آپ کے پاس خدا کے فرشتے کھڑے ہوئے ہر وقت بتا رہے ہیں کہ آپ کو کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں کرنا چاہیے۔
ایک بزرگ کو ان کے پڑوسی نے تکلیف پہنچائی ۔ وہ اس سے سخت ناراض ہو گئے "اب میں نہ اُس سے بات کروں گا اور نہ اس سے تعلقات رکھوں گا"۔ انھوں نے اپنے دل میں سوچا۔ اس کے اگلے دن اتفاق سے ان کے لڑکے سے بھی ان کو ایک تکلیف پہنچی ۔ وہ اس سے سخت ناراض ہوئے اور غصہ میں گھر سے باہر نکل آئے۔ رات تک ان کا غصہ جاری رہا۔ یہاں تک کہ وہ سوگئے۔ اگلی صبح کوسو کراٹھے تو انھیں محسوس ہوا کہ ان کے دل میں اپنے بچے کے لیے دو بارہ وہی محبت ہے جو پہلے تھی ۔ انھوں نے اپنے لڑکے کو بلایا اور لطف و محبت کے ساتھ اس سے بات کر کے کل کے غصہ کی تلافی کی ۔
"اگر میں اپنے لڑکے کا قصور معاف کر سکتا ہوں تو کیا اسی طرح میں اپنے پڑوسی کا قصور معاف نہیں کر سکتا "ان کے دل میں خیال آیا، اور اچانک انھیں محسوس ہوا کہ لڑکے کی غلطی کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے انھیں سبق دیا ہے۔ اولاد جن مصلحتوں کے تحت دی جاتی ہے ان میں سے ایک مصلحت شاید یہ بھی ہے کہ انسان کو بتایا جائے کہ وہ کس طرح ایسا کر سکتا ہے کہ ایک قصور وار کا قصور معاف کر دے ۔ اگر آدمی کو اولاد نہ دی جاتی تو اس اخلاق محبت کا عملی سبق کسی اور طرح اس کو نہیں دیا جا سکتا تھا۔ اس کے بعد انھوں نے اللہ سے معافی مانگی اور اپنے پڑوسی سے مل کر اس کو خوش کیا۔
اگر آدمی کے سینے میں ضمیر زندہ ہو اور وہ خدا کے سامنے پیش ہونے سے ڈرتا ہو تو اسی طرح ہر دن وہ اپنے گرد و پیش خداکی آواز سنتا ہے ۔ وہ ہر موڑ پر دیکھ سکتا ہے کہ خدا کے فرشتے کھڑے ہوئے بتا رہے ہیں کہ اس کو کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں کرنا چاہیے۔ یہ آواز صرف ان لوگوں کو سنائی نہیں دیتی جن کے کان خدا کی آوازسننے کے لیے بہرے ہو چکے ہیں ۔ وہ خدا کی آواز صرف اس وقت سنیں گے جب اسرافیل کی چنگھاڑان کے کان کے پردے پھاڑ دے ۔
ایک بزرگ ایک شخص کے یہاں مہمان ہوئے ۔ اس آدمی کے گھر سے ملی ہوئی مسجد تھی جس میں نمازی بہت کم آتے تھے ۔ بزرگ نے اپنے سکون کی خاطر مسجد میں قیام کو پسند کیا۔ مسجد میں داخل ہونے کے بعد انھیں محسوس ہوا کہ عرصہ سے اس کی صفائی نہیں ہوئی ہے۔ یہ برسات کا زمانہ تھا۔ اس لیے ٹپکنے اور بوچھار سے مسجد کی صفیں جگہ جگہ سے بھیگ گئی تھیں اور ان میں بُوبھی پیدا ہوگئی تھی۔ اگلے دن سورج نکلا تو بزرگ نے ساری صفیں نکال کر باہر دھوپ میں پھیلا دیں مسجد میں خوب صفائی کی ۔ اس کے بعد صفوں کو سکھا کر اور جھاڑ کر اپنی جگہ دوبارہ بچھا دیا ۔
ایک بزرگ جب پہلی بار مسجد میں داخل ہوئے تھے تو اس کی حالت دیکھ کر انھیں سخت انقباض ہوا تھا۔ اب جو وہ اس کی صاف ستھری فضا میں بیٹھے تو ان کے دل کو ایک خاص طرح کی خوشی محسوس ہوئی ۔ انھوں نے دو رکعت نماز پڑھ کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ اس نے انھیں اس خدمت کی توفیق عطا فرمائی۔
