موت کے بعد آدمی کو وہ سب کچھ مضحکہ خیر دکھائی دے گا جس کو وہ دنیا  میں سمجھتا تھا اور جس کے پیچھے اپنی ساری زندگی لگادی تھی

آخری انجام

چو این لائی (1976۔ 1898 )چین کے اشتراکی انقلاب (1949) سے پہلے جیا نگ کائی شیک کے ساتھی تھے۔ بعد کو وہ چیانگ سے الگ ہو گئے اور کمیونسٹ چین کے پہلے وزیر اعظم بنے۔ انھوں نے چین کے علاوہ   فرانس، انگلینڈ، جرمنی اور جاپان میں تعلیم حاصل کی۔ چین کے سابق وزیر دفاع مسٹرلن پیاؤآخری برسوں میں ان کے طاقت ور حریف حیثیت سے ابھرے۔ مگر 1972 میں وہ ان کو باغی قرار دے کر میدان سے ہٹانے میں کامیاب ہو گئے اور چین کے نمبر 2شخص بن گئے۔ تاہم وہ کینسر کے مرض سے اپنے کو نہ بچا سکے اور 18ماہ اسپتال میں رہ کر 9جنوری کو اس دنیا سے چلے گئے۔ چاؤ صرف ایک بچے کے والد بن سکے تھے جس کا بچپن ہی میں انتقال ہو گیا۔

سب مضحکہ خیز نظر آئیں گے

ماوزی تنگ (1976۔1893) تقریباً 30سال تک 800 ملین آبادی کے ایک عظیم ملک کے مختار کل رہنے کے بعد بالآخر اس دنیا سے چلے گئے۔ ء 1965میں انھوں نے اڈگر اسنو  (Edgar snow)کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا :

A thousand years from now, all of us —even marx, engels and lenin will look rather ridiculous.

اب سے ہزار سال بعد ہم لوگ ، حتی کہ مارکس انجلیس او رلینن سب مضحکہ خیز دکھائی دیں گے۔

یہ بات اگر چہ انھوں نے سیاسی اور اقتصادی نظریات کے پہلو سے کہی تھی ، مگر موت نے شاید صرف دس سال بعد انھیں بتا دیا ہوگا کہ یہ بات ایک اور معنی میں بھی صحیح ہے—— موت سے پہلے آدمی اپنی ترقی کے لیے  یا اپنی شخصیت کو بنانے کے لیے  جو کچھ کرتا ہے وہ موت کے بعد کی زندگی میں بالکل بے معنی ہو جاتا ہے۔ اس کو اچانک معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ان چیزوں کی کوئی قیمت ہی نہیں جن کو سب سے زیادہ اہم سمجھا جاتا تھا اور ان کو حاصل کرنے کے لیے  اپنی ساری زندگی لگادی تھی ۔

کچھ کام نہ آیا

جز لسمو فرانسسکو فرینکو (1978-1892) 36سال تک اسپین کے مطلق العنان ڈکٹیٹر رہے ۔ آخر عمر میں ان کو نو قسم کی مہلک  بیماریاں لگ گئی تھیں ۔ ڈاکٹروں کی شب ور وز موجودگی کے باوجود وہ پانچ ہفتہ تک بستر پر تڑپتے رہے اور بالآخر 19 نومبر کو ختم ہو گئے۔ اسپین کی سول وار (38۔1936)کے زمانہ میں ہٹلر اور مسولینی کی فوجی مدد سے وہ ملک کے اقتدار پر قابض ہوئے تھے ۔شاہ اسپین الفانسو سیز دہم 1931میں ملک چھوڑ کر بھاگ گئے تھے ۔اب ان کا پوتا پرنس جوان کارلوز ڈی بورون دوبارہ اسپین کا حکمراں ہے جس کو جنرل فرینکو نے اپنی زندگی ہی میں اپنا جانشین مقرر کر دیا تھا۔

        عام اسپینی مزاج کے بر عکس جنرل فرینکو میں دو نمایاں خصو صیتیں پائی جاتی تھیں احتیاط اور نرمی فرینکو نے ایک بار سمندر میں مچھلی کا شکار کھیلنا چاہا۔ اس وقت سمندر میں طوفان تھا۔ انھیں مشورہ دیاگیا کہ وہ سمندر میں داخل نہ ہوں۔ مگر وہ مصر رہے۔ ان کی بیوی دونا کارمینا نے کہا” اگر آپ ان موجوں میں ڈوب گئے تو اسپین کا کیا ہوگا ۔“فرینکو نے جواب دیا ” خدا اسپین کی حفاظت کرے گا ۔“

کھدائی ختم نہیں ہوئی

سرمورٹی مروھیلر فیلمی (1976۔1889) اسکاٹ لینڈ میں پیدا ہوئے ۔ وہ آثار قدیمہ کے عالم تھے۔ انگلستان کے تین تاریخی مقامات (سڈنی، ویر ولامیم، میڈن کیسل ) کی کھدائی کے بعد ان کو کافی شہرت حاصل  ہوئی اور وہ رومن آرکیالوجی کے ماہر سمجھے جانے لگے۔

1944ء میں وہ غیر منقسم ہندوستان میں آرکیا لوجیکل سروے کے ڈائرکٹر جنرل مقرر ہوئے۔ انھوں نے ہندوستان اور پاکستان کے مختلف تاریخی مقامات کی کھدائی کی اور آثار قدیمہ سے متعلق دوسرے اہم کام انجام دیے۔

