ایک سفر
بین اقوامی سفر آج کل ہوائی جہاز کی تیز رفتاری کے ساتھ کئے جاتے ہیں۔ مگر میں ذہنی طو رپر ایک "سست رفتار "آدمی ہوں۔ اس بنا پر اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ایک سے زیادہ سفر قریب کی تاریخوں میں پیش آجائیں تو میں صرف ایک کو اختیار کر پاتا ہوں۔ اور بقیہ مجھ سے چھوٹ جاتاہے۔
یہی واقعہ موجودہ سفر کے موقع پر پیش آیا ۔ مئی ۱۹۹۰ کی ابتدائی تاریخوں کے لیے میرے پاس دو بیرونی دعوت نامے آئے تھے۔ دونوں کا ٹکٹ بھی آچکا تھا۔ مگر میں صرف ایک سفر کر سکا۔دوسرا سفر مجھے چھوڑ دینا پڑا۔
پہلا سفر مجھے جنیوا (سوئٹزرلینڈ )کے لیے کر نا تھا۔ جنیوا میں سید جمال الدین افغانی کے مجلہ العروۃ الوثقی کے سلسلہ میں ایک تقریب تھی۔ یہ تقریب انٹرنیشنل ہوٹل (جنیوا )میں ۲ مئی ۱۹۹۰ کو ہوئی۔سید جمال الدین افغانی نے پیرس سے العروۃ الوثقی کے نام سے ایک ماہانہ پرچہ عربی زبان میں نکالا تھا۔ وہ چھ مہینہ جاری رہ کر بند ہو گیا۔ اب ڈاکٹر عبد الحکیم طبیبی (افغانی ) اسی نام سے جنیوا سے ایک پرچہ نکال رہے ہیں۔ یہ عربی اور انگریزی، دونوں زبانوں میں شائع ہوتا ہے ۔ جنیوا میں اسی پر چہ (العروۃ الوثقی) کی دسویں سالگرہ (anniversary) کے سلسلہ میں ایک تقریب تھی۔
مجھے اس تقریب میں شریک ہونا تھا اور وہاں اپنے خیالات کا اظہار کر نا تھا۔ منتظمین کے رزرویشن کے مطابق ، اس کے لیے میری روانگی ۳۰ اپریل کو مقررتھی۔ دوسری کانفرنس د کار (سینیگال) میں۷ – ۱۰مئی ۱۹۹۰ کو تھی۔ اس میں شرکت کے لیے مجھے رزرویشن کے مطابق ، ۴ مئی کو جنیو اسے روانہ ہونا تھا۔ مگر اپنی ذہنی سست رفتاری کی بنا پر میں بیک وقت دونوں سفروں کا پروگرام نہ بنا سکا۔ چنانچہ جنیوا کا پروگرام مجھ سے چھوٹ گیا۔ دہلی سے ۳۰ اپریل کو روانہ ہونے کے بجائے میں ۴ مئی کو روانہ ہوا۔ اور اسی دن جنیوا ہوتے ہوئے شام کو د کار پہنچا ۔
اتنا لمبا سفر ایک دن میں طے ہونے کا سبب وقت کا فرق تھا۔ انڈیا اور سینیگال کے وقت میں ساڑھے پانچ گھنٹہ کا فرق ہے۔ اس فرق کی بنا پر دن کو پورا کرنے کے لیے مجھے ساڑھے پانچ گھنٹے مزید مل گئے۔
ایک ملک اور دوسرے ملک میں وقت کا فرق زمین کی محوری گردش کی بنا پر ہے۔ آدمی زمین کے" وقت" میں فرق نہیں کر سکتا ، اس لیے اس نے اپنی گھڑی کے وقت میں فرق کر لیا ۔ حقیقت سے اسی مطابقت کا نام ایڈ جسٹمنٹ ہے۔ اور اسی ایڈ جسٹمنٹ میں تمام کامیابیوں کا راز چھپا ہوا ہے۔ جولوگ حقیقت واقعہ سے مطابقت پر راضی نہ ہوں ، ان کو اس دنیا میں صرف اپنی بربادی پر راضی ہونا پڑتا ہے ، خواہ وہ اس کو پسند کریں یا نا پسند ۔
اس سفر کا پہلا مرحلہ ۲۴ اپریل ۱۹۹۰ کو پیش آیا۔ کانفرنس کے منتظمین کی طرف سے جو کا غذات آئے تھے ، اس میں درج تھا کہ روانگی سے پہلے زرد بخار (yellow fever) کا انجکش لگوالیں۔ اس سلسلہ میں ۲۴ اپریل کو نئی دہلی میونسپل کمیٹی کے دفترمیں جانا ہوا۔ یہاں ہفتہ میں دو بار (بدھ ، جمعہ) کو باہر جانے والے مسافروں کے لیے ٹیکہ (vaccination) کا انتظام ہے ۔ وہاں پہنچا تو پورا ہال مردوں اور عورتوں سے بھرا ہوا تھا۔ یہ تمام لوگ باہر جانے کے لیے ٹیکہ لگوانے آئے تھے ۔ میں مسٹر شاستری کے پاس بیٹھ گیا جو رجسٹر میں ہر ایک کے نام کا اندراج کر رہے تھے۔ نام سے اندازہ ہوا کہ آنے والوں میں چند عیسائی اور بیشتر ہندو تھے۔ میرے سوا و ہاں کوئی بھی مسلمان نظر نہ آیا۔
اس کا مطلب واضح طور پر یہ تھا کہ" انٹر نیشنل ٹریول "میں مسلمانوں کا حصہ بہت کم ہے۔ ہمارے نام نہاد مسلم رہنما روزانہ کوئی نہ کوئی " تاریخ ساز " اجتماع کرتے رہتے ہیں۔ آپ ان میں شرکت کریں تو آپ کو نظم و نثر میں اس قسم کی باتیں سننے کو ملیں گی :
پرے ہے چرخ نیلی فام سے منزل مسلمان کی ستارےجس کی گرد راہ ہوں وہ کارواں تو ہے
