تعمیر ملت
مصر کے سلطان صلاح الدین (1193۔1137)اور ہندستان کے سلطان ٹیپو(1799۔1751) دونوں جوش ایمان اور شجاعت اور جنگی اہلیت کے اعتبار سے یکساں حیثیت کے مالک تھے۔ دونوں کو” مغربی طاقت“ سے مقابلہ پیش آیا۔ مگر اول الذکر فلسطین کا فاتح بنا جب کہ دوسرے کے حصہ میں صرف یہ آیا کہ حریف سے شکست کھاکر شہید ہو جائے ۔ اس فرق کے پیچھے کوئی طلسماتی راز نہیں، ایک سادہ سی حقیقت ہے : سلطان ٹیپو کو اٹھارویں صدی کا زمانہ ملا جب کہ جنگی صنعت میں مغرب نے اجارہ داری حاصل کر لی تھی ۔ اس نے روایتی دستی ہتھیاروں کی جگہ بہتر قسم کے دورمارہتھیار دریافت کرلیے تھے اور سمندری طاقت پر مکمل طور پر اپنا قبضہ قائم کر لیا تھا۔ اس کے برعکس سلطان صلاح الدین کو بارھویں صدی عیسوی میں کام کرنے کا موقع ملا جب کہ مسلمان جنگی صنعت میں دنیا کی امامت کر رہے تھے۔ اس زمانے میں شام و مصر اور عراق میں کثرت سے ایسی کارگاہیں تھیں جہاں اس وقت کی دنیا کے سب سے بہتر آلات حرب تیار ہوتے تھے۔ عباسی دور میں رومی حملوں کی مدافعت اور صلیبی جنگوں کے دور میں یورپی قوموں کی یورشیں روکنے میں ان کا بڑاہاتھ ہے۔ خاص طور پر صلیبی جنگوں کے زمانے میں اس علاقے میں جنگی صنعت کو بڑا فروغ ہو ا حتی کہ صلیبی لڑائیوں کے دور میں جب کوئی صلح کا وقفہ ہوتا تو اہل یورپ خاص طور پر ہتھیار خریدنے کے لیے شام و مصر کے بازاروں میں آتے تھے۔ چنانچہ اس زمانے میں مسلم علماء کو فتویٰ دینا پڑا کہ مسیحیوں کے ہاتھ اسلحہ فروخت کرنا حرام ہے، کیونکہ ہم سے خریدے ہوئے ہتھیاروں کو وہ دوبارہ ہمارے ہی خلاف استعمال کریں گے۔
یہی وہ قوت ہے جس کو قرآن میں قوت مرہبہ (انفال :8:60) کہا گیا ہے اور حکم دیا گیا ہے کہ اس کو اس حد تک حاصل کرو کہ دوسروں کے اوپر تمھارا رعب قائم ہو جائے۔
قوت مرہبہ کے دو درجے ہیں ۔ ایک وہ جو تمام مسلمانوں سے متعلق ہے اور ہر مسلم گروہ اپنی بساط کے مطابق اس کے حصول کی جد و جہد کر سکتا ہے۔ دوسرے وہ جس کا تعلق صرف اس مسلم معاشرہ سے ہے جو با اقتدار ہو۔ موجودہ زمانے میں ان دونوں قوتوں کے معنی کیا ہیں اور ان کو کس طرح حاصل کیا جا سکتا ہے، اس کی وضاحت کے لیے ہم جاپان اور روس کی مثال دیں گے۔
دوسری جنگ عظیم (1934-44) میں جب جاپان کو شکست ہوئی اور اس کو غیرمسلح کر کے امریکی فوجوں نے جاپان پر قبضہ کر لیا۔ تو جاپان کے لیے عسکری اور سیاسی عزائم کے دروازے بند ہو گئے ۔ اس موقع پر شہنشاہ جاپان ہیرو ہٹو(1901-1989) نے تقریر کی اور کہا کہ "ہمیں ایک ناقابل برداشت کو برداشت کرنا ہے ، تا کہ ہم جاپان کی اگلی نسلوں کی تعمیر نو کر سکیں " ۔ اب پورا جاپان غیر سیاسی میدانوں میں ترقی کی راہ پر لگ گیا۔ انھوں نے اپنے ماسٹروں کو منسٹروں کی تنخواہ اور مجسٹریٹوں کے اختیارات دے دیے تا کہ تعلیم کے معیار کو انتہائی حدتک بلند کر سکیں۔ صحافت کو اتنی ترقی دی کہ آج دنیا میں سب سے زیادہ چھپنے والا خبار جاپانی اخبار ہے۔ سائنس اور صنعت میں اتنا زیادہ کمال پیدا کیا کہ لوہانہ ہونے کے باوجود وہ دنیا کی سب سے بڑی مشین (سپر ٹینکر) بناتے ہیں۔ انھوں نے اپنی مصنوعات کو کوالٹی کے اعتبار سے اتنا بلند کیا کہ اس کو نقص بدرجہ صفر(zero defects) کے مقام تک پہنچا دیا۔ قومی احساس اور نظم و ضبط میں اتنی ترقی کی کہ آج دنیا کی کوئی قوم اس معاملے میں ان کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ یہ ترقیاں اگر چہ بظاہر غیر عسکری اور غیرسیاسی تھیں۔ مگر وہ اتنی طاقت ور ثابت ہوئیں کہ اس کے بعد کسی مقابلے کے بغیر امریکہ نے جاپان کی سرزمین سے اپنی فوجوں کو واپس بلالیا۔
تعمیر و ترقی کا یہ میدان ، اپنی بساط کے مطابق، ہر مسلمان گروہ کے لیے کھلا ہوا ہے خواہ وہ اقلیت میں ہویا اکثریت میں۔ بے اقتدار ہو یا بااقتدار ۔ اسی ترقی کی بدولت افریقہ کے متعدد ملکوں میں یہ حال ہے کہ ملک کی آبادی میں مسلمانوں کی اکثریت ہے مگر عملاً سیاست اور دوسرے اجتماعی شعبوں پر عیسائی قبضہ کیے ہوئے ہیں کیونکہ وہ علم و سائنس ، صنعت و حرفت اور نظم و ضبط میں مسلمانوں سے بڑھے ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر نائیجریا کی آبادی میں مسلمانوں کی تعداد 40 فی صد ہے اور عیسائیوں کی صرف 2فی صد ۔مگر 1947میں وہاں کی پندرہ رکنی کا بینہ میں 5مسلم وزیر تھے اور ۔ 10عیسائی وزیر۔ اس فرق کی وجہ تعلیم میں عیسائیوں کی برتری اور مسلمانوں کی پس ماندگی ہے۔ سرکاری مدارس میں مسلم طلبہ کی تعداد 25 فی صد سے زیادہ نہیں ہوتی ۔ اعلیٰ مراحل کی تعلیم میں تناسب او ربھی کم ہو جاتا ہے جب کہ عیسائی طلبہ ملک میں دوفی صد ہونے کے باوجود تعلیمی اداروں میں بھرے ہوتے ہیں ۔
دوسری نوعیت کی ایک مثال روس ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ نے اپنے حریف سوویت روس کے خلاف یہ اسکیم بنائی کہ وہ اس کے سرحدی ملکوں سے معاہدے کر کے وہاں اپنے فوجی اڈے قائم کرے اور اس کو اپنے گھیرے میں لے لے۔ ناٹو (NATO) سیٹو ( CEATO) اور سنٹو (CENTO) اسی قسم کے معاہدات تھے جن کے ذریعے امریکہ نے اپنی جنگی مشین کو اٹلانٹک پار کر کے یورپ، شمالی افریقہ اور ایشیا تک پہنچا دیا، اس طرح اپنے دو درجن فوجی اڈوں کے ذریعے وہ اس پوزیشن میں ہو گیا کہ کمیونسٹ دنیا کو عین اس کی سرحدوں کے پاس نشانہ بنا سکے ۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ روس کو تو اپنے دشمن پر وار کرنے کے لیے زمین کے گولے کی ایک چوتھائی مسافت طے کرنی ہوگی۔ جب کہ امریکی اڈے اس کی سرحد کے اتنے قریب ہیں کہ وہ پانچ سے دس منٹ کے اندر سوویت روس کے تمام اہم ترین نشانوں پر پہنچ سکتے ہیں ۔
ٍاب روس نے یہ کیا کہ سائنس دانوں کی ایک فوج اس کام پر مامور کردی کہ وہ ایسا تیز رفتار ہتھیار دریافت کریں جس کے ذریعہ ماسکو کے حکمراں اپنے ملک میں بیٹھے بیٹھے امریکہ کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا سکتے ہوں۔ ستمبر 1959 میں روسی راکٹ لیونگ نمبر 2 کا ٹھیک اندازے کے مطابق چاند پر پہنچنا اس بات کا خاموش اعلان تھا کہ تحقیق کامیاب ہو گئی ہے۔ زمین سے چاند کا فاصلہ روس سے امریکہ کے فاصلے کے مقابلہ میں پچاس گنا زیادہ ہے۔