ہندوستان میں جب ان کا تقرر ہوا تو یہاں کے پریس میں ان کو نا اہل ثابت کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ : ”وہ رومن آر کیا لوجی کے ماہر ہیں۔ ہندوستان کے علم الآثار میں وہ ہمارے کیا مددگار بن سکتے ہیں۔“مگر اپنے اعلیٰ کام سے انھوں نے اتنی اہلیت ثابت کی کہ آزادی کے بعد بھی وہ ہمارے محکمہ آثار قدیمہ کی طرف سے بار بار ہندوستان بلائے جاتے رہے حتی کہ آزادی سے پہلے اپنی چار سالہ ملازمت کے دوران انھوں نے پانڈیچری کے پاس آریکا میڈو کی کھدائی کر کے یہ بھی ثابت کیا کہ رومن ہندوستان تک پہنچ گئے تھے۔

سر وھیلر نہایت محنتی اور ذمہ دار آدمی تھے ۔ان کا قول تھا :

Every excavation is destruction unless it is properly recorded

کھدائی کا ہر کام بر باد کرنے کا کام ہے ۔ جب تک کہ اس کو صحیح طور پر ریکارڈ کرنے کا انتظام نہ کیا گیا ہو۔

سرو ھیلر کو اپنی پوری زندگی " کھدائی "کی زندگی نظر آتی تھی ۔ شاید انھیں یہ احساس تھا کہ وہ ابھی تک اصل حقیقت تک نہیں پہنچے ہیں۔ انھوں نے اپنے بعد  اپنی خود نوشت سوانح عمری چھوڑی ہے اور اس کا نام معنی خیز طور پر اب بھی کھدائی کرتے ہوئے STILL DIGGING تجویز کیا ہے۔

کوئی وقت نہیں

کرشن بھاٹیا (74-1925) ان انتہائی چند ہندستانیوں میں تھے جنھوں نے ملکی صحافت میں تجزیاتی تحریر(analytical writing)  کی اعلیٰ مثال قائم کی۔ اپنی عمر کے آخری آٹھ سال انھوں نے واشنگٹن میں ہندستان ٹائمس کے کرسپانڈنٹ کی حیثیت سے گزارے۔ 10د سمبر 1974کو جب ریڈیو نے بتایا کہ اچانک حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے واشنگٹن میں ان کا انتقال ہو گیا تو بہت سے لوگ اچنبھے میں پڑ گئے ۔ کیونکہ موت  کے وقت کرشن بھاٹیہ پوری طرح تندرست توانا تھے اور پختگی کے اس آخری کنارہ پر پہنچ چکے تھے جب کہ آدمی اپنی صلاحیتوں کو کامیاب  ترین شکل میں استعمال کرنے  کے قابل ہو جاتا ہے۔

ڈاکٹر آنے سے پہلے

نرنجن سنگھ طالب (1976 - 1901) نئی دہلی میں اپنے مکان پر تھے۔ انھوں نے ایک پیالی چائے پی۔ اس کے بعد ہی انھیں سینہ میں درد محسوس ہوا ۔ فوراً قریبی ڈسپنسری سے ایک ڈاکٹر بلایا گیا۔ ڈاکٹر ان کے مکان پر پہنچا تو اس کے لیے  صرف یہ مقدر تھا کہ وہ مریض کو دیکھے کر یہ اعلان کرے کہ اس کا انتقال ہو چکا ہے ۔ 

نرنجن سنگھ طالب پنجاب کا نگریس کے صدر اور راجیہ سبھا کے ممبر تھے۔ اس سے پہلے وہ پنجاب کی کا بینہ میں وزیر بھی رہ چکے ہیں۔ انھوں نے نیتاجی سبھاش چندر بوس کے ہندستان سے بھاگ کر جرمنی پہنچنے میں مد دکی تھی ۔ جس کے نتیجہ میں ان کے اوپر انگریز وں نے مقدمہ چلایا۔ 1923میں وہ اپنے صوبہ پنجاب سے نکال دیے گئے۔

نئی تاریکی

پچھلے ستمبر میں دو ہم عمرفن کاروں کے لیے  موت کاپیغام آگیا۔ ایک بنگال کے باغی شاعر قاضی نذر الاسلام (1976۔1899)دوسرے مرہٹی کے سماجی ناول نگار دی ایس کھنڈیگر (1976۔1898) ۔ دونوں کو غیر معمولی شہرت اور عزت ملی ۔ مگر دونوں مسلسل بیماری اور حادثات کا شکار رہے حتی کہ دونوں اپنی آنکھ سے محروم ہو چکے تھے قاضی نذر الاسلام کی آنکھ 1942میں فالج کے حملہ میں ختم ہو گئی ۔ کھنڈیکر کی آنکھ عرصے سے نہایت کم زور ہو چکی تھی ۔ موت سے تقریباً تین سال پہلے وہ بالکل ہی اندھے ہو گئے۔

کھنڈیکر سے آخر عمر میں ایک اخبار نویس نے سوال کیا کہ آنکھوں کے چلے جانے کے بعد آپ کیا محسوس کرتےہیں ۔انھوں نے جواب دیا:

I have adjusted myself in this new darkness.

میں نے اپنے آپ کو اس نئی تاریکی سے ہم آہنگ کر دیا ہے

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom