ایک تاثر
دستر خوان پر ایک طرف دودھ، انڈا ،سیب جیسی چیزیں رکھی ہوئی تھیں ۔ دوسری طرف چاکلیٹ ، پیسٹری اور مٹھائیاں ۔ ماں کی ساری کوشش یہ تھی کہ اپنے بچے کو دودھ، انڈا اور سیب کھلائے مگر بچہ ان کو لینے کے لیے کسی طرح تیار نہ تھا۔ وہ مسلسل چاکلیٹ اور مٹھائیوں پر ہاتھ مار رہا تھا۔
دنیا کا یہ عجیب قانون ہے کہ جو چیز جتنا زیادہ بے فائدہ ہو ، اتنا ہی زیادہ وہ لذیذ اور خوبصورت ہوتی ہے۔ اس کے برعکس جو اہم اور مفید چیزیں ہیں ان میں نسبتاً کوئی ظاہری کشش نہیں ہوتی ۔ شاید قدرت یہ دیکھنا چاہتی ہے کہ ہم اپنی تمیز کی قوت کو کس طرح استعمال کرتے ہیں۔
تما شے کی باتیں مثلاً شکاریات، فلمی اور جاسوسی کہانیاں، سکینڈل کے سنسنی خیز فیچر، عام انسان کے لیے اپنے اندر بے حد کشش رکھتے ہیں۔ اسی طرح جنگی داستانیں ، فتو حات کے قصے، کشف وکرامت کے افسانے لوگوں کو ذہنی شراب کی طرح اپنے اندر جذب کرلیتے ہیں اس کے مقابلہ میں ایسے مضامین جن میں تعمیری سبق دیا گیا ہو، جو واقعاتِ عالم کا سائنسی مطالعہ کرنا سکھاتے ہوں ، جو یہ بتاتے ہوں کہ زندگی کو حقیقت پسندانہ بنیا دوں پر کس طرح قائم کیا جاسکتا ہے ، ان میں لوگوں کے لیے کوئی دل چسپی نہیں۔ لوگ زہر کی طرف دوڑ رہے ہیں، امرت کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کے لیے بھی کسی کے پاس وقت نہیں ۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سارے ہی انسان بچے ہیں۔ کوئی عمر کے لحاظ سے بچہ ہے ، کوئی سمجھ کے لحاظ سے ۔