مگر اصل صورت حال اس کے برعکس ہے۔ لفظی پرواز میں مسلمان سب سے آگے ہیں ، اور حقیقی پرواز میں سب سے پیچھے۔
نئی دہلی میونسپل کمیٹی کے مذکورہ دفتر جانے سے پہلے میں ایک عربی جریدہ پڑھ رہا تھا۔ اس میں ایک مضمون تھا جس کا عنوان تھا : مقياس التقدم والتخلف (آگے اور پیچھے ہونے کا معیار) اس مضمون میں ان لوگوں کو برا کہا گیا تھا جو "مستشرقین" کی تقلید میں مسلمانوں کے متعلق یہ کہتے ہیں کہ وہ ایک پچھڑی ہوئی قوم ہیں۔ یہ لوگ مسلمانوں کو مادی معیار سے جانچتے ہیں۔ یہ معیار بجائے خود غلط ہے۔ مسلمان کی نظر میں اصل معیار ایمان ہے۔ اور مسلمانوں کو چوں کہ ایمان کی دولت حاصل ہے ، اس لیے وہ سب سے آگے ہیں۔ اور دوسری تمام قو میں ان سے پیچھے ہیں۔ کیوں کہ وہ کفر و الحاد میں مبتلاہیں۔ اور کفر و الحاد اور مادیت ہی دراصل وہ چیز ہے جو کہ پچھڑا پن ہے ( وإن الكفر والإلحاد و الماديات هو التخلف)
یہ تقابل درست نہیں۔ تقدم سے مراد مادی تقدم بھی ہو سکتا ہے اور ایمانی تقدم بھی ۔ اگر مسلمانوں کو مادی تقدم کے اعتبار سے جانچنا ہو تو انہیں مغربی قوموں کے معیار سے جانچا جائے گا۔ اور اگر مسلمانوں کو ایمانی تقدم کے اعتبار سے جانچنا ہو تو ان کو اصحاب رسول کے معیار سے جانچا جائے گا۔ کیوں کہ اس دوسرے معاملہ میں "قدوة " وہی ہیں۔
مضمون نگار اگر چاہتے ہیں کہ تقدم کے لیے ایمان کو معیار بنا ئیں تو ان کو چاہیے کہ موجودہ مسلمانوں کے ایمان کا تقابل اصحاب رسول کے ایمان سے کریں اور موجودہ مسلمانوں کی مادیات کا تقابل موجودہ ملحدین کی مادیات سے۔ یہ ایک غیر منطقی تقابل ہے کہ تقدم کا معیار ایمان کو قرار دیا جائے اور پھر ایمان کو ملحدین کے معیار سے جانچا جائے۔ اس قسم کے مضامین بلاشبہ مضر ہیں۔ کیوں کہ وہ مسلمانوں میں جھوٹا فخر پیدا کر کے انھیں بے عمل اور بے تدبیر بنا رہے ہیں۔
نئی دہلی میں سینیگال کی ایمبسی موجود ہے ۔ جو صاحب سینیگال ایمبیسی میں میرا ویز الینے کے لیے گئے تھے ، انھوں نے بتایا کہ ویزا افسر نے پاسپورٹ میں میری تصویر دیکھی تو کہا کہ میں ان کو جانتاہوں۔ ہم کو خوشی ہے کہ وہ ہمارے ملک میں جارہے ہیں۔
ویزا افسر کے اس طرح "پہچاننے "کا سبب یہ تھا کہ ٹائمس آف انڈیا ( ۱۰ دسمبر ۱۹۸۹) میں میرا انٹرویو چھپا تھا۔ اس میں انٹرویور نے میری تصویر بھی چھاپ دی تھی ۔ مذکورہ افسر نے کہا کہ میں نے اس انٹرویو کو پڑھا تھا اور اس میں ان کی تصویر دیکھی تھی۔ یہ تصویر اب بھی میرے پاس محفوظ ہے ۔ موجودہ زمانےکے نئے امکانات میں سے ایک امکان یہ ہے کہ ایک شخص کسی آدمی کو براہ راست نہ دیکھے ، اس کے باوجودوہ اس کو اس کی صورت سے پہچانتا ہو۔
اس زمانے میں تصویر ی صحافت نے انسان کے اوپر جو نئے مواقع کھولے ہیں ، ان کی یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے۔ ہندستان کے مسلمان تصویر کو نا جائز بتاتے ہیں، مگر یہی علماء عرب شخصیتوں کا اپنے اداروں میں استقبال کر رہے ہیں ، جب کہ یہ عرب لوگ تصویر کو عین جائز سمجھتے ہیں۔
ہندستان کے دو عالموں کے درمیان اگر اختلاف ہو تو دونوں کے درمیان نزاع قائم ہو جاتی ہے۔ مگر یہی اختلاف ہندستانی عالم اور عرب عالم کے درمیان ہو تو ہندستانی عالم اس کو خندہ پیشانی کے ساتھ گوارا کر لیتا ہے ۔ اس فرق کا سبب کیا ہے ، یہ ایک نازک معاملہ ہے ۔ مگر اس سے پر دہ اٹھانا شاید خدا کے سوا کسی اور کے اختیار میں نہیں۔
دہلی سے لفتھانسا کی فلائٹ ۷۶۱ کے ذریعہ رات کو ۳ بجے (۴ مئی ۱۹۹۰) روانگی ہوئی تقریباً آٹھ گھنٹے کی مسلسل پرواز کے بعد فرینکفرٹ (جرمنی) پہنچا۔ پورا سفر نہایت ہموار گزرا۔ سفر کا وقت بڑا عجیب تھا۔ یعنی نصف شب کے وقت رات کو ساڑھے گیارہ بجے گھر سے ایر پورٹ کے لیے روانہ ہونا تھا۔ ایک صاحب نے مشورہ دیا کہ رات کی نیند خراب ہو جائے گی ۔ اس لیے دن کو سولیں ۔ مگر میں ایسا نہ کر سکا۔
