داعی نہ سیاح ہوتا نہ شعبدہ باز، وہ اپنے مدعو گروہ کے درمیان اس طرح کام کرتا ہے جس طرح ایک باغبان اپنے باغ میں
مکر می جناب ایڈیٹر صاحب تسلیم
الرسالہ کا پہلا شمارہ نظر سے گزرا۔ رسالہ میں کئی مضامین جزوی یا کلی طور پر محل نظر ہیں۔ لیکن اس وقت خاص طور پر " سوال و جواب" کے حصے کے متعلق کچھ گزارشات پیش کر رہا ہوں۔ امید ہے جناب والا اگلے شمارے میں وضاحت فرمائیں گے ۔
آپ فرماتے ہیں کہ” مسلمانوں کا کوئی الگ کلچر ہی نہیں " اور " داعی کے مشن کا تقاضا ہے کہ وہ اپنے مدعو سے کلچر یگانگت پیدا کرےنہ کہ کلچربے گانگی"۔
اگر مندرجہ بالا اصول کو تسلیم کر لیا جائے تو ان احادیث کی آپ کی نظر میں کیا حیثیت ہے جن میں تشبّہ باالیہود سے منع فرمایا گیا ہے۔ ثانیاً کیا داعی اور مدعو کے کلچرل یگانگت کا تقاضہ یہ بھی ہوگا کہ اگر کسی "بر ہنہ کلب" کے ممبریا ایسے شخص کو دعوت دینی ہو جوعورتوں کی طرح سرپر چوٹی رکھتا ہو تو کیا ان سے بھی داعی کو کلچرل یگا نگت پیدا کرنی چاہیے۔ نیز یہ کہ یکے بعد دیگرے اگر مختلف کلچرل گروہوں کو دعوت پیش کرنی ہو تو کیا داعی کو بار بار اپنی وضع قطع میں تبدیلی کرنا پڑے گی۔
ایک اور بات وضاحت طلب ہے۔ اور وہ یہ کہ سورہ انعام کی آیت 9 کے ترجمے میں آپ نے لباس پہنانے کا جو مفہوم شامل کیا ہے۔ کیا تمام مفسّرین خلف وسلف اس کا ترجمہ اسی طرح کرتے آئے ہیں یا یہ آپ کی ذاتی تحقیق ہے ؟
کیا میں امید کروں کہ قارئین کے استفادہ کے لیے آپ ان امور کا مبسوط جواب آئندہ شمارے میں شریک اشاعت فرما ئیں گے۔
صبیح الدین احمد ایم اے
بٹلا ہاؤس ،جا معہ نگر ،نئی دہلی
الرسالہ:" کلچرل یگانگت" کی بات ہم نے اس لفظ کے اجمالی مفہوم میں کہی ہے نہ کہ انتہائی مفہوم میں۔ اور یہ زبان وادب کا عام طریقہ ہے ۔ پیغمبروں کے بارے میں قرآن میں ارشاد ہوا ہے : وہ سب کھانا کھاتے تھے اور بازاروں میں چلتے تھے (فرقان :20) ظاہر ہے کہ اس کا مطلب نہیں کہ ان کا کام بس یہ تھا کہ کھانا کھا ئیں اور بازاروں میں چلتے رہیں۔ اسی طرح اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ اکل طعاماور مشی فی الاسواق کی تمام رائج قسموں میں ہر اعتبار سے وہ مکمل طور پر دوسروں کی مانند تھے ۔ بات خواہ عمومی الفاظ میں کہی جائے ، وہ ہمیشہ کسی خاص مفہوم ہی میں ہوتی ہے، اور موقع کلام اس کے حدود کو متعین کرتا ہے۔
وہ چیزیں جو شریعت میں حرام ہیں، مثلاً برہنگی وہ ہمارے مسلّمہ عقیدہ کے مطابق خود بخود یگانگت کے عموم سے خارج ہو جائیں گی۔ اسی طرح جو چیزیں کسی گروہ کا مذہبی شعار ہوں، مثلاً صلیب کا نشان ، ان میں بھی بیگانگت کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ ہر مذہب کے اپنے مخصوص مذہبی شعار ہوتے ہیں اور کوئی مذہب ان میں کبھی سمجھوتہ کی اجازت نہیں دیتا (تشبہ بالیہود سے ممانعت اسی دوسرے مفہوم میں ہے )تاہم یہ ضروری نہیں ہے کہ غیر مسلم کا جوتا گول کنارے کا ہے تو ہم نوک دارکنارے کے جوتے کو اسلامی جوتا سمجھیں۔ یا غیرمسلم گھروں میں پیتل کا برتن رائج ہو تو ہم تا بنے کے برتن کو اسلامی آداب قرار دیں ۔ الرسالہ (اکتوبر1976) میں جو بات کہی گئی تھی، وہ بس اسی محدود مفہوم کے اعتبار سے ہے اور ہندستان میں جنوب کے علاقے کے مسلمانوں کی زندگی اس کی ایک مثال ہے ۔
