جدید مسئلہ کیا ہے ؟
انسانی تاریخ کو دوبڑے دوروں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ دور سائنس سے پہلے، اوردور ِسائنس کے بعد ۔ وہ چیز جس کو " دور جدید" کہتے ہیں، وہ حقیقتًہ دورِ سائنس کا دوسرا نام ہے۔ یہ دور ممتاز طور پر سترھویں صدی میں شروع ہوا اور دوسری جنگ عظیم (1939-45) تک اپنے آخری عروج پر پہنچ گیا۔
انسان خارجی طور پر جو عمل کرتا ہے، اس کے لیے اس کے پاس دو قدرتی ذریعے ہیں: حواس اور طاقت۔ حواس کے ذریعے وہ اشیاء کا علم حاصل کرتا ہے، اور طاقت کے ذریعے اپنے ارادہ کو ان کے اوپر نافذ کر کے ان کو اپنے لیے کارآمد بناتا ہے ۔ یہ دونوں عمل قدیم ترین زمانے سے جاری ہیں۔ پچھلے زمانہ میں اشیاء کو جاننے کے لیے اس کے پاس صرف وہ قدرتی عطیات تھے جن کو حواس خمسہ کہا جاتا ہے اور خارجی دنیا میں تصرف کرنے کے لیے اس کے پاس اپنے ہاتھ پاؤں تھے یا حیوانی طاقت، مثلاً اونٹ، گھوڑے، ہاتھی، بیل وغیرہ ۔تاہم ان ابتدائی قدرتی عطیات کے علاوہ زمین میں بے شمار ایسی چیزیں تھیں جو اس بات کو ممکن بناتی تھیں کہ ان کو حاصل کرکے آدمی اپنے حواس اور طاقت دونوں کی مقدار کو بڑھا سکے۔
اضافےکا یہ عمل نا معلوم زمانے سے جاری تھا۔ مردہ تہذیبوں کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ پچھلے دوروں میں بھی انسان اس میدان میں بڑی بڑی ترقیات حاصل کرتا رہا ہے۔ تاہم ماضی کی تمام ترقیاں ابتدائی فطری حدود کے اندر ہوتی تھیں ۔ مثلاً پتھر کی جگہ لوہے کو کام میں لانا یا پہیہ دار گاڑی بنا کر جانوروں کو سواری کے لیے استعمال کرنا ۔ موجودہ دور کو یہ اولیت حاصل ہے کہ اس نے معلوم تاریخ میں پہلی بار طاقت کو" مشین "کی حیثیت دے دی اور نظری حواس کے لیے ایسے میکانکی اور آلاتی معاون دریافت کرلیے جو ہمارے دیکھنے اور تجربہ کرنے کی صلاحیت کو لاکھوں کروروں گنا زیادہ بڑھا سکتے تھے۔
اس دریافت کا براہ راست فائدہ تو صرف یہ تھا کہ انسانی تمدن کے لیے مادی ترقی کا ایک نیا وسیع تر دروازہ کھل گیا۔ انسان کے لیے یہ ممکن ہو گیا کہ وہ اپنے سفر کی رفتار کو بے اندازہ مقدار میں بڑھا سکے ۔ زمین کے جن وسائل تک روایتی ذرائع سے اس کی دسترس نہیں ہو سکتی تھی، ان کو حاصل کر کے اپنی بستیوں کو نا قابل قیاس حد تک مزین کرنے ۔ تخریب و تعمیر کے لیے ، مقدار اور نوعیت دونوں اعتبار سے ، اتنے زیادہ سامان فراہم کرلے جس کا خواب بھی پچھلے انسانوں نے نہیں دیکھا تھا ۔
تا ہم انسانی تاریخ کا اتنا بڑا واقعہ بالواسطہ اثرات پیدا کئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ اس نے دھیرے دھیرے انسانی افکار پر بھی اپنے اثرات ڈالنے شروع کیے یہاں تک کہ انیسویں صدی کے آخر تک یہ عالم ہو گیا کہ سارے علوم انسانی اس سے متاثر ہو کر رہ گئے۔ مذہب، اخلاق، فلسفہ، قانون ،معاشیات، سیاسیات، غرض کوئی ذہنی موضوع ایسا نہ تھا جس نے گہرے طور پر اس سے اثر قبول نہ کیا ہو۔ فطری طور پر یہ اثر یک طرفہ تھا۔ فکری علوم سائنس کے اوپر اپنی چھاپ نہ ڈال سکے ، وہ صرف سائنس کے عمومی غلبہ کا شکار ہو کر رہ گئے۔
سائنس اپنی ابتدائی شکل میں فکری علوم کی موافق تھی نہ مخالف۔ انسان اگر نظام شمسی کی حرکت کا نقشہ معلوم کرلے ، یا آٹو میٹک مشین کے ذریعے کام لینے لگے تو اس میں اخلاق یا انسانی اقدار سے ٹکراؤ کا پہلو کیا ہے۔ تاہم سائنس کے ظہور کے ساتھ چند باتیں ایسی پیش آئیں جنھوں نے سائنس کو فکری علوم ، خاص طور پر مذہب و اخلاق سے متصادم کر دیا۔
ا۔ مذہب کے ماننے والوں نے سائنس کے ظہور سے پہلے روایتی معلومات کے تحت اپنا ایک فکری نظام بنارکھا تھا۔ سائنس کی دریافتیں سامنے آئیں تو معلوم ہوا کہ ان میں سے بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو سائنس کی معلوم کردہ دنیا سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ اب چونکہ سائنس زیادہ ترقی یافتہ ذرائع معلومات کے حوالے سے کلام کر رہی تھی ۔ قدرتی طور پر سمجھا گیا کہ وہی بات صحیح ہے جو سائنس کی طرف سے آئی ہے ۔ اس واقعہ نے مذہب کو لوگوں کی نظر میں بے اعتبار بنا دیا۔ اس میں مزید شدت اس واقعہ سے پیدا ہوئی کہ اہل مذہب، خصوصاً عیسائی حضرات نے اپنے روایتی عقائد کے تحفظ کے لیے سائنس کے خلاف نہایت سخت رویہ اختیار کیا۔ ان کے اس رد عمل نے لوگوں میں یہ تاثر پیدا کیا کہ مذہب اور سائنس کا ٹکراؤ حقیقی ہے ، اور جب دلائل کی منطق صریح طور پر سائنس کی طرف ہے تو یقیناً مذہب ایک بے اصل چیز ہے۔ اس کی حقیقت تو ہم پرستی کے سوا اور کچھ نہیں ۔
2۔ دوسری غلطی سائنس دانوں یا کم از کم سائنس کے حوالے سے بولنے والوں نے کی ۔ عالم طبیعیات میں اپنی فتوحات سے وہ اس غلط فہمی میں پڑ گئے کہ وہ اس حیثیت میں ہیں کہ وسیع تر فلسفیانہ مسائل کے بارے میں رائے زنی کر سکیں۔ حالاں کہ، جیسا کہ بعد کو خود سائنس کی مزید دریافتوں سے معلوم ہوا ، عالم طبیعی کے بارے میں ان کے مشاہدات، فلسفہ یا عالمِ افکار کے نازک مسائل کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنے کے لیے انتہائی ناکافی تھے۔
یہاں ہم اپنے مدعا کی وضاحت کے لیے دونوں قسموں کی ایک ایک مثال بیان کریں گے۔