یہ مشورہ درست نہ تھا۔ میں دہلی میں برابر اپنا کام کرتا رہا۔ اس کی وجہ سے کچھ زیادہ تکان آگئی۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ جہاز کے اندر پہنچا تو جلد ہی نیند آگئی ۔ دیر تک گہری نیندسوتا رہا ۔ اس طرح نیند بھی ایک اور شکل میں پوری ہوگئی۔ وقت بھی استعمال ہو گیا اور آٹھ گھنٹہ کا لمبا سفر آسانی کے ساتھ گزر گیا۔ بہت سے مشورے بظا ہر ٹھیک نظر آتے ہیں مگر حقیقۃ ً وہ بے ٹھیک ہوتے ہیں۔
فرینکفرٹ ایر پورٹ پر میں نے ۴ مئی کو فجر کی نماز پڑھی۔ ایک جرمن خاتون میری نماز کو غور سے دیکھتی رہی۔ جب میں فارغ ہو کر اٹھا تو اس نے معذرت کے ساتھ پوچھا "کیا آپ یو گا کاعمل کر رہے تھے"۔ میں نے کہا نہیں، میں صلاۃ کا عمل کر رہا تھا۔ وہ یوگا کو جانتی تھی ، مگر وہ صلاۃکو نہیں جاتی تھی۔ اس نے پوچھا کہ صلاۃ کیا چیز ہے۔ میں نے کہا ، کیا آپ خدا کو مانتی ہیں۔ اس نے کہا ہاں، میں نے کہا کیا آپ مانتی ہیں کہ خدا ہمارا خالق اور رب ہے۔ اس نے کہا ہاں ۔ میں نے کہا پھر نماز اسی خالق اور مالک کی عظمت اور اس کے احسان کا اعتراف ہے۔
خداصبح لاتا ہے تو ہم جھک کر کہتے ہیں کہ خدا یا تیرا شکر ہے کہ تونے میرے لیے دن کو روشن کیا تا کہ میں کام کروں ۔ خداشام لاتا ہے تو ہم جھک کر کہتے ہیں کہ خدایا تیرا شکر ہے کہ تو میرے لیے رات لا یا تا کہ میں آرام کروں۔ اس طرح ہم رات اور دن میں پانچ بار خدا کی عظمت اور اس کے انعامات کااعتراف کرتے ہیں۔ جرمن لیڈی بہت غور سے میری بات کو سنتی رہی۔ اس کے بعد تھینک یو ، تھینک یو کہتی ہوئی چلی گئی۔
فرینکفرٹ سے جنیوا کے لیے لفتھانسا کی فلائٹ ۱۸۴۶ کے ذریعہ روانگی ہوئی گیٹ ۳۲ بی کی تلاش میں نکلا تو ایک بور ڈپر لکھا ہوا نظر آیا کہ اپنی پرواز کے لیے اپنی مدد آپ کریں :
For your flight - Please help yourself.
میں نے دیکھنا شروع کیا تو مکمل نشانات اتنی زیادہ مقدار میں جگہ جگہ لگے ہوئے تھے کہ وسیع ایر پورٹ پر اپنے مطلو بہ گیٹ پر پہنچنا بالکل آسان تھا۔ سینکڑوں آدمی انھیں نشانات کی مدد سے اپنے مطلوبہ مقام پر چلے جا رہے تھے۔ میں نے سوچا کہ اس سے بہت زیادہ بڑے پیمانے پر خدا نے اپنی معرفت کے نشانات کائنات میں جگہ جگہ نصب کر رکھے ہیں۔ مگر کوئی شخص ان سے رہنمائی حاصل نہیں کرتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ " ایر پورٹ " کے نشانات کے بارے میں لوگ سنجیدہ ہیں۔ مگر خدا کے نشانات کے بارے میں لوگ سنجیدہ نہیں۔ اور نشانات سے رہنمائی حاصل کرنے کے لیے آدمی کا سنجیدہ ہونا انتہائی ضروری ہے۔
فرینکفرٹ ایر پورٹ پر ایک جرمن پروفیسر سے ملاقات ہوئی۔ وہ پروفیسر کارل ٹرال (Carl Troll) کے شاگرد تھے۔ انھوں نے بتایا کہ کارل ٹرال یونیورسٹی آف بون میں جغرافیہ کے پروفیسر تھے۔ وہ ۱۸۹۹ میں پیدا ہوئے اور ۱۹۷۵ میں وفات پائی۔ وہ اپنے فن میں ممتاز درجہ رکھتے تھے۔ چنانچہ ان کو جغرافیہ دانوں کی عالمی یو نین (International Union of Geographers) کا پریسیڈنٹ بنایا گیا۔
انھوں نے بتایا کہ ۱۹۶۴ میں وکٹوریہ البرٹ ہال (لندن) میں پروفیسر کارل ٹرال کی اسپیچ تھی۔ اس میں مختلف ملکوں کے ممتاز سائنس داں جمع تھے۔ اس موقع پر تقریر کرتے ہوئے پروفیسر ٹرال نے کہا کہ سائنس داں کی حیثیت سے ان کی زندگی کا بنیادی تجربہ یہ ہے کہ وہ خالق کے زیادہ سے زیادہ احسان مند ہوتے چلےگئے اور تخلیقی عمل میں خدا کی عظمت کو دیکھ کر وہ حیران کن احساس سے بھر گئے :
The basic experience of his life as a scientist has been that he became more and more grateful to the Creator and full of wonders at God's greatness in His works of creation.
