آخرت کی نعمتیں
محمد شفیع قریشی کشمیری (پیدائش ۱۹۲۹ ) نے اپنی ابتدائی تعلیم سری نگر میں حاصل کی اور اس کے بعد علی گڑھ سے بی اے ، ایل ایل بی کیا۔ انھوں نے اپنے بچپن کا ایک واقعہ بتاتے ہوئے کہا : میں نے ابتدائی تعلیم چرچ مشن اسکول (سرینگر) میں پائی۔ اس وقت اس کے پرنسپل ایک انگریز مسٹر بسکو تھے ۔ ان کو کشمیر میں تعلیم کا پیش رو کہا جاتا ہے۔ وہ سب سے پہلے کشمیر میں سائیکل لے آئے۔ کشمیر کے کسٹم والوں نے اب تک سائیکل نہیں دیکھی تھی ۔ جب وہ آئی تو کسٹم والوں کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ یہ کیا چیز ہے اور اس کو اپنے کاغذات میں کس نام سے درج کیا جائے۔ بہت غور و خوض کے بعد انھوں نے مسٹربسکو کی سائیکل کو " فولادی گھوڑا "لکھا۔ جلد ہی پورے شہر میں یہ خبر پھیل گئی کہ مسٹر بسکو ولایت سے کوئی فولادی گھوڑا لائے ہیں (شبستان مئی ۱۹۷۲)
جن لوگوں نے " فولادی گھوڑا" کو اپنی آنکھ سے نہیں دیکھا تھا، صرف اس کی خبر سنی تھی ، وہ عرصہ تک یہی سمجھتے رہے کہ وہ گھوڑے کی طرح کا کوئی جانور ہے جو ہڈی اور گوشت کے بجائے لوہے کا بنا ہوا ہے۔پچاس سال بعد دنیا اب "بائیسکل "کے دور سے گزر کر" ہوائی جہاز" کے دور میں داخل ہوگئی ہے۔آج ایک شخص ہوائی جہاز پر تیز رفتاری کے ساتھ اڑ رہا ہو۔ اس وقت وہ نیچے دیکھے اور کسی سڑک پراس کو نظر آئے کہ ایک آدمی بائیسکل چلاتا ہوا گزر رہا ہے تو اس کو اپنے درمیان اور بائیسکل سوار کے درمیان بہت زیادہ فرق دکھائی دے گا۔
یہی فرق زیادہ بڑے پیمانہ پر آخرت میں ظاہر ہونے والا ہے ۔ آخرت کی سواریاں اتنی اعلیٰ اور اتنی کامل ہوں گی کہ جو لوگ ان سواریوں پر سفر کریں گے وہ موجودہ ہوائی جہاز کو اس سے بھی عجیب نظر سے دیکھیں گے جتنا کہ آج ہوائی جہازکا مسافر کسی بائیسکل سوار کو دیکھتا ہے۔
دنیا کی ہر چیز ناقص ہے ، آخرت کی ہر چیز کامل ہوگی ۔ دنیا کی ہر چیز محدود ہے ، آخرت کی ہر چیز لامحدود ہوگی۔ دنیا کی ہر چیز غیر معیاری (imperfect) ہے ، آخرت کی ہر چیز معیاری (perfect) ہوگی۔ کتنا خوش نصیب ہے وہ انسان جس کو آخرت کی نعمتیں دیدی جائیں ۔ اور کتنا بد نصیب ہے وہ انسان جو آخرت کی نعمتوں میں حصہ پانے سے محروم رہے۔