عین اس وقت ان کے میزبان آگئے۔ " اس شخص سے اتنا بھی نہیں ہو سکتا کہ مسجد کی صفائی کرے اس کو دیکھتے ہی ان کے اندر یہ احساس ابھرا " یہ دین کے اوپر لمبی لمبی تقریریں کرتا ہے۔ مگر عمل کا یہ حال ہے کہ اپنے پڑوسں کے خانہ خدا کو درست نہیں کر سکتا"۔ اس احساس نے بہت جلد ان کے لاشعور میں یہ جذبہ ڈال دیا کہ میں دین میں اس سے زیادہ ہوں۔ میری دین داری کے مقابلہ میں اس کی کوئی حیثیت نہیں ۔"
دن گزر گیا۔ شام کو وہ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک اجنبی شخص اندر داخل ہوا۔ اس کا دُبلا پتلا چہرہ اور اس کے پھٹے کپڑے بتا رہے تھے کہ وہ کوئی غریب مسافر ہے۔ بزرگ نے اس کے سلام کے جواب میں وعلیکم السلام تو کہا مگر دل میں سوچا " یہ شخص بھی کتنا بے وقت آیا ہے، اب اس کے لیے رات کے کھانے کا انتظام کرنا ہوگا ۔ رات بھی شاید وہ اسی مسجد میں گزارے اور میری تنہائی میں خلل ڈالے ۔" ابھی وہ اسی انقباض میں تھے کہ ان کے میزبان مسجد میں داخل ہوئے۔ مسافر کو دیکھ کر انھوں نے فوراً آگے بڑھ کر اس کو سلام کیا ، اور مسکراتے ہوئے پوچھا کہاں سے آنا ہواپھر اس کے حالات معلوم ہونے کے بعد خود ہی بولے " آج آپ یہیں قیام کریں اور ہمارے ساتھ کھانا کھائیں" میزبان نے یہ ساری باتیں اس طرح کی گویا یہ نو وارد ایک غریب مسافر نہیں، ایک نعمت ہے جو خدا نے اس وقت خصوصی طور پر ان کے لیے بھیج دی ہے۔
اس واقعہ کے بعد بزرگ نے محسوس کیا کہ ان کے دل میں نئی ہلچل پیدا ہو رہی ہے "مسجد کی صفائی کے معاملہ میں میں نے اپنے میزبان پر سبقت کی تھی ۔ مگر مسافر کی خدمت کے معاملہ میں وہ مجھ سے کہیں زیادہ بڑھا ہوا ہے انھوں نے اپنے دل میں کہا اور اگر میرے اندر ایک خصوصیت ہے تو میزبان کے اندر دوسری خصوصیت ہے، اور کیا معلوم مسجد کی صفائی کے مقابلے میں غریب مسافر کی خدمت اللہ تعالیٰ کو زیادہ پسند ہو۔" اس خیال کا آنا تھا کہ انھوں نے تو بہ کی اور سجدہ میں گر کر اللہ سے دعا کی کہ وہ ان کو اور ان کے میزبان کو ہدایت دے اور اپنی رحمتوں میں حصّہ دار بنائے ۔
ہماری دنیا فتنوں سے بھری ہوئی ہے۔ یہاں ہر وقت اندیشہ ہے کہ آدمی کسی گڑھے میں جا گرے ۔ مگر او پر کے واقعات بتاتے ہیں کہ اللہ نے یہاں بچاؤ اور اصلاح کے بھی بے شمار مواقع رکھ دیتے ہیں۔ اگر آدمی کے اندر ایمانی جذبہ زندہ ہو تو ہر فتنہ کے وقت اس کو اپنے قریب ہی ایک روشنی مل جائے گی جس سے فائدہ اٹھا کر وہ دوبارہ اپنے نجات کے راستہ کو پاسکتا ہے۔ مگر جب ایمان کی چنگاری بجھ جائے تو وہ بچاؤ کے الٰہی انتظام سے کوئی فائدہ نہیں اٹھاپاتا۔ وہ ہر پھسلن پرگرتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ اس آخری گڑھے میں پہنچ جاتا ہے جس سے پھر آدمی کو نکلنا نہیں ہے :
جو خدا سے ڈرنے والے ہیں جب ان پر شیطان کا گزر ہوتا ہے ، وہ چونک جاتے ہیں ۔ پھر انھیں سوجھ آجاتی ہے اور جو شیطان کے بھائی ہیں، وہ ان کو کھینچے چلے جاتے ہیں پھر وہ کسی طرح نہیں تھمتے ۔ (اعرا ف: 203 )