انھوں نے بتایا کہ پر وفیسر کارل ٹرال کے الفاظ پر حاضرین میں سے کسی نے اعتراض نہیں کیا۔ بلکہ اکثر سائنس داں اٹھ کر ان کے پاس آئے اور اظہار مسرت میں ان سے ہاتھ ملایا۔
یہ احساس ان تمام اہل علم کا ہے کہ جو نیچرکا مطالعہ کرتے ہیں۔ کوئی جرأت مند اس کا اعلان کر دیتا ہے۔ اور کچھ لوگ اس کو اپنے دل میں لیے ہوئے اس دنیا سے چلے جاتے ہیں۔
لفتھانسا کی فلائٹ میگزین (Bordbuch) کے شمارہ مئی ۱۹۹۰ کے ایک مضمون میں بتایا گیا تھا کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد ایسٹ جرمنی اور ویسٹ جرمنی میں ہوائی پرواز پر پابندیاں عائد ہو گئی تھیں۔ دونوں کے بیچ ایک درمیانی علاقہ قائم کر دیا گیا تھا جس کو مختصر طور پر اے ڈی آئی زڈ کہا جاتا تھا :
Air Defence Identification Zone (ADIZ)
مگر آج یہ حد بندی ٹوٹ گئی ہے۔ اب دونوں جرمن ریاستوں کے درمیان صرف لفتھانسا کی ہفتہ میں ۲۸ پروازیں قائم ہوچکی ہیں۔
آج کی دنیا میں لوگ جغرافی حدود کو توڑ رہے ہیں تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ اپنے تعلقات کوبڑھائیں مگراسی دنیا میں مسلمان ہر جگہ اپنی جغرافی حدود کو گھٹانا چاہتے ہیں تاکہ اپنے چھوٹے چھوٹےگھروندے بنا سکیں۔
اس کو وہ بطور خود "اسلامستان" کہتے ہیں۔ موجودہ زمانے کے مسلمانوں میں اس ظاہرہ کا ظہور در اصل احساس شکست کی علامت ہے۔ مسلمان بڑھتے ہوئے کام پٹیشن کی اس دنیا میں دوسروں سے مقابلہ کر کے ان کے درمیان زندہ رہنے کی طاقت اپنے اندر نہیں پاتے۔ اس لیے وہ چاہتے ہیں کہ اپنی حدیں کھینچ کر اس کے اندر اپنے لیے زندہ رہنے کا موقع تلاش کریں۔ موجودہ زمانہ کی وہ تحریکیں جن کو مسلمان بطور خود آزادی کی تحریکیں کہتے ہیں، وہ صرف ان کی شکست خوردہ نفسیات کے مظاہرہیں۔ اس سے زیادہ اور کچھ نہیں ۔
موجودہ زمانہ میں ہوٹلوں اور بینکوں کی عالمی تنظیم نے اس کو ممکن بنا دیا ہے کہ آدمی دنیا کے کسی بھی حصہ میں اپنے لیے ہر قسم کی آسودگی اور مواقع اطمینان بخش طور پر پاسکے۔ میگزین میں "اکسپرس کارڈ" کا اشتہار ان لفظوں میں ایک پورے صفحہ پر چھپا ہوا تھا :
Whatever your destination, all you need to get into 880 of Europe's best hotels is the American Express Card.
یعنی آپ کی جو بھی منزل ہو ، یورپ کے ۸۸۰ بہترین ہوٹلوں میں سے کسی ہوٹل میں جگہ حاصل کرنے کےلیے آپ کو صرف ایک چیز کی ضرورت ہے اور وہ امریکی بینک کا امریکن اکسپرس کارڈ ہے۔
اس کو میں نے پڑھا تو قرآن کی وہ آیت یاد آگئی جس میں اہل جنت کی زبان سے جنت کے بارے میں کہلایا گیا ہے کہ شکر ہے اس اللہ کا جس نے ہمارے ساتھ اپنا وعدہ پورا کیا اور ہم کو اس زمین کا وارث بنا دیا۔ ہم جنت میں جہاں چاہیں مقام کریں۔ (الزمر: ۷۴)
جہاز میں سوئٹزرلینڈ سے ایک اعلی تعلیم یافتہ شخص سے ملاقات ہوئی۔ ان کی مادری زبان کچھ اور تھی، مگر انگریزی زبان روانی کے ساتھ بول رہے تھے۔ گفتگو کے دوران انڈیا کا ذکر آیا۔ انھوں کہا کہ انڈیا اتنا بڑا ملک ہے کہ کسی ایک حکومتی اقتدار کے تحت اس کا انتظام نہیں کیا جاسکتا :
India is too big to be managed.
ان کا خیال تھا کہ انڈیا کا وہی انجام ہو گا جو سوویت یونین کا ہو رہا ہے ۔ وہ disintegrate ہو جائے گا۔ میں نے کہا کہ مگر ہمارے سامنے دوسری مثال یوایس اے (امریکہ ) کی ہے ۔ وہ انڈیا سے بھی زیادہ بڑا ہے۔ اس کے باوجود اس کا انتظام چل رہا ہے ۔ انھوں کہا کہ امریکہ کے وسائل بہت زیادہ ہیں ۔ وہ ایک امیر ملک (rich country) ہے۔ اس لیے وہاں وہ عوامی بے چینی نہیں جو کہ انڈیا میں بہت بڑے پیمانہ پر پائی جاتی ہے۔
میں نے کہا کہ سوویت یونین کو جو چیز منتشر کر رہی ہے وہ اس کا سائز نہیں ہے، بلکہ اس کا جبر ہے۔ اسی طرح امریکہ کو جو چیز کامیاب بنائے ہوئے ہے وہ اس کی دولت نہیں ہے بلکہ آزادی ہے۔ انڈیا میں بھی آزادی ہے ۔ مگر انڈیا میں اسی کے ساتھ جہالت ہے۔ انڈیا اگر تعلیم کے معاملہ میں امریکہ کے برابر ہو جائے تو اس کی سالمیت کو کوئی خطرہ نہیں رہے گا۔ میں نے کہا کہ ۱۹۴۷ کے بعد انڈیا میں جو حکومتیں آئیں، بدقسمتی سے ان میں سے کسی حکومت نے بھی تعلیم کو وہ اہمیت نہ دی جو اس کو دینا چاہیے ۔ چنانچہ آج بھی انڈیا میں ۸۰ فی صد سے زیادہ افراد ناخواندہ یا نیم خواندہ ہیں ۔ یہی انڈیا کااصل مسئلہ ہے۔
یہ جہاز (747-B) ساخت کا تھا ۔ ایک کارڈ پر دوران پرواز حفاظتی تدابیر درج تھیں۔ اس سے پہلے پندرہ زبان میں لکھا ہو ا تھا: آپ کی حفاظت کے لیے (for your safety) سب سے آخر میں پندرہویں نمبر پر عربی میں "من أجل سلامتك" درج تھا۔ عربی فقرہ کا آخر میں اندراج کسی تعصب کی بنا پر نہ تھا۔ اس قسم کی تجارتی کمپنیاں صرف یہ دیکھتی ہیں کہ ان کے مسافروں میں کتنے آدمی کس زبان والے ہیں۔ اسی کے لحاظ سے وہ ترتیب مقرر کرتی ہیں۔
یہ تعصب کی بات نہیں بلکہ حقیقت کی بات ہے کہ مسلمان انٹرنیشنل اسفار میں "پندرہویں نمبر "پر ہیں۔ مسلم مسافرین میں زیادہ تر افراد وہ ہوتے ہیں جو کسی نہ کسی نوعیت کا مذہبی سفر کر رہے ہوتے ہیں۔ جب کہ موجودہ زمانہ میں زیادہ تر سفر سیاحت، تجارت ، سیاست اور حکومتی تعلقات کے تحت ہوتا ہے اور اسی قسم کے سفروں میں مسلمانوں کا بہت کم حصہ ہے۔
میرے قریب کناڈا کے ایک سیاح (Dr Thomas Raye) تھے ۔ وہ ہندستان سے آرہے تھے۔ میں نے پوچھا کہ کنا ڈا میں اور انڈیا میں کیا فرق ہے۔ انھوں نے مسکرا کر کہا کناڈا میں طرح طرح کی مادی ترقیاں ہیں اور انڈیا میں طرح طرح کے انسان۔ انھوں نے اپنی جیب سے د و در جن رنگین تصویریں نکالیں جو انھوں نے انڈیا کے قیام کے دوران کھینچی تھیں ۔ اس میں عجیب عجیب صورتیں تھیں۔ کسی میں کوئی بند رنچا رہا ہے۔ کہیں کوئی نعرہ لگا رہا ہے ، کہیں کوئی بھیک مانگ رہا ہے۔ کہیں کوئی برقع پوش عورت ہے ، کہیں کوئی رکشاکھینچ رہا ہے۔ وغیرہ۔
ترقی یافتہ ملکوں کی نظر میں انڈیا ایک پچھڑا ہو املک ہے ۔ انڈیا کے لوگ اس کو مغرب کا تعصب کہتے ہیں۔ مگر یہ صحیح نہیں۔ یہ درست ہے کہ انڈیا میں ترقیاں ہوئی ہیں ۔ مگر یہ ترقیاں اس درجہ سے بہت کم ہیں جہاں پہنچ کر آدمی کا اعتراف کیا جاتا ہے۔ اعتراف کا عملی اصول یہ ہے کہ آپ سود رجہ ہوں تو لوگوں کو آپ دس درجہ دکھائی دیں گے۔ اس لیے دنیا نے اگر آپ کا اعتراف نہ کیا ہو تو دوسروں کی شکایت کرنے کے بجائے اپنے آپ کو مزید اٹھائیے یہاں تک کہ آپ کی بلندی اس اعلیٰ درجہ تک پہنچ جائے کہ کوئی شخص اس کو دیکھے بغیر نہ رہ سکے۔
چالیس سال پہلے جاپان کی تصویر دنیا کی نظر میں نہایت حقیر تھی حتی کہ ابتدائی ترقی کے بعد بھی کوئی اس کو ماننے کے لیے تیار نہ تھا ۔ مگر آج جب کہ جاپان کی ترقی کا پیالہ بھر کر ابل پڑا تو اب ہر آدمی اس کا اعتراف کر رہا ہے۔
میری سیٹ کے پاس تھیلے میں ایک خوبصورت ساپمفلٹ تھا۔ اس پر لکھا ہوا تھا : آسمان میں خریداری (shopping in the sky) اس پمفلٹ میں بتایا گیا تھا کہ دوران پرواز آپ جہاز کی "مارکٹ" سے کیا کیا چیز خرید سکتے ہیں۔ میں نے مذکورہ جملہ پڑھا تو معا ً مجھے خیال آیا کہ دوسرے مسافروں کا کیس اگر "شاپنگ ان دی اسکائی" ہے تو میرا کیس " تھنکنگ ان دی اسکائی " کہا جاسکتا ہے۔ کیوں کہ میراذہن ہمیشہ سوچنے میں لگا رہتا ہے۔
پھر خیال آیا کہ دنیا کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ دنیا میں بیشتر لوگ "شاپنگ "کو اصل کارنامہ سمجھتے ہیں۔ یعنی دنیا کی مارکیٹ میں جو چیزیں مل رہی ہیں ، اس کا زیادہ سے زیادہ ذخیرہ اپنے لیے سمیٹ لیں۔ کچھ لوگ ظاہری مادی سامان خریدتے ہیں اور کچھ لوگ اخباری شہرت ،عوامی مقبولیت ، اسٹیج کی لیڈری کو سب سے بڑی چیز سمجھ کر اس کو حاصل کرنے میں کوشاں رہتے ہیں۔
مگر حقیقت یہ ہے کہ سب سے بڑی چیز جو اس دنیا سے حاصل کی جائے وہ سوچنا ہے جس کو قرآن میں ذکر و فکر (آل عمران ) کہا گیا ہے۔ ذکر و فکر کسی قسم کے الفاظ کی تکرار نہیں ہے۔ یہ در اصل ذہنی تخلیق کا ایک عمل ہے۔ آدمی مرئی حقیقتوں کو غیر مرئی حقیقتوں میں تبدیل کرتا ہے۔ وہ دنیا کے مادی کارخانہ سے روحانی پیداوار نکالتا ہے۔ وہ عالم ِظاہر سے ایک عالمِ باطن کی تعمیر کر تا ہے۔ اسی کا نام ذکر وفکر ہے۔
فرینکفرٹ سے جنیوا جاتے ہوئے جہاز میں مختلف یورپی اخبارات تھے۔ میں نے ایک اخبار (USA Today) لیا۔ اس کے صفحہ ۱۲ پر ایک رپورٹ تھی جس کا عنوان تھا: نیا جنگی میدان (The new war zone) اس رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ جب سے امریکہ اور سوویت روس نے اپنی بندوقیں رکھ دی ہیں ، اقتصادی طاقت ایک طاقت ور ہتھیار بن گئی ہے۔ اور اس نے چھوٹی طاقتوں مثلا ًجاپان اور جرمنی کے لیے اس بات کا دروازہ کھول دیا ہے کہ وہ عالمی اہمیت حاصل کرنے کی طرف آگے بڑھ سکیں :
Since the USA and Soviet Union have put down their guns, economic strength has become a powerful weapon. And that has opened the door for smaller powers - such as Japan and West Germany - to move into positions of global prominence.
ان سطروں کو پڑھتے ہوئے مجھے معاہدۂ حدیبیہ کی حکمت یاد آگئی ۔ معاہدہ ٔحدیبیہ میں یہی ہوا تھا کہ قریش دس سال تک کے لیے تلوار میان میں رکھنے پر راضی ہو گئے تھے۔ چنانچہ جیسے ہی ایسا ہوا، اسلام نے دعوتی طاقت کی حیثیت سے ابھرنا شروع کر دیا۔ رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ امریکہ میں آج کل ایک لطیفہ (joke) مشہور ہو رہا ہے کہ سرد جنگ ختم ہو گئی اور جاپان جیت گیا:
The Cold War is over ––– and Japan won.
فرینکفرٹ سے جنیوا کی پرواز تقریباً ایک گھنٹہ کی تھی۔ جہاز نے کافی نیچے نیچے پر واز کیا۔ چنانچہ اس سفر کے دوران جرمنی اور سوئزرلینڈ کے دیہات بہت صاف نظر آتے رہے ۔ دیہات کے مکانات انتہائی منظّم تھے۔ صاف ستھرا ماحول، ہر طرف سڑکیں نظر آرہی تھیں۔ باغوں اور کھیتوں کے ہرے بھرے قطعات اتنے خوب صورت تھے جیسے وہ قدرتی آرٹ کے نمونے ہوں ۔ ترقی یافتہ ملکوں میں دیہات کی زندگی نہایت خوش گوار ہوتی ہے۔ یہاں وہی تمام سہولتیں موجود ہوتی ہیں جو شہروںمیں ہوتی ہیں۔ مزید یہ کہ وہاں قدرت کا ماحول ہوتا ہے جو شہروں میں نہیں پایا جاتا۔
اخبار میں گھوڑ دوڑ (Derby) کا ایک صفحہ تھا۔ ایک تصویر میں ایک شخص گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھا ہوا اس کو شاندار طور پر دوڑا رہا تھا ۔ دوسری طرف میری نظر جہاز کے مسافروں پر گئی جو اپنی اپنی سیٹ پر بیٹھے ہوئے تھے اور جہاز ان کو اڑاتا ہوا ان کو ان کی منزل کی طرف لے جارہا تھا۔ یہ دیکھ کر بے اختیار مجھے قرآن کی وہ آیت یاد آگئی جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہم نے آدم کی اولاد کو عزت دی اور ہم نے ان کوخشکی اور تری میں سوار کیا ۔(بنی اسرائیل: ۷۰)
یہ انتہائی عجیب بات ہے کہ گھوڑے کو انسان کے بیٹھنے کے لیے نہایت موزوں بنایا گیا۔ اور پھر اس کے اندر یہ صفت رکھ دی گئی کہ وہ انسان کو اپنی پیٹھ پر لے کر دوڑ ے ۔ اسی طرح مادہ کے اندر اللہ تعالیٰ نے یہ صفت رکھ دی کہ وہ ریل اور کار اور ہوائی جہاز کی صورت میں انسان کو تیزی کے ساتھ ادھر سے اُدھر لے جائے۔ انسان کی یہ تکریم و عزت بلاشبہ انسان کے اوپر اللہ کا عظیم احسان ہے۔ مگر شاید ہی آج کی دنیا میں ایسے کچھ آدمی ہوں جن کا یہ حال ہو کہ خدائی انعامات کے احساس سے ان کے جسم پر تھر تھری پیدا ہو جائے اور ان کا پور اوجود خدا کے آگے ڈھ پڑے۔
۴ مئی کی سہ پہر کو سوئس ائیر کی فلائٹ ۲۴۲ کے ذریعہ جنیو اسے دکار کے لیے روانگی ہوئی۔ میری سیٹ کھڑکی سے ملی ہوئی تھی ۔ باہر کی طرف دیکھا تو جہاز کا "پر " لمبا پھیلا ہوا تھا۔ پر کے اوپر انگریزی میں یہ الفاظ لکھے ہوئے تھے کہ اس کے آگے نہ چلیں :
Do not walk outside this area.
