یہ فرق کیوں

کلیم اللہ خاں ایم ایس سی (پیدائش ۱۹۵۱) اور مشتاق احمد ریشی انجینیر ( پیدائش ۱۹۵۱) دونوں سرینگر (کشمیر )کے رہنے والے ہیں۔ دسمبر کے نصف آخر میں وہ دہلی آئے۔ ۲۶ دسمبر ۱۹۸۹ کو ان سے اسلامی مرکز میں ملاقات ہوئی۔ ان سے میں نے پوچھا کہ دہلی کے بارے میں اپنے کچھ تجربات بتائیے۔

انھوں نے کہا کہ ہم لوگ کھاری باؤلی کے علاقے میں گئے۔ وہاں شام ہو گئی ۔ ہمیں کسی کوٹیلی فون کرنا تھا۔ ہم کرانہ کے ایک دکاندار سے ملے ۔ یہ ہندو تھا۔ اس کا دکان بند کرنے کا وقت ہو گیا تھا اور وہ اپنی دکان کی شٹر گرار ہا تھا ۔ ہم نے کہا کہ ہمیں ایک ٹیلی فون کرنا ہے ۔ وہ فوراً  رک گیا اور کہا کہ آئیے کر لیجئے۔

ہم نے وہاں سے ٹیلی فون کیا۔ اتفاق سے بات لمبی ہوگئی ۔ بات کر لینے کے بعد ہم نے جیب سے نوٹ نکالا اور دکاندار کو دیتے ہوئے کہا کہ معاف کیجئے ، ہم نے آپ کا بہت وقت لیا۔ اس ہندو دکاندار نے پیسے نہیں لیے۔ اس نے ہاتھ جوڑ کر کہا کہ بھائی صاحب ، یہ تو آپ کی مہربانی ہے کہ آپ نے ہم کو خدمت کا موقع دیا ۔ آپ کو اور ٹیلی فون کرنا ہے تو آپ اور بھی کر لیں۔ پیسہ دے کرہمیں شرمندہ نہ کریں۔

 اس کے بعد انھوں نے دہلی کے مسلمانوں کے بارے    میں اپنے کچھ تجربات بتائے جو اس کے بالکل برعکس تھے ۔ دوسری قوم کے افراد سے اگر انھیں میٹھے بول کا تجربہ ہوا تھا تو مسلمانوں سے انھیں کڑوے بول کا تجربہ ہوا ۔ انھوں نے مزید کہا کہ یہ کوئی وقتی یا اتفاقی بات نہیں ہے یہی ہمارا مستقل تجربہ ہے ۔

مشتاق احمد ریشی صاحب پہل گام میں ٹورسٹ ہٹ چلاتے ہیں ۔ اس سلسلے میں انھیں مسلمانوں اور غیر مسلموں ، دونوں سے بار بار سابقہ پیش آتا ہے ۔ اسی طرح کلیم اللہ خان صاحب کا کشمیری شال کا کاروبار ہے ۔ انھیں بھی برابر دونوں فرقے کے لوگوں سے سابقہ پڑتا رہتا ہے۔

دونوں نے کہا کہ ہمارا عام تجربہ ہے کہ دوسری قوم کے لوگ نرم بات کرنے والے اورخوش اخلاق ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس مسلمان گرم گفتار ہوتا ہے اور بہت جلد تشدد پر اتر آتا ہے۔ وہ اپنے سوا کسی اور کا لحاظ کرنا نہیں جانتا ۔ اس سلسلےمیں متعدد واقعات بتانے کے بعد انھوں نے کہا کہ آخر مسلمانوں اور غیر مسلموں میں یہ فرق کیوں ہے۔

میں نے کہا کہ یہ تجربہ صرف آپ کا نہیں ہے ۔ اس معاملہ میں بہت سے لوگوں کا تجربہ یہی ہے ۔ سنجیدہ لوگ اکثر اس بارے    میں سوال کرتے رہتے ہیں۔ اس سلسلےمیں جو بات میری سمجھ میں آئی ہے ، وہ یہ ہے کہ اس فرق کا سبب وہ مزاجی فرق ہے جو دونوں فرقوں کی الگ الگ نفسیات کی وجہ سے دونوں میں پیدا ہوا ہے۔