2، سورہ انعام کی آیت 9 کے سلسلے میں عرض ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عباس اور ان کے شاگردوں سے اس سلسلے میں تین تفسیریں منقول ہیں۔ ایک یہ کہ یہاں لیس بمعنی التباس ہے۔ یعنی اگر اللہ تعالیٰ فرشتوں کو رسول بنا کر بھیجتا تب بھی ان کو انسان کی صورت میں بھیجتا اور مخاطبین کو پھر وہی اشکال ہوتا جو اشکال وہ اب کر رہے ہیں۔ اکثر مفسرین نے اسی مفہوم کو اختیار کیا ہے، دوسرا مفہوم تحریف کا لیا گیا ہے اور اہل کتاب کو اس کا مصداق قرار دیا گیا ہے (تفسیر طبری)
تیسری رائے وہ ہے جس کو ہم نے الرسالہ میں نقل کیا ہے۔ تفسیر کی جو کتاب عبد اللہ بن عباس کی طرف منسوب ہے، اس میں اسی رائے کو اولیت دی گئی ہے۔یہاں ہم اس کے الفاظ نقل کرتے ہیں :
{وَلَوْ جَعَلْنَاهُ} يَعْنِي الرَّسُول {مَلَكاً لَّجَعَلْنَاهُ رَجُلاً} فِي صُورَة رجل آدَمِيّ حَتَّى يقدروا أَن ينْظرُوا إِلَيْهِ {وَلَلَبَسْنَا عَلَيْهِم} على الْمَلَائِكَة {مَّا يَلْبِسُونَ} مثل مَا يلبسُونَ من الثِّيَاب»«تنوير المقباس من تفسير ابن عباس (ص106)
اگر ہم رسول کو فرشتہ بناتے تو اس کو بھی آدمی کی صور ت میں بھیجتے تاکہ وہ اس کو دیکھ سکیں اور ان فرشتوں کوو ہی کپڑے پہناتے جو کپڑے یہ لوگ پہنتے ہیں۔
موجودہ زمانہ کے مفسرین میں مولانا حمیدالدین فراہی نے آیت کا یہی مفہوم لیا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں :
قَدْ جَعَلَ اللهُ الأَنْبِيَاءَ هُدَاةَ خَلْقِهِ، فَأَلْبَسَهُم لِبَاسَ البَشَرِيَّةِ — النَّبِيُّ يُبْعَثُ فِي قَوْمٍ لِيُصْلِحَهُمْ وَيَدْعُوَهُمْ إِلَى الصِّرَاطِ المُسْتَقِيمِ، فَلَا بُدَّ أَنْ يَكُونَ مِثْلَهُمْ فِي الزِّيِّ وَالشَّمَائِلِ، وَإِلَّا كَانَ خِلَافَ البَعْثَةِ، كَمَا قَالَ: وَلَوْ جَعَلْنَاهُ مَلَكًا لَجَعَلْنَاهُ رَجُلًا وَلَلَبَسْنَا عَلَيْهِمْ مَا يَلْبِسُونَ.
( القائد الی عیون العقائد، 31۔130)
نقل کرتے ہیں :
اللہ نے پیغمبروں کو اپنی خلق کا ہادی بنایا ہے۔ اس لیے انھیں بشری لباس پہنایا ۔ پیغمبر کسی قوم میں اس لیے آتا ہے کہ اس کی اصلاح کردے اور اس کو صراط مستقیم کی طرف بلائے۔ اس لیے ضروری ہے کہ وہ پوشاک اور عادات میں انھیں کی طرح ہو۔ ورنہ مقصد بعثت کے خلاف ہوگا۔ جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہوا ہے ۔
3"یکے بعد دیگرے اگر مختلف کلچرل گروہوں کو دعوت پیش کرنی ہو تو کیا داعی کو بار بار اپنی وضع قطع میں تبدیلی کرنا پڑے گی “ـــــــــــــیہ اعتراض بتا تا ہے کہ دعوت اسلامی کے کام کو صحیح طور پر سمجھا نہیں گیا ہے۔ دعوت کو ئی شعبدہ بازوں کا تماشا نہیں ہے کہ آج یہاں دکھایا جائے اور کل وہاں ۔ وہ ایک انتہائی سنجیدہ اور انتہائی طویل عمل کا نام ہے۔ داعی سیاح نہیں باغبان ہوتا ہے۔ وہ ایک مخاطب گروہ کا تعین کر کے اس کے ساتھ اپنے کو وابستہ کر دیتا ہے۔
وہ اس کا بخوبی مطالعہ کر کے اس کو سمجھتا ہے، حقیقت پسندی کے تمام تقاضوں کے مطابق وہ ان کے درمیان کام کا نقشہ بناتا ہے۔ وہ ان کے اوپر ان کا خیر خواہ بن کر کھڑا ہوتا ہے۔ وہ ان کو راہ حق پر لانے کے لیے اپنی ساری عمر لگا دیتا ہے ۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کا ایک کام کسی خاص گروہ کا پابند ہو کرہی انجام دیا جاسکتا ہے، نہ اس طرح کہ روزانہ نئے نئے گروہوں کےسامنے اپنا جلوہ دکھایا جائے ۔ یہ ایک قسم کا حوالگی و سپردگی کا معاملہ ہے نہ کہ تقریری مشاعروں کے دعوت نامے قبول کرنے کا ۔ حقیقت یہ ہے کہ جس شخص نے اپنی دعوت کے لیے کسی مستقل مدعو کا انتخاب نہیں کیا ہے ، وہ سرے سے داعی ہی نہیں ہے ۔ دعوت تو پوری عمر کا ایک فیصلہ ہے۔ اُس کو اِس تلون کے ساتھ کس طرح انجام دیا جا سکتا ہے کہ آدمی ہر دن کسی نئے مقام پر تقریری کرتب دکھانے کے لیے پہنچ جائے۔