تاج محل کو دیکھ کر

وہ مرنے والوں کی یادگاریں کھڑی کرتے رہے حالاں کہ وہ زندوں کی دنیا تبھی تعمیر کر سکتے

ہروہ شخص جس نے " تاج محل " کا نام سنا ہے، اس کے دل میں سنگ مرمر کی اس تاریخی یادگار کو دیکھنے کا چھپا ہوا شوق ضرور موجود رہتا ہے۔ 16 جولائی کو میرے لیے  وہ تاریخ آئی جب کہ میں اپنے بڑے بھائی کے ساتھ دہلی سے آگرہ کے لیے  روانہ ہوا تارکول کی چکنی سڑک پر ہماری گاڑی چالیس میل کی رفتار سے بھاگی چلی جارہی تھی تھوڑی تھوڑی دیر میں ایک سنگ میل تیزی سے گز  کر بتاتا کہ اب منزل کچھ اور قریب آگئی ہے۔ شام کے تین بجے ہم آگرہ میں داخل ہو گئے اب ہم تاج کے شہر میں آگئے ہیں۔ یہ احساس میرے دل کی دھڑکنیں تیز کر رہا تھا۔ مگر شہر کی زندگی مجھے معمول کے مطابق دکھائی دی۔ لوگ اپنے اپنے کام میں اسی طرح مشغول تھے جیسے ہر شہر میں ہوا کرتے ہیں، جیسے یہ بات انھیں یا دہی نہ ہو کہ وہ ایسے شہر میں ہیں جہاں دنیا کا سب سے بڑا عمارتی عجو بہ کھڑا ہوا ہے۔

 ایک مغربی سیاح ہندستان آیا اور ملک کی دوسری یادگار چیزوں کے ساتھ تاج محل کو بھی اس نے خاص طور پر دیکھا ۔ واپسی کے بعد اس نے اپنا جو سفرنامہ شائع کیا، اس میں لکھا تھا : تاج محل کے دونوں طرف دو مسجدیں ہیں "۔

ظاہری مشاہدہ کے اعتبار سے اس کی بات صحیح تھی مگر حقیقت کے اعتبار سے صحیح نہیں ۔ واقعہ یہ ہے کہ تاج محل کے پہلو میں صرف ایک مسجد ہے۔ مگر عمارتی توازن قائم رکھنے کے لیے  یہ کیا گیا ہے کہ مسجد کے قابل سمت میں ٹھیک اسی شکل کا ایک اور ڈھانچہ کھڑا کر دیا ہے۔ یہ دوسری عمارت مسجد نہیں ہے ۔ اگر چہ بظاہر دیکھنے والے کو وہ مسجد ہی جیسی نظر آتی ہے

 یہ واقعہ اس دور کی ایک یادگار ہے جب کہ عمارتوں میں توازن و تناسب ضروری سمجھا جاتا تھا۔ اب مغربی ذوق نے اس کے برعکس طرز تعمیر کو ساری دنیا میں رواج دے دیا ہے ۔

قدیم طرز تعمیر میں دو طرفہ توازن اور یکسانی عمارتی حسن کا ضروری جزءتھا ۔اب عدم توازن اور عدم یکسانیت کسی عمارت کے حسن کے لیے  ضروری سمجھے جاتے ہیں ۔تعمیری یکسانی کی جگہ تعمیری عدم یکسانی نے لے لی ہے۔

یہاں صفحہ15 پر ایک تصویر ہے ۔

اس تصویر میں اوپر تاج محل ہے ۔اور نیچے جدید وضع  کی کئی منزلہ عمارت

تاج محل کے سامنے پہنچا تو آنے جانے والے زیادہ تر بیرونی سیاح تھے۔

"تاج شاید صرف ان لوگوں کے لیے  تاج ہے ، میں نے سوچا " جنھوں نے ابھی تاج کو نہ دیکھا ہو ۔ جس نے ایک بارتاج کو دیکھ لیا ہو، اس کے لیے  تاج کی کوئی اہمیت نہیں۔"

تا ج محل شاہجہاں (58 1627-16 ) نے بنوایا تھا یہ شاہجہاں کی بیگم ممتاز محل کا مقبرہ ہے جو    1592میں پیدا ہوئی ۔ شاہجہاں سے اس کا نکاح 1612میں ہوا۔ چودہ بچوں کی پیدائش کے بعد 1631میں اس کی وفات ہوگئی۔

 تاج محل کی تعمیر 1631میں شروع ہوئی اور 1653 میں وہ بن کر تیار ہوا ۔ پہلے اس میں ممتاز محل دفن کی گئی تھی۔ اس کے بعد جب شاہجہاں کی وفات ہوئی تو اس کو بھی اس کے پہلو میں دفن کیا گیا۔ دونوں کی قبریں ساتھ ساتھ ایک تہ خانہ کی سی غیر جاذب کو ٹھری میں بنی ہوئی ہیں اور اس کے اوپر وہ عظیم الشان عمارت ہے جو تاج محل کے نام سے مشہور ہے۔

تاج محل کو دیکھ کر مجھے کوئی خوشی نہیں ہوئی ۔ 22برس میں بن کر تیار ہونے والی یہ عمارت بلاشبہ آرٹ کا ایک نمونہ ہے۔ مگر کاش وہ تعمیر اسلام کا ایک نمونہ ہوتا ۔ ایک عورت کی قبر کے لیے  اتنی عظیم الشان عمارت کھڑی کی گئی ہے، حالاں کہ انھیں پتھروں سے ایک عظیم ملّی ادارہ بھی بنایا جاسکتا تھا۔ رشید رضا مصری ستر برس پہلے ہندستان آئے تو انھوں نے کہا تھا کہ مجھے یہ دیکھ کر تعجب ہے کہ اس ملک میں مسلمانوں کی سلطنت ایک ہزار برس تک رہی، مگر یہاں شاہی دور کی کوئی بڑی درس گاہ نہیں۔ مگر جن لوگوں کو قبر گاہ بنانے سے دل چسپی ہو، وہ ملت کی زندگی کے لیے  درس گاہ کی تعمیر کر سکتے تھے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom