اسلام کا مقصد
ایک صاحب نے کہا کہ اسلام عملاً ایک ناکام نظام ہے کیوں کہ وہ تیس برس سے زیادہ نہیں چل سکا ۔ میں نے کہا کہ اس اعتراض کا تعلق اسلام سے نہیں ہے بلکہ ان نام نہاد اسلامی مفکرین سے ہے جنھوں نے اسلام کی غلط تعبیر کر کے اس کو ایک نظام کی صورت میں دنیا کے سامنے پیش کیا۔
یہ لوگ کہتے ہیں کہ اسلام کا مقصد دنیا میں حکومتِ الٰہیہ قائم کرتا ہے ۔ یہ کہہ کر وہ اسلام کو جانچنے کا ایک غلط معیارلوگوں کے ہاتھ میں دے دیتے ہیں۔ یہ بات بذات خود غلط ہے کہ اسلام کا مقصد دنیا میں حکومت الٰہیہ قائم کرنا ہے ۔ اس لیے اس معیار پر اسلام کو جانچنا بھی درست نہیں ہو سکتا ۔
بات کو واضح کرنے کے لیے میں نے ان کے سامنے ایک مثال دی ۔ میں نے کہا کہ آپ تبلیغی جماعت کو لیجیے۔ تبلیغی جماعت کے متعلق اگر آپ یہ کہیں کہ اس کا مقصد نئی دہلی کی پارلیمنٹ ہاؤس پر قبضہ کرنا ہے تو آپ کو نظر آئے گا کہ تبلیغی جماعت ایک سراسر نا کام جماعت ہے کیوں کہ وہ پارلیمنٹ ہاؤس پر ایک فی صد بھی سیاسی قبضہ حاصل نہ کر سکی ۔ لیکن اگر آپ تبلیغی جماعت کو جانچنے کا یہ معیار قائم کریں کہ اس کا مقصد لوگوں کو ایمان اور نماز کے راستے پر ڈالنا ہے تو معلوم ہوگا کہ تبلیغی جماعت ایک بے حد کامیاب جماعت ہے ، کیوں کہ اس کی محنت نے لاکھوں لوگوں کو ایمان اور نماز کےراستے پر ڈال دیا ۔
میں نے کہا کہ آپ کا اعتراض نام نہاد اسلامی مفکرین کے خود ساختہ نظریہ پر وارد ہوتا ہےنہ کہ خدا اور رسول والے اسلام پر ۔
یہ بات بذات خود بالکل غلط ہے کہ اسلام کا مقصد حکومت قائم کرنا ہے ۔ اصل یہ ہے کہ اسلام کا مقصد انسان کو ربّانی انسان بنانا ہے۔ اسلامی جماعت کا صحیح نام جماعت ربّانی ہے نہ کہ جماعت حکمرانی۔ اسلام کا اصل مخاطب فرد ہے ۔ اسلام ایک ایک فرد کی اس فطرت کو جگانا چاہتاہے جس پر اس کے خالق نے اسے پیدا کیا ہے ، تاکہ انسان اپنے رب کو پہچانے ، تاکہ وہ اللہ سےخوف اور محبت کا تعلق قائم کرے ، تاکہ وہ ایک آخرت پسند انسان بن جائے ۔