زمین اور سورج کی گردش کے بارے میں قدیم یونان میں دو نظریے پیش کئے گئے تھے ۔ ایک ارسطو کا نظریہ جس کا مطلب یہ تھا کہ زمین قائم ہے اور سورج اس کے گرد گھوم رہا ہے۔ دوسرا ارسٹاکس (Aristarchus) کا نظریہ جس کے مطابق زمین سورج کے گرد گھوم رہی تھی ۔
عیسائیوں کے درمیان ارسطو کا نظریہ بہت مقبول ہوا۔ کیونکہ مرکزیت زمین کے نظریہ(Geocentric Theory) میں زمین کو بنیادی اہمیت حاصل ہو رہی تھی اور چونکہ انھوں نے حضرت مسیح کو خدائی کا مقام دے رکھا تھا۔ اس لیے ان کا خیال یہ ہو گیا کہ وہی کرہ نظام شمسی کا مرکز بن سکتا ہے جہاں خدا وندمسیح پیدا ہوئے ہیں۔ حتٰی کہ مرکز یت زمین کے نظریہ کو انھوں نے اپنے علم کلام میں داخل کرلیا ۔ کوپر نیکس (1543-1473) نے جب مرکزیت آفتاب کا نظریہ(heliocentric theory) پیش کیا تو یورپ کے عیسائی پیشواؤں کو اقتدار حاصل تھا۔ انھوں نے اپنے عقیدہ کے تحفظ کے لیے کو پرنیکس کے خلاف عدالتی سزا کا حکم جاری کر دیا۔ خدا وند کی جنم بھومی کو تابع Satellite) ) قرار دینا ایک ایسا جرم تھا جو کسی طرح معاف نہیں کیا جا سکتا تھا۔
مگر یہ مسئلہ روایتی عیسائیت کا تھا نہ کہ حقیقی معنوں میں خدائی مذہب کا۔ چنانچہ مسلمان جو اس اعتقادی پیچیدگی میں مبتلا نہ تھے کہ پیغمبر کو خدا سمجھنے میں انھوں نے مرکزیت آفتاب کے نظریہ کو زیادہ معقول پا کر اسے قبول کر لیا۔ ان کے یہاں یہ سوال نہیں اٹھا کہ شمسی مرکزیت کا نظر یہ مذہبی تعلیمات سے ٹکراتا ہے:
” ارسطو کے احترام کے باوجود عرب کائنات کے بارے میں ارسطو کے نظریہ پر تنقید کرنے میں نہیں ہچکچائے، جس کا مطلب یہ تھا کہ زمین آسمانی اجرام کا مرکز ہے اور تمام اجرام اس کے گرد گھوم رہے ہیں۔ اس کے برعکس عربوں نے اس امکان کو تسلیم کیا کہ زمین اپنے محور پر گردش کرتی ہوئی سورج کے گرد گھوم رہی ہے ۔“
Eawara McNall Bunrs Western Civilization, P.264
سائنس دانوں کی غلطی کی ایک مثال اصول تعلیل (Causation)میں ملتی ہے۔ اشیاء کے مشاہدہ سے جب یہ حقیقت ان کے سامنے آئی کہ واقعات کے پیچھے ایک سبب کار فرما ہوتا ہے، مثال کے طور پر اجرام سماوی کی گردش کے پیچھے جذب و کشش کا قانون یا قوس قزح کے پیچھے بارش کے قطرات سے سورج کی شعاعوں کا گزرنا، تو انھوں نے سمجھ لیا کہ ان کو اس سوال کا جواب مل گیا ہے جس کے لیے فلسفہ ہزاروں سال سے "علت کائنات " کی تلاش میں سرگرداں تھا۔ حالاں کہ علت کائنات کا مسئلہ نہایت گہرے سوالات سے جڑا ہوا تھا اور سائنس دانوں کا طبیعی مشاہدہ کسی بھی درجہ میں اس قابل نہ تھا کہ اس کو اس نازک اور گہرے سوال کے جواب کے لیے استعمال کیا جائے ۔ تاہم انھوں نے استعمال کیا۔ حتی کہ اس کو خالق کے انکار کا سب سے بڑا ثبوت سمجھ لیا ۔ مگر بیسویں صدی کے آغاز میں خود سائنس نے ایسے حقائق دریافت کئے جس کے بعد الحاد کی یہ بنیاد ہمیشہ کے لیے منہدم ہوگئی۔
