے لیے ممکن نہیں ہوتا کہ وہ کتابِ خداوندی یا دینِ خداوندی کے نام پر دھوم مچا سکے۔ مگر لمبی مدت گزر جانے کے بعد خدا کی کتاب اور خدا کے دین کے اندر دنیوی اور قیادتی قدریں پیدا ہو جاتی ہیں ۔ اب یہ ممکن ہو جاتا ہے کہ خدا کے دین کو اسی طرح قیادتی عنوان یا تجارتی سودا بنایا جاسکے جس طرح کوئی شخص غیر دینی اور غیر خدائی چیزوں کو بناتا ہے ۔
یہ ایک زبر دست فتنہ ہے جو ہمیشہ بعد کے دور میں پیدا ہوتا ہے ۔ اور یہی وہ فتنہ ہے جس سے قرآن میں ان الفاظ میں منع کیا گیا ہے کہ اللہ کی آیتوں کے بدلے ثمن قلیل نہ لو :
وَلَا تَشْتَرُوْا بِاٰيٰتِىْ ثَـمَنًا قَلِيْلًا وَاِيَّاىَ فَاتَّقُوْنِ (البقرہ: 41) اور میری آیتوں پر تھوڑا مول نہ لو (یعنی دین کے نام پر دنیا نہ کماؤ)
قرآن میں اس مضمون کی کئی آیتیں ہیں جن میں اللہ کے کلام کے بدلے ثمنِ قلیل لینے کو منع کیا گیا ہے۔ اس سے مراد عین وہی چیز ہے جس کو موجودہ زمانے میں استغلال یا استحصال (Exploitation)کہا جاتا ہے ۔ یعنی اسلام کو اپنی قیادت کا عنوان بنانا۔ قرآن اور اسلام کا نام لینا اور اس کے ذریعےسے دنیا کا سازو سامان حاصل کرنا ۔
موجودہ زمانےمیں یہ فتنہ بہت بڑے پیمانے پر پیدا ہو گیا ہے ۔ لوگ اسلام کے چیمپین بن کر عزت ، دولت، قیادت کا ڈھیر اپنے گرد جمع کر رہے ہیں ۔ مگر قیامت میں جب پردہ ہٹے گا تو معلوم ہو گا کہ اسلام کے یہ چیمپین صرف اسلام کے سوداگر (Exploiter) تھے ، اس کے سوا اور کچھ نہیں ۔