اب جو تیز رفتار راکٹ مشینوں کا بکس چاند پر پہنچا سکتا ہے، وہ بم کے گولے بھی دور دراز ملکوں میں گرا سکتا ہے۔ ریڈیائی کنٹرول کی جس اہلیت کا مظاہرہ خلائی پرواز میں ہوا ، وہ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی تھا کہ ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم بعید ترین زمینی نشانوں پر نہایت صحت کے ساتھ گرائے جا سکتے ہیں۔ اس دریافت کا سامنے آنا تھا کہ امریکہ کی فوجی حکمت عملی اچانک بے بنیاد عمارت کی طرح زمین پر آگئی ۔
روس کو زمینی چیلنج دیا گیا تھا۔ اس نے اس کا آسمانی حل دریافت کر لیا ۔معلوم ہواکہ اس دنیا میں ترقی کی کوئی آخری حد نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کائنات میں اللہ تعالےٰ نے طاقت وقوت کے بے پناہ امکانات رکھ دیئے ہیں اور حوصلہ اور ہمت ہو تو ہر شکل کا ایسا بالاترحل دریافت کیا جا سکتا ہے کہ دشمن کی ساری کارروائیاں وَبَطَلَ مَا كانُوا يَعْمَلُونَ (اعراف:7:118) کا مصداق ہو کر رہ جائیں ۔
اگرچہ اس دنیا میں اہل ایمان کا اصل مشن دعوت و تبلیغ ہے۔ مگر یہ واقعہ کہ یہ دنیا ایک مادی دنیا ہے، اور یہ واقعہ کہ یہاں ہمیشہ حق کی مخالفت کرنے والے گروہ موجود رہتے ہیں ، اہل ایمان کے لیے ضروری کر دیتا ہے کہ وہ مادی اسباب کی فراہمی میں بقدر وسع پوری جدو جہد کریں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کے 13 ویں سال مکہ سے انتہائی بے سرو سامانی کے ساتھ ہجرت کی ۔ مگر اس کے دس برس بعد جب آپ نے فتح مکہ کے لیے مارچ کیا تو ایک طرف تبلیغی کام اس حد تک پھیل چکا تھا کہ دس ہزار مردان کا ر آپ کے ہمرکاب تھے۔ دوسری طرف تیاری کا یہ عالم تھا کہ ان میں سے دو ہزار آدمی اس طرح زرہ پوش تھے کہ ان کی صرف آنکھیں دکھائی دے رہی تھیں(لا يُرَى مِنْهُمْ إِلا الْحَدَقُ)(تاريخ الطبري،3/ 54)
موجودہ زمانے میں اس سنت پر عمل کرنے کی اہمیت پہلے سے بھی زیادہ شدید ہو گئی ہے۔ آج کی جنگوں میں عضلاتی طاقت کے بجائے مشین کی اہمیت اتنی زیا دہ بڑھ چکی ہے کہ فوجی نسلوں(MARIAL RACMS ) کا قدیم تصور زمانہ ماضی کا افسانہ بن گیا ہے۔ اسی طرح اقتصادی ذرائع نے موجودہ زمانہ میں اس قدر وسعت اختیار کی ہے کہ پوری انسانی زندگی اس کے تابع ہوگئی ہے۔ قدیم زمانہ میں دعوت و تبلیغ کا کوئی براہ راست تعلق اقتصادیات سے نہ تھا مگر آج اگر آپ"قلم" کو دعوت و تبلیغ کے لیے استعمال کرنا چاہیں تو عظیم اقتصادی وسائل کے بغیر اس کو موثر طور پر استعمال ہی نہیں کر سکتے۔ پھر جب اس واقعہ کو دیکھا جائے کہ دوسرے مذاہب ہوائی جہازوں اور ریڈیو اسٹیشنوں کے ذریعے اپنے دین کی تبلیغ کر رہے ہیں تو یہ اقتصادی ضرورت سیکڑوں گنا زیادہ ہو جاتی ہے۔اس طرح شخصی ضرورت کے لیے بھی آج اقتصاد ی و سائل کی اہمیت پچھلے تمام ادوار سے زیادہ ہے۔ آج انسان کی حقیقی ضروریات اتنی بڑھ چکی ہیں کہ قدیم طرزکی افسانوی سادگی کے ساتھ زندگی گزار نا ممکن ہی نہیں ۔
مسلمان کی اصل ذمہ داری اگر چہ دعوت و تبلیغ کی ذمہ داری ہے۔ مگر مندرجہ بالا وجوہ تقاضا کرتے ہیں کہ اس کے ساتھ یہ جد و جہد بھی بھر پور طور پر کی جائے کہ مسلمان جدید اقتصادیات میں اپنا جائز حصہ پا سکیں۔ انفرادی حیثیت سے بھی اور قومی حیثیت سے بھی ۔