یہ ہے مختصر طور پر وہ فکری پس منظر جس میں جدید تاریخ کا وہ واقعہ وجود میں آیا جس کو مذہب اور سائنس کا تصادم کہا جاتا ہے۔
سائنس نے جدید دور کے ہر پہلو پر اتنی شدت اور وسعت کے ساتھ اثر ڈالا کہ علم کے تمام شعبوں اور فکر کے تمام گوشوں پر اس کی چھاپ پڑ گئی، جس قدیم روایتی ڈھانچہ میں لوگوں نے اسلام کو پایا تھا، وہ بالکل ٹوٹ پھوٹ چکا تھا اور نیا فکری ڈھانچہ جو سائنس کے زیر اثربنا، اس کے تحت اسلامی افکار کی تشکیل نو نہ کی جاسکی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ نسل کی نسل تذبذب اور انتشار ذہنی کا شکار ہو کر رہ گئی ۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس دور میں ایسے لوگ معدوم ہو گئے جو اسلام کو اپنے سینے سے لگائے ہوئے ہوں۔ بلاشبہ ایسے لوگ تھے اور کروروں کی تعداد میں تھے۔ مگر انھوں نے اسلام کو روایتی سطح پر پایا تھا ، شعور کی سطح پر نہیں پایا تھا۔ اس کمی کا نتیجہ صرف یہ نہیں ہوا کہ لوگ ایمان کی اس اعلیٰ فکری سطح کو نہ پہنچ سکے جہاں آدمی گرد و پیش کے تمام واقعات کو اس طرح اپنے شعور حق کا جزء بنا لیتا ہے کہ ہر طرف اس کو خدا کا جلوہ دکھائی دینے لگتا ہے۔ اس سے بھی زیادہ بڑا اجتماعی نقصان یہ ہوا کہ اس دور میں مسلمانوں کے جو مذہبی رہنما اٹھے، وہ خود بھی چونکہ ایسے تھے جنھوں نے فکر حاضر میں اپنے دین کو نہیں پایا تھا، بلکہ ماضی کے روایتی ڈھانچہ میں پایا تھا۔ اس لیے وہ دور جدید کے مطابق اسلامی مہم کی منصوبہ بندی نہ کر سکے۔ انتہائی اخلاص مگر انتہائی نادانی کے ساتھ وہ مسلمانوں کو ایسی راہوں میں دوڑاتے رہے جن کی ساری قیمت ماضی کے نقشہ میں تھی، عہد حاضر کے نقشہ میں وہ اپنی قیمت کھو چکے تھے۔ وہ تاریخ ماضی میں حال کا ڈراما کھیلتے رہے۔ اس کا نتیجہ صرف ایک درد ناک شکست تھا۔ چنا نچہ ہر محاذ پر شکست ہوئی اور شکست نے بالآخر مایوسی اور جھنجلا ہٹ اور بے حوصلگی کا شدید تر تحفہ دے کر پوری قوم کی قوم کو موت کے کنارے پہنچا دیا ۔