اصل یہ ہے کہ یہ فرق مسلمان اور غیر مسلمان کا نہیں ہے بلکہ یہ موجودہ مسلمان اور موجودہ غیر مسلمان کا فرق ہے۔ موجودہ مسلمانوں کا معاملہ یہ ہے کہ وہ ایک زوال یافتہ قوم ہیں۔ موجودہ مسلمانوں کی نفسیات اُن کے اس بگڑے ہوئے عقیدہ کے تحت بنی ہے کہ ہم خدا کی خاص امت ہیں ، اس لیے ہم بہر حال نجات پائیں گے ، خواہ ہم بے عمل یا بد عمل ہی کیوں نہ ہو۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ ہم پائیں گے ، خواہ ہم کچھ نہ کریں ۔ ہم کامیاب ہوں گے، خواہ ہم نے اس کے لیے ضروری کوشش نہ کی ہو۔

دوسری قوم کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے ۔ ان کا مقصد، مادی فائدہ حاصل کرنا یا مادی مواقع کو استعمال کرنا ہے۔ یہی وہ مقصد ہے جس کے تحت ان کی نفسیات بنی ہے۔ مادی دنیا میں نتیجہ ہمیشہ عمل کی بنیاد پر ملتا ہے۔ یہاں "عمل نہیں تو نتیجہ بھی نہیں " کا اصول کارفرما ہے۔ سر فلپ سڈنی (Sir Philip Sidney) نے اس بات کو ان لفظوں میں کہا کہ کوئی چیز بھی اس وقت تک حاصل نہیں ہوتی جب تک اس کے لیے پوری پوری کوشش نہ کی جائے :

Nothing is achieved before it be thoroughly attempted.

 یہ گویا دینِ مادیت کا کلمہ ہے ۔ اور اسی کلمہ پر یقین کی وجہ سے دوسری قوم کے آدمی کے اندر یہ مزاج بنتا ہے کہ میں کروں گا تب پاؤں گا، کیے بغیر مجھے کچھ ملنے والا نہیں ۔

 اس فرق کا نتیجہ یہ ہے کہ مسلمان ہمیشہ جھوٹے بھرم میں رہتا ہے ۔ وہ بیرونی حقیقت کی پروا کرنا نہیں جانتا۔ کیوں کہ اس کی مخصوص نفسیات اس کو بتا رہی ہوتی ہے کہ وہ بہر حال کامیاب ہونے والا ہے، کوئی خارجی حقیقت اس کے مستقبل پر اثر انداز ہونے والی نہیں۔ اس کا پورا ماحول روزانہ اس کو یہی سبق دیتا رہتا ہے ۔

اس کے برعکس دوسری قوم کا آدمی ہمیشہ حقیقت پسندی کے انداز میں سوچتا ہے۔ اس کا مادی ذہن ہر وقت اس کو یہ بتاتا رہتا ہے کہ کامیابی کوئی اپنے آپ ملنے والی چیز نہیں۔ کامیابی اس کو صرف اس وقت ملے گی جب کہ خارجی اسباب کو اس نے اپنے موافق بنایا ہو۔ اگر خارجی اسباب موافقت نہ کریں تو وہ کامیاب ہونے والا بھی نہیں ۔

اسی کا یہ نتیجہ ہے کہ موجودہ مسلمان تخیل پسند بن گیا ہے اور دوسری قوم کا آدمی حقیقت پسند۔ ایک بے صبر ہے اور دوسر اصبردار ۔ ایک طاقت نہ ہونے کے باوجود لڑ پڑتا ہے اور دوسرا صرف اس وقت لڑتا ہے جب کہ اس کے پاس طاقت موجود ہو ۔ ایک حالات کو جاننے کی فکر نہیں کرتا اور دوسرا حالات کو گہرائی سے جاننا اپنے لیے ضروری سمجھتا ہے ۔ ایک اپنے کام کا آغاز اقدام سے کرتا ہے اور دوسرا اپنے کام کا آغاز تیاری سے ۔

ایک کا حال یہ ہے کہ وہ زمانہ کی تبدیلیوں سے بے پروا رہتا ہے اور دوسرا زمانہ کی تبدیلیوں کو جان کر اس کے مطابق اپنا منصوبہ بناتا ہے۔ ایک بڑے بڑے الفاظ بول کر خوش ہوتا ہے اور اس کو بھی ایک کام سمجھتا ہے اور دوسرا عملی پہلوؤں کو اپنے موافق بنانے کو کام قرار دیتا ہے۔ ایک کے یہاں شاعری اور خطابت اور انشا پردازی کی دھوم ہے اور دوسرے کے یہاں سائنٹفک انداز اور سائنٹفک علوم پر توجہ دی جاتی ہے۔ ایک اکڑنے کو کمال سمجھتا ہے اور دوسرا جھک کر اپنا کام بنانے کی کوشش کرتا ہے ۔

خلاصہ یہ کہ موجودہ مسلمان کی نفسیات کا سرچشمہ اس کی اپنی گھڑی ہوئی خوش فہمیاں ہیں ، اور غیر مسلم نفسیات کا سرچشمہ اٹل مادی حقائق ۔ اس نفسیاتی فرق نے ایک کو خود فریبی کی زمین پر کھڑا کر دیا ہے ، اور دوسرے کو حقیقت شناسی کی زمین پر ۔ دونوں گروہوں کے مزاج کا یہ فرق اتنا واضح ہے کہ اس کو زندگی کے ہر شعبہ میں دیکھا جا سکتا ہے ، خواہ وہ انفرادی سطح کا معاملہ ہو یا اجتماعی سطح کا معاملہ ۔

 نظام الدین بستی (دہلی) کے ایک مسلمان سے میں نے پوچھا کہ بستی میں کتنے مسلمان ہوں گے۔ انھوں نے کہا کہ ۹۰  فی صد سے زیادہ ۔ میں نے کہا کہ بستی میں عام ضرورت کی چیزوں کی سب سے بڑی دکان کس کی ہے ۔ انھوں نے کہا کہ ہندو کی ۔ میں نے کہا کہ جب بستی کے اندر زیادہ تر مسلمان آباد ہیں تو وہ لوگ دکان کیوں نہیں کرتے ۔ انھوں نے کہا کہ مسلمانوں کی بھی یہاں کئی دکانیں ہیں، مگر سب سے چلتی ہوئی دکان ہندو کی ہے ۔ اس کے یہاں ہر وقت بھیٹر لگتی ہے ۔

 اس کی وجہ بتا تے ہوئے انھوں نے کہا کہ پہلے میں خود مسلمان دکانداروں سے سودا خرید تا تھا۔ مگر ان کا معاملہ بہت خراب رہتا ہے۔ چنانچہ اب میں زیادہ تر ہندو دکان ہی سے ضروری سودا خریدتا ہوں ۔ یہ کوئی استثنائی بات نہیں۔ آپ کہیں بھی مسلم دکاندار سے خریداری کا تجربہ کیجئے۔ اس کے بعد آپ غیر مسلم دکاندار کے یہاں سودا خرید نے جائیے ۔ آپ دونوں میں کھلا ہوا فرق پائیں گے ۔ ایک کے یہاں آپ کو بے پروائی اور تلخ کلامی ملے گی ، اور دوسرے کے یہاں ہمدردی اور شیریں کلامی ۔ یہی وہ فرق ہے جس نے تجارت میں مسلمانوں کو پیچھے اور غیر مسلموں کو آگے کر دیا ہے ۔

یہی فرق قومی اور اجتماعی سطح پر بھی پایا جاتا ہے۔ ہندؤوں میں ایک طرف بال گنگا دھر تلک (۱۹۲۰ - ۱۸۵۶) اٹھے جو آزادی کی تحریک کو تشدد کے انداز پر چلانا چاہتے تھے۔ دوسری طرف مہاتما گاندھی (۱۹۴۸ - ۱۸۶۹) تھے جو عدم تشدد کے طریقہ پر چل کر آزادی حاصل کرنے کی بات کرتے تھے۔ ہندو قوم نے تلک کو چھوڑ دیا اور گاندھی کو اپنا لیڈر بنالیا۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom