ایک تجربہ
جناب محفوظ علی خاں صاحب (پیدائش ۱۹۵۴) دہلی میں پلاسٹک انڈسٹریز کا کام کرتے ہیں۔ یکم مئی ۱۹۹۰ کی ملاقات میں انھوں نے اپنا ایک ذاتی تجر بہ بتایا۔
دہلی کے شمالی حصہ میں گھونڈ لی نام کا ایک علاقہ ہے۔ یہاں زیادہ تر ہند و گوجررہتے ہیں۔ ایک گوجر کا ایک بڑا مکان ہے جو ساڑھے پانچ سو مربع گز میں واقع ہے۔ اس میں تقریباً دس مسلمان کرایہ دار ہیں۔ محفوظ علی خاں صاحب کے پاس بھی تقریباً ۲۰ سال سے اس کے تین کمرے کرایہ پر ہیں۔ مکان کے مالک نے اس کو دوسرے گوجر کے ہاتھ بیچ دیا۔ اب سابقہ مالک اور نئے مالک نے مل کر کرایہ داروں پر دباؤ ڈالنا شروع کیا کہ وہ اس کو خالی کر دیں۔ انھوں نے ان لوگوں کو طرح طرح کی دھمکیاں دیں۔
ایک روز تقریباً ۴۰ گوجر جمع ہو کر آئے اور کہا کہ مکان خالی کرو ورنہ ہم ڈنڈے کے زور پر تم لوگوں کو یہاں سے نکال دیں گے حتی کہ انھوں نے اشتعال انگیز باتیں کیں ۔ مثلاً یہ کہ مسلمان قوم غدار ہے۔ مسلمان احسان فراموش ہوتے ہیں۔ وغیرہ۔
محفوظ علی صاحب اور دوسرے مسلمانوں نے کہا کہ ہم خالی کرنے کے لیے تیار ہیں مگر یہاں ہمارے تجارتی معاملات ہیں۔ ان کو نپٹانے میں وقت لگے گا۔ ہم کو ایک سال کی مہلت دو۔ اس کے بعد ہم ضرور خالی کر دیں گے۔
گوجر لوگ مہلت دینے پر راضی نہیں ہوئے۔ انھوں نے کہا کہ تم لوگ نہیں مان رہے ہو تو ہم پنڈت لوگوں کو بلاتے ہیں۔ یہ "پنڈت " در اصل ایک بڑا خاندان ہے جو یہاں رہتا ہے۔ وہ لوگ پراپرٹی ڈیلر ہیں اور پیسہ والے ہیں۔ ان کا تعلق بھارتیہ جنتا پارٹی سے ہے۔ عام طور پر ان کو گوڑ کہا جاتا ہے۔ وہ معاشی اور سیاسی دونوں لحاظ سے طاقتور ہیں۔
گوجروں کے بلانے پر کچھ گوڑ (پنڈت) موقع پر آئے۔ انھوں نے دونوں طرف کی باتیں سنیں۔ آخر میں انھوں نے گوجروں سے کہا کہ کرایہ دار لوگ اگر ایک سال کا وقت مانگ رہے ہیں تو ان کا کہنا جائز ہے۔ پھر تم کیوں ان کے ساتھ زبر دستی کر رہے ہو۔
گوجروں نے یہ سنا تو وہ پنڈتوں پر غصہ ہوگئے۔ انھوں نے کہا کہ تم کو ہم نے اپنی مدد کے لیے بلایا تھا اور تم یہاں آکر خود ہمارے خلاف فیصلہ کر رہے ہو ۔ اب وہ پنڈتوں کو برا بھلا کہنے لگے۔ ایک گوجر نے اپنی مونچھ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا کہ اب ہم خود خالی کرائیں گے۔ ۱۶ لاکھ میں اس کوخریدا ہے ، ۱۶ لاکھ اوپر سے اور لگا دیں گے ۔ اور خالی کرا کے چھوڑیں گے۔
پنڈت لوگوں نے یہ سنا تو وہ بھی غصہ ہوگئے اور یہ کہہ کر چلے گئے کہ کرایہ داروں نے تو جائز بات کہی تھی۔ مگر تم لوگ دھاندلی کر رہے ہو تو اب ہم بھی دیکھ لیں گے کہ تم کیسے خالی کراتے ہو۔
گھونڈلی میں پنڈت لوگوں کا ایک اسکول ہے جس کا نام سناتن دھرم مڈل اسکول ہے۔یہاں آٹھویں تک تعلیم ہوتی ہے۔ محفوظ صاحب کی بچی یہاں ساتویں کلاس میں پڑھ رہی تھی۔ جب مکان کا جھگڑا پیدا ہو تو محفوظ صاحب نے احتیاط کے طور پر یہ طے کیا کہ بچی کو اس اسکول سےنکال لیں اور اس کا داخلہ دوسری جگہ کرائیں ۔ کیوں کہ پتہ نہیں کب یہاں کا مکان چھوڑنا پڑے۔
محفوظ صاحب ۱۶ اپریل ۱۹۹۰ کو اسکول گئے تاکہ بچی کا نام وہاں سے کٹوا دیں اور لیونگ سرٹیفیکیٹ حاصل کریں۔ اس وقت اسکول کے منیجر (سری گوڑ) وہاں موجود تھے۔ انھوں نے پوچھا کہ آپ اپنی بچی کو کیوں یہاں سے نکال رہے ہیں۔ محفوظ صاحب نے کہا کہ گوجر لوگوں نے مکان کا جھگڑا کھڑا کر دیا ہے، وہ زبر دستی مکان خالی کروانا چاہتے ہیں۔ اس لیے میں چاہتا ہوں کہ بچی کی تعلیم کا بندوبست کہیں اور کروں۔
سری گوڑ نے کہا کہ اگر آپ اس وجہ سے بچی کا نام کٹوارہے ہیں تو آپ ہر گز ایسا نہ کریں ۔کیا اس ملک میں کوئی قانون نہیں ہے۔ وہ لوگ کیسے خالی کرالیں گے۔ آپ اپنے مکان میں رہئے۔ہم سب لوگ آپ کے ساتھ ہیں۔ اور اگر خالی کرنا ہوا تو سیدھے سیدھے نہیں خالی کیا جائےگا۔ خالی کروانے والوں کو دو دو لاکھ روپیہ دینا ہو گا۔
پوری آبادی میں یہ بات پھیل گئی کہ پنڈت لوگ مسلمانوں کا ساتھ دے رہے ہیں ۔ محفوظ صاحب نے بتایا کہ اب وہ لوگ ہمارے مشیر بن گئے ۔ حتی کہ ایک پندٹ نے کہا کہ اگر پیسہ کی ضرورت پڑی تو ہم پیسہ بھی خرچ کریں گے اور آپ کو جتائیں گے۔
پنڈت لوگوں کے مشورہ پر محفوظ صاحب نے اس معاملہ کی رپورٹ تھانہ میں درج کر ائی اور کورٹ میں اس پر مقدمہ کر دیا۔ اب یہ معاملہ عدالت میں ہے۔ گوجر لوگ اگر چہ فرضی دھمکیاں دیتے ہیں۔ مگر اب ان کا زور ٹوٹ چکا ہے۔ ایک بار محفوظ صاحب گھر آئے تو انھیں معلوم ہوا کہ گوجر لوگ آئے تھے اور مسلمانوں کو دھمکی دے رہے تھے کہ ہم ڈنڈے کے زور پر خالی کر ائیں گے۔ محفوظ صاحب اس گوجرسے ملے جس نے ایسی بات کہی تھی ۔ گوجر نے فوراً بات بدل دی۔ اس نے کہا مجھ سے قسم لے لو، اس کے کیڑے پڑیں جس نے ایسا کہا ہو۔
اب یہ معاملہ عدالت میں ہے۔ پنڈت لوگوں کی مداخلت کے بعد گوجروں کا زور ٹوٹ چکا ہے۔ تقریباً یقینی ہے کہ مصالحت اور راضی نامہ کے ذریعہ شریفانہ انداز میں اس کا فیصلہ ہو جائے گا۔
محفوظ علی خاں صاحب کو یہ کا میابی اس لیے ملی کہ وہ اشتعال انگیزی کے با وجودمشتعل نہیں ہوئے۔ خود نہ بول کر انھوں نے فطرت کو بولنے کا موقع دیا ۔ نا معقولیت کے جواب میں معقولیت کا رویہ اختیار کر کے انھوں نے خود دوسری قوم کے اندر اپنے ہمدرد پالیے ۔ یہی اس دنیا میں کامیابی کا طریقہ ہے، خواہ مسئلہ مسلمانوں اور مسلمانوں کے درمیان ہو یا مسلمانوں اورغیر مسلموں کے درمیان۔