شعوری سطح پر دین کو پانے کا مطلب وقت کے افکار کے مقابلے میں دین کو پانا ہے۔ معرکہ بدر (625ء) کے مجاہدین نے وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ (انفال:8:60) کی تفسیر "تلوار" میں پائی تھی مگر شاملی (1857) کے مسلمان بھی اگر آیت کی تفسیر یہی پائیں تو کہا جائے گا کہ انھوں نے قرآن کو عہد حاضر کی نسبت سے نہیں پایا ۔ آج اس آیت کی تفسیر کو تلوار کی شکل میں پانا، قرآن کو گزرے ہوئے ماضی کے نقشہ میں پانا ہے جب کہ تجدید کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کو وقت کے نقشہ میں پایا جائے۔ خیالات کے اظہار کے لیے شعر و خطایت کی زبان استعمال کرنا احیائے اسلام کی تحریکوں کا سیاسی رخ اختیار کرنا ، وعظ خوانی اور فتوے کو اصلاح امت کے لیے کافی سمجھنا سب اسی کے مظاہر ہیں۔ دور جدید میں ہمارے جو مصلحین اٹھے انھوں نے اگر فکر حاضر میں اپنے اسلامی شعور کو پایا ہو تا تو وہ جانتے کہ آج کے وہ کون سے افکار و عوامل ہیں جو اجتماعیات میں فیصلہ کن بن گئے ہیں اور ان کے مقابلہ میں احیائے اسلام کی منصوبہ بندی کس طرح ہونی چاہیے ۔ ان کے پاس صرف روایتی عقیدہ کا سرمایہ تھا بس اسی کو لیے ہوئے وہ وقت کے سمندر میں کو د پڑے بدلے ہوئے زمانے میں اس قسم کا جوش ایمان انھیں کہیں نہیں پہنچا سکتا تھا اور نہ اس نے کہیں پہنچایا۔
انیسویں صدی میں یہ بات پوری طرح نمایاں ہو چکی تھی کہ مذہب کا روایتی ڈھانچہ اس جدید ڈھانچہ میں اپنی جگہ نہیں پا رہا ہے جو سائنس کے زیر اثر بنا ہے۔ اس وقت ضرورت تھی کہ گہرائی کے ساتھ صورت حال کا جائزہ لے کر نیا فکری ڈھانچہ تیار کیا جائے جس میں اسلام دوبارہ اپنی جگہ پا سکے ۔ اگر بر وقت یہ کام ہو جاتا تو سائنس یا دور جدید نہ صرف یہ کہ مذہب کے حریف نہ بنتے بلکہ اس کو تقویت دے کہ اس کو نئی زندگی عطا کرنے والے بن جاتے ۔ مگر ایسا نہ ہو سکا ۔ عیسائیت نے سیاسی اقتدار سے محرومی کے بعد ماڈرنزم کی شکل میں سائنس سے سمجھوتہ کر لیا مسلمان دین حق کے حامل ہونے کی وجہ سے اس پوزیشن میں تھے کہ تاریخ جدید کے اس اہم کردار کو ادا کر سکیں جس طرح انھوں نے نویں صدی عیسوی میں بغد اداور قرطبہ میں وقت کی سائنس اور فلسفہ کے مقابلے میں اسی قسم کے کردار کو ادا کیا تھا۔ مگر بدقسمتی سے یہ وہ وقت تھا جب کہ مسلمان قومیں زوال کا شکار ہو چکی تھیں۔ ان کے اندر نہ حوصلہ تھا نہ فکری بلندی۔ مزید یہ کہ جد ید اقتصادیات میں اپنی محرومی کی وجہ سے وہ اس قابل نہ رہے تھے کہ اس قسم کے کسی موثر کام کی قیمت اداکرسکیں۔ اپنی پس ماندگی کی وجہ سے مسلمان اس کا ثبوت بھی نہ دے سکے کہ وہ وقت کے اس مسئلہ کو صحیح طور پر سمجھتے ہیں۔ کجا کہ ان سے یہ امید کی جائے کہ وہ گہرائی کے ساتھ اس کا جائزہ لیتے اور زندگی کے جدید نقشہ میں مذہب کو اس کا مقام عطا کرتے۔
موجودہ حالات نے ہمارے لیے جو مسائل پیدا کئے ہیں، وہ دو قسم کے ہیں: نظری اور عملی۔
پہلے جزء کے سلسلےمیں اہم ترین کام یہ ہے کہ اسلام کے عقائد و احکام کو جدید استدلالی انداز میں مرتب کیا جائے تاکہ وہ لوگوں کو آج کی چیز معلوم ہونے لگیں۔ نہ یہ کہ پڑھنے والا یہ سمجھے کہ وہ اس دور کی چیز ہیں جب کہ انسان قبائلی دور میں سانس لیتا تھا۔
جدید انداز سے مراد یہ ہے کہ اسلوب تحریر اور مواد استدلال دونوں اعتبار سے وہ جدید علمی معیار کے مطابق ہو۔ موجودہ زمانے میں اسلوب تحریر مکمل طور پر بدل گیا ہے۔ قدیم روایتی اسلوب میں خطیبانہ انداز غالب ہوتا تھا ۔ اب سائنسی اور تجزیاتی انداز کو پسند کیا جاتا ہے۔ پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ عبارت کے درمیان اشعار نقل کردینا، زور الفاظ کا مظاہرہ کرنا یا مسجع فقرے لکھنا ، نفس مضمون کی قیمت میں اضافہ کرتا ہے۔ اب یہ ساری چیزیں معیوب قرار پاچکی ہیں ۔ قدیم تصورا دب میں تیر ونشتر قسم کے جملے، مخاطب کے اوپر تیز تیز ریمارک ، جذباتی قسم کی عبارتیں انتہائی پسندیدہ ہوتی تھیں ۔ مگراب یہ تمام چیزیں علمی وقار کے خلاف سمجھی جاتی ہیں۔ قدیم ذوق کے مطابق مبالغہ آمیز الفاظ ، رنگین ترکیبیں اور استعارے اور تشبیہات ادب کا کمال سمجھے جاتے تھے۔ مگر اب کوئی تعلیم یافتہ آدمی اس قسم کے مضمون کو پڑھنا بھی پسند نہیں کرتا ۔
یہی حال مواد کا ہے۔ پہلے زمانے میں یہ بات بھی کسی چیز کو ثابت کرنے کے لیے کافی تھی کہ آدمی اپنے نقطہ نظر کے حق میں ایک مثال پیش کر دے یا ایک حکایت بیان کر دے۔ مگر اب اس کو غیر معتبر سمجھا جاتا ہے کہ کوئی شخص اس قسم کی چیزوں سے اپنی بات ثابت کرنے لگے ۔ پہلے زمانے میں کسی حوالے کے لیے اعدادی قطعیت یا واقعاتی تعین ضروری نہیں سمجھا جاتا تھا، مگر جدید ذوق کے لیے وہ کلام بے معنی ہے جس میں تعیناتی زبان استعمال نہ کی گئی ہو۔ قدیم طریقے میں استدلال کی بنیادتمام ترقیاسی منطق ہوا کرتی تھی۔ مگر اب قیاسی منطق بے قیمت ہوگئی ہے۔ اب تاریخی ، مشاہداتی اور تجزیاتی انداز میں بات کو ثابت کرنے کا نام ثابت کرنا ہے ۔ قدیم انداز میں آدمی مناظر اور مبلغ بن کر ایک وکیل کی طرح بالکل برہنہ انداز میں اپنے نقطہ نظر کی طرف سے بولتا تھا۔ اب غیر شخصی جائزے کو معیاری انداز سمجھا جاتا ہے۔
پچھلے سو برس میں ہمارے یہاں بے شمار کتابیں لکھی گئی ہیں۔ ان میں سے بہت سی کتا بیں بجائے خود قیمتی بھی ہیں۔ مگر دور جدید کے اعتبار سے ان کی افادیت محض جزوی ہے۔ کیونکہ وہ بیشتر خطیبانہ نثر کا نمونہ ہیں۔ سائنسی طرز استدلال پر تحریری کام ابھی تک ہمارے یہاں تقریباً صفر کے درجے میں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے تعلیم یافتہ نوجوان اسلام کو سمجھنے کے لیے بھی مستشرقین کی کتابیں پڑھتے ہیں جو ، خواہ ہمارے نزدیک غلط ہوں ، تاہم نہ اپنے انداز اور اسلوب کے اعتبار سے جد یدمعیار کی حامل ہوتی ہیں۔ مسلم مصنفین کی لکھی ہوئی کتابیں ان کو اپیل نہیں کرتیں۔
