آواز : قدرت کا ایک حیرت انگیز کرشمہ
ہم جو الفاظ بولتے ہیں، وہ بے آواز لہروں کی صورت میں ہواپر اسی طرح سفر کرتے ہیں جس طرح پانی کی سطح پر موجیں پیدا ہوتی ہیں اور بڑھتی چلی جاتی ہیں۔ ایک شخص کے منھ سے نکلی ہوئی آواز کے آپ تک پہنچنے کے لیے درمیان میں ہوا کا ہونا ضروری ہے۔ اگر یہ درمیانی واسطہ نہ ہو تو دو قریب بیٹھے ہوئے آدمی ایک دوسرے کا ہونٹ ہلتے ہوئے دیکھیں گے مگر وہ ایک دوسرے کی بات نہ سن سکیں گے۔ اس کو مثال کے ذریعہ یوں سمجھ سکتے ہیں کہ شیشہ کے ایک فانوس کے اندر برقی گھنٹی رکھ کر اسے بجایا جائے تو اس کی آواز صاف سنائی دے گی۔ لیکن اگر فانوس کے اندر کی ہوا کو پوری طرح نکال کر اسے بند کر دیا جائے اور اس کے بعد گھنٹی بجائی جائے تو آپ شیشہ کے اندر گھنٹی کو بجھتا ہوا دیکھیں گے، مگر اس کی آواز نہ سنیں گے۔ کیونکہ گھنٹی کے بجنے سے جو ارتعاش پیدا ہوتا ہے، اس کو قبول کر کے آپ کے کانوں تک پہنچانے کے لیے شیشہ کے اندر ہوا موجود نہیں ہے۔ مگر ریڈیائی خبر رسانی کے لیے ہوا کا ذریعہ بالکل ناکافی ہے۔ کیونکہ ہوا کے ذریعہ ہماری آواز پانچ سکنڈ میں صرف ایک میل کا فاصلہ طے کرتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہوا کا ذریعہ صرف قریبی ماحول میں گفتگو کے لیے کار آمد ہے۔ وہ ہماری آواز کو دور تک نہیں پہنچاسکتا۔ اس کا اندازہ آپ اس طرح کر سکتے ہیں کہ ہندستان سے اگر ہم اپنی آواز کو امریکہ بھیجنا چاہیں تو ہوا کی رفتار سے وہ اپنی منزل پر سات گھنٹے میں پہنچےگی۔ ظاہر ہے کہ دوسری طرف سے جواب آنے میں بھی اتنی ہی دیر لگے گی ۔ گو یا نئی دہلی کا ایک شخص نیو یارک میں اپنے ایک ساتھی کو ٹیلی فون کر رہا ہو تو اس رفتار سے اپنے ایک فقرہ کا جواب سننے کے لیے اس کو چودہ گھنٹے تک انتظار کرنا پڑے گا۔
اگر آواز صرف ہوا کے ذریعے پھیلتی تو اس کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانا ممکن نہ ہوتا۔ مگر قدرت نے اس کے لیے ہمیں ایک اور انتہائی تیز رفتار ذریعہ مہیا کیا ہے۔ یہ روشنی یا برقی رو ہے جس کی رفتار ایک سکنڈ میں ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل سے بھی زیادہ ہے۔ ریڈیائی پیغامات میں اسی ذریعہ سے کام لیا جاتا ہے۔ جب کوئی بولنے والا ریڈیو اسٹیشن میں لگے ہوئے مائکروفون کے پاس آواز نکالتا ہے تو مائکرو فون آواز کو لے کر اسے برقی رومیں تبدیل کر دیتا ہے اور تار کے ذریعہ اس کو فی الفور آلہ نشر (ٹرانس میٹر) تک بھیج دیتا ہے۔ آلات نشر آواز کے پہنچتے ہی مرتعش ہو کر فضا میں دوبارہ وہی ارتعاش پیدا کر دیتے ہیں جو مقرر کے بولنے سے ہوا تھا۔ اس طرح پانچ سکنڈ میں ایک میں چلنے والی آواز برقی لہروں میں تبدیل ہو کر ایک سکنڈ میں ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل کی رفتار حاصل کر لیتی ہے ۔ اس طرح آواز ایک سکنڈ کے 8ویں حصے میں پوری دنیا میں پھیل جاتی ہے کیونکہ زمین کا پو را گھیرا صرف 25 ہزار میل ہے۔ یہی تیز رفتار لاسلکی موجیں ہیں جن کو ہمارے ریڈیوسٹ کی آواز گیر مشین لیتی ہے اور پھر بلند آوا زمیں ان کا اعادہ کر دیتی ہے۔ اس طرح ہزاروں میل دور بولی ہوئی آواز کو ہم کسی تاخیر کے بغیر سننے لگتے ہیں ۔