عملی مسائل کی فہرست ، جن کے حل کے لیے وقت کے نظام اجتماعی میں تغیر ضروری ہے ، بہت طویل ہے۔ وقت کا اجتماعی نظام، قومی اور بین اقوامی دونوں اعتبار سے، سراسر غیر خدائی بنیاد پر قائم ہے۔ اس کے ڈھانچے میں رہتےہوئے دین کے اجتماعی قوانین پر عمل کرنا ممکن نہیں رہا ہے ۔ مگر یہاں اسلام نے جو راہ عمل تجویز کی ہے وہ اس سے بالکل مختلف ہے جو ایک انقلاب پسند لیڈر عام طور پر اختیار کرتا ہے۔
اس کا حل موجودہ زمانے کی اسلامی جماعتوں نے یہ نکالا ہے کہ نظام حاضر سے ٹکرا جائیں۔ ان کا نظریہ ہے کہ اجتماعی ایمان اگر ہمیں حاصل نہیں تو اس کے حصول کی خاطر موت تو ہمارے بس میں ہے۔ پھر کیوں نہ ہم"بےایمان"زندگی کے مقابلے میں " ایمان دار" موت کو ترجیح دیں۔
یہ خطرناک غلط فہمی اس لیے پیدا ہوئی کہ اس دور میں اٹھنے والے مصلحین امت اس نکتےکو نہ سمجھ سکے کہ اجتماعی اسلام کے لیے جدوجہد کا مقام آغاز اجتماعی اسلام نہیں، دعوت ہے ۔ ہمارے کام کا آغاز اسلامی نظام کے قیام کے لیے براہ راست اقدام سے نہیں ہو گا بلکہ اساسات اسلام کی طرف دعوت سے ہوگا۔ مکہ میں جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اسلامی جد و جہد کا حکم دیا گیا تویہ نہیں کہا گیا کہ مکہ کی پارلیمنٹ (دارالندوہ )میں نمائندگی حاصل کرنے کا مطالبہ کرو یا کعبہ کی تولیت پر قبضہ کرنے کی کوشش کرو ۔ بلکہ تو حید اور مواساة بنی آدم سے متعلق سادہ تعلیمات بھیجی گئیں اور حکم ہوا کہ لوگوں میں ان کی تبلیغ کرو۔ اس سے آگے کی چیزیں ، جن کے حصول کے لیے اجتماعی انقلاب ضروری ہے، ان کے بارے میں حکم دیا گیا کہ انھیں چھیڑنے کے بجائے ان کو برداشت کرو اس وقت کا انتظار کروجب اللہ حالات میں ایسا تغیر فرمائے جب کہ بقیہ مسائل کے حل کی راہ نکل سکے۔ (یونس ۔10:103) اس معاملہ میں اسلام کا اصول یہ ہے کہ ممکن دائرہ میں دین پر عمل کرتے ہوئے دعوتی جد و جہد شروع کر دو ،اور بقیہ تمام امور کو متوقع نصرت الٰہی کے خانہ میں ڈال دو۔ یہی مطلب ہے حکم دعوت کے بعد یہ کہنے کا کہ وَلِرَبِّكَ فَاصْبِرْ (مدثر:74:7)اساسات دین کی طرف پر امن دعوت اور غیر اسلامی تسلط کی وجہ سے جو مشکلات و مسائل پیش آئیں، ان پرصبر، یہی تمام انبیاء کا طریقہ رہا ہے اور یہی آج بھی ان لوگوں کا طریقہ ہونا چاہیے جو مخالف ماحول میں اسلام کے احیاء کے لیے اٹھیں ۔