ہوائی جہاز جب ایر پورٹ پر کھڑا ہوتا ہے تو کارکن حضرات اس کو چیک کرتے ہیں ۔ اس وقت کوئی شخص چلتا ہوا پر کے اوپر پہنچ سکتا ہے۔ اس لیے اس کو پر کے اوپر چلنے سے منع کر دیا گیا۔ کیونکہ ہوائی جہاز کا پر اس کا کمزور حصہ ہے۔ وہ انسانی بوجھ کا تحمل نہیں کر سکتا۔
پر کے اوپر مذکورہ الفاظ پڑھتے ہوئے مجھے وہ حدیث یاد آگئی جس میں کہا گیا ہے کہ اللہ کی کچھ حدیں ہیں تم ان حدوں سے تجاوز نہ کرو ۔ "حد " کا معاملہ دنیا اور آخرت دونوں قسم کے معاملات میں انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔ دونوں عالَموں میں وہی لوگ کامیاب رہیں گے جو حد کو جانیں۔ مثلا کسی سے آپ کو اختلاف ہو تو علمی تردید کی حد تک آپ جاسکتے ہیں۔ اس کے آگے الزام تراشی اور کردارکشی اور سب و شتم کے لیے زبان و قلم کو استعمال کرنے کی کسی کو اجازت نہیں۔ اسی طرح عمل کے معاملہ میں جائز حدود میں سرگرم ہونے کی ہر ایک کو اجازت ہے ۔ مگر جائز حدود کے باہرکسی کو اجازت نہیں۔
د کار ائیر پورٹ سے شہر جاتے ہوئے ہماری گاڑی جہاں کہیں لال بتی پر کھڑی ہوتی، فوراً ہی "سیاہ فام " چھوٹے اور بڑے افراد گاڑی کے گرد جمع ہو جاتے ۔ یہ عین وہی منظر ہے جو دہلی کی سڑکوں پر نظر آتا ہے۔مگر دہلی میں جو لوگ اس طرح گاڑی کو گھیرتے ہیں وہ زیادہ تر بھیک مانگنے والے ہوتے ہیں۔ یہاں اس کے برعکس منظر تھا۔ یہ لوگ اپنے ہاتھوں میں مختلف قسم کے سامان لیے ہوئے ہوتے اور ان کو فروخت کرتے تھے۔ یورپ کے شہروں میں آپ جائیں تو وہاں آپ کو دونوں میں سے کوئی منظر بھی دکھائی نہیں دے گا۔
دکار میں میرا قیام ہوٹل نووٹل (Novotel) میں کمرہ نمبر ۲۳۸ میں تھا۔ پہلی نماز جو میں نے اس ہوٹل میں پڑھی وہ مغرب کی نماز تھی۔ کسی نئے مقام پر نماز پڑھنا ہمیشہ میرے لیے ایک عجیب تجربہ ہوتا ہے۔ ایسے مواقع پر اکثر یہ احساس ہونے لگتا ہے کہ شاید میں پہلا شخص ہوں جو اس مقام پر رب العالمین کے آگے سجدہ ریز ہو رہا ہے۔
یہ ہوٹل کسی بیرونی کمپنی نے بنایا ہے۔ وہ سمندر کے عین کنارہ ہے۔ پورا ماحول نہایت خوش منظر ہے ۔ ہوٹل کے طعام خانہ میں فرانسیسی گانے کا ریکارڈ دھیمی آواز سے بجتا رہتا تھا۔ یہ غالباً یورپی سیاحوں کی رعایت سے ہے جن میں اکثریت فرانسیسیوں کی ہوتی ہے۔
اس مجبور انہ سماعت کے دور ان سمجھ میں آیا کہ کیا وجہ ہے کہ اردو نہ جاننے والے لوگ بھی اردو غزل سننا پسند کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فرانسیسی یا انگریزی گانے میں سننے والوں کے لیے وہ کیفیت نہیں جو غزل کے نغمہ میں پائی جاتی ہے۔
دکار (Dakar) سینیگال کی راجدھانی ہے ۔ وہ افریقہ کی مغربی سرحد پر واقع ہے ۔ اپنی جغرافی اہمیت کی بنا پر دکار افریقہ کے اہم شہروں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے ۔ ۱۹۰۴ سے ۱۹۵۹ تک وہ مغربی افریقہ میں فرانس کا سیاسی مرکز تھا۔ شہر کی آبادی ایک ملین سے کچھ زیادہ ہے۔ سینیگال کی آبادی میں ۹۵ فی صد سے زیادہ مسلمان ہیں۔
دکار میں ڈچ ۱۶۱۷ میں آگئے تھے ۔ فرانسیسیوں نے ۱۶۷۷ میں اس پر قبضہ کیا۔ ایک زمانہ میں د کار غلاموں کی تجارت کا مرکز سمجھا جاتا تھا۔ فرانسیسیوں نے ۱۸۶۶ میں یہاں اسٹیم شپ کا رخانہ قائم کیا۔ ۱۸۸۵ ء میں یہاں پہلی ریلوے لائن بچھائی گئی۔ یہ ریلوے لائن سینٹ لوئی اور دکار کے درمیان تھی ۔ ۱۹۱۴ میں دکار ایک ترقی یافتہ شہر بن چکا تھا۔
دوسری عالمی جنگ کے زمانہ میں اور اس کے بعد یہاں صنعت کو کافی ترقی ہوئی ۔ فرانسیسی اقتدار کے تحت پورا مغربی افریقہ اس کو وسیع مارکٹ کے طور پر حاصل تھا۔ ۱۹۵۹ اور ۱۹۶۱ کے در میان مغربی افریقہ کی فرانسیسی حکومت ٹوٹ گئی ۔ اس کے بعد یہ علاقہ آٹھ آزاد ریاستوں میں بٹ گیا۔ اب اس کا مارکٹ کا میدان بہت کم ہو گیا ہے۔ (5/437)
دکار سے فرانسیسی قبضہ ختم ہو چکا ہے۔ مگر فرانسیسی تہذیب کے آثار اب بھی نمایاں طور پر باقی ہیں۔ یہاں کی سرکاری زبان فرانسیسی ہے۔ تاہم عربی جاننے والے لوگ بھی کافی تعداد میں موجود ہیں۔
سینیگال کا رقبہ ۷۸۶۸۴ مربع میل ہے۔ اور آبادی تقریباً ۳۷۵۵۰۰۰ لوگوں پرمشتمل ہے۔ وہ ۱۹۶۰ میں آزاد ہوا۔ اس سے پہلے وہ فرانس کے قبضہ میں تھا۔ اس کے اثر سے اب بھی سینیگال کی سرکاری زبان فرانسیسی ہے۔
سینیگال در اصل یہاں کے سرحدی دریا کا نام ہے جو ۱۰۱۵ میل لمبا ہے ۔ اہل یورپ تک اس کا تعارف سونے کا دریا (River of Gold) کی حیثیت سے پہنچا ۔ ۱۶ ویں صدی سے لیکر ۲۰ ویں صدی تک یہی دریا فرانس کے نو آبادیاتی اثرات کو سینیگال تک پہنچانے کا ذریعہ بنا رہا۔
سینیگال مغربی افریقہ کا ساحلی ملک ہے۔ عربوں نے اس کو ابتدائی دور میں کامیابی کے ساتھ فتح کیا اور اس علاقہ کی تجارت پر قابض ہو گئے۔ ایک مؤرخ نے لکھا ہے کہ نویں صدی اور چودھویں صدی عیسوی کے درمیان عرب دنیا میں جغرافیہ دانی اور تاریخ دانی کو کافی فروغ ہوا۔ اس سے عربوں کو اس علاقہ کے بارے میں مفصل معلومات حاصل ہوئیں جس کو وہ بلاد السودان کہتے تھے :
The lively school of geographers and historians that flourished in the Arab world from about the 9th to the 14th century thus secured access to growing amounts of information about what they called the biladas-sudan, the territory of the Negro peoples south of the Sahara. (19/761)
اسلام جب اپنی صحیح صورت میں زندہ ہوتا ہے تو وہ صرف معروف مذہبی پہلؤوں کو زندہ نہیں کرتا بلکہ اسی کے ساتھ وہ انسانیت کے تمام ضروری پہلوؤں کو بھی زندہ کر دیتا ہے ۔
ویسٹ انڈیز اور امریکہ کی دریافت کے بعد وہاں زراعت کا کام بڑھا۔ وہاں زمینیں تھیں مگر انسان نہ تھے۔ اس لیے زرعی مزدور کے طور پر غلاموں کی تجارت میں زبر دست اضافہ ہوا ۔ ۱۷۸۰ اور اس کے بعد کے سالوں میں تقریباً ۷۰۰۰۰ غلام ہر سال افریقہ سے لے جا کر ویسٹ انڈیز اور امریکہ کے ساحل پر اتارے جا رہے تھے (19/768)
غلاموں کی اس تجارت کو جس چیز نے ختم کیا وہ مشین کی ایجاد ہے۔ بعد کو جب زرعی مشینیں تیار ہو گئیں تو انسانی مزدوروں کی ضرورت اپنے آپ ختم ہوگئی۔ بعض اوقات کسی برائی کو ختم کرنے کے لیے صرف اخلاقی تبلیغ کافی نہیں ہوتی۔ بلکہ یہ ضرورت ہوتی ہے کہ مروجہ برائی کی اقتصادی یا سیاسی اہمیت کو ختم کر دیا جائے۔ اس کے بعد وہ برائی اسی طرح ختم ہو جائے گی جس طرح کسی زندہ چیز سےپانی نکال لیا جائے اور وہ اپنے آپ ہلاک ہو جائے۔
سینیگال کی ایک عجیب جغرافی صفت ہے جو دنیا کے کسی دوسرے ملک میں نہیں پائی جاتی ۔وہ یہ کہ ایک اور ملک اٹلانٹک کے ساحل سے ایک لمبے انکلیو (enclave) کی صورت میں سینیگال کے اندر گھسا ہوا ہے۔ یہ دوسرا ملک گامبیا ہے جو انگلی کی مانند تقریباً ۲۰ میل چوڑا اور ۲۰۰ میل لمبا اٹلانٹک کے ساحل سے سینیگال کے اندر تک چلا گیا ہے :
The Gambia constitutes a finger of territory 20 miles wide and 200 miles long that thrusts from the cost eastward deep into Senegal (16/531).
سینیگال ایک خوش حال ملک ہے اور گامبیا ایک غریب ملک ۔ سینیگال میں غلہ کے علاوہ فاسفیٹ ، لوہا ، پٹرول وغیرہ پیدا ہوتا ہے۔ جب کہ گامبیا کی حالت تقریباً وہی ہے جو بر صغیر میں بنگلہ دیش کی۔
تصویر خریطۂ سینیگال
یہ نو آبادیاتی طاقتوں کی دین ہے ۔ پچھلی صدی میں ایسا ہو ا کہ فرانسیسی سینیگال میں دا خل ہوئےاور انگریز گا مبیا میں۔ دونوں میں ایک دوسرے پر غلبہ پانے کے لیے کئی لڑائیاں ہوئیں ۔ آخریہ سمجھوتہ ہوا کہ انگریز گامبیا کے کچھ علاقے فرانسیسیوں کو دیدیں، اور اس کے بدلے فرانسیسی صومالیہ کے کچھ علاقے انگریزوں کے حوالے کر دیں۔ اس طرح گامبیا کا موجودہ عجیب و غریب ملک بنا۔
افریقہ کے لیے روانگی سے پہلے میں نے ہندستان کے ایک اسلامی پرچہ(۱۰ اپریل ۱۹۹۰ )میں ایک مضمون پڑھا۔ اس کا عنوان تھا "افریقہ میں اسلام "اس مضمون میں بتایا گیا تھا کہ افریقہ کے لوگوں نے نہایت آسانی کے ساتھ اسلام قبول کرلیا اور وہاں مسلمانوں نے بڑی بڑی سلطنتیں قائم کیں ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ :
" عیسائیت کے مقابلہ میں اسلام کی تعلیمات بہت سادہ تھیں۔ اسلام نے مقامی افراد کی تہذیبی اقدار کو کم سے کم چھیڑا ۔ اسلام نے وہ تمام باتیں قائم رہنے دیں جو اسلامی تعلیمات کے خلاف نہیں تھیں۔ اور افریقیوں کو ان کے اپنے طور طریقوں کے ساتھ رہنے دیا"۔
یہ بات بذات طور صحیح ہے۔ اور میں نے اپنے سفرِ افریقہ میں اس کی مختلف مثالیں دیکھیں۔ مگر ہندستانی مسلمانوں کا یہ مزاج بہت عجیب ہے۔ افریقہ اور دوسرے ملکوں کے بارے میں اسلام کا یہ تقاضا ان کی سمجھ میں آجاتا ہے کہ زندگی کے طور طریقے جو براہ راست اسلام سے نہیں ٹکراتے ، ان میں غیر ضروری طور پر اپنی شناخت قائم کرنے کی کوشش کرنا دانش مندی نہیں ہے۔ مگر ہندستان میں آتے ہی ان کا مزاج بالکل بدل جاتا ہے۔ یہاں ان کو اسلام کا مسئلہ نمبر ایک یہ نظر آنے لگتا ہے کہ مسلمان ہر معاملہ میں اپنی قومی شناخت علاحدہ قائم کریں ۔ خواہ اس کا نتیجہ یہی کیوں نہ ہو کہ ہندستان میں اسلام کی اشاعت کا کام بند ہو کر رہ جائے۔
افریقہ کی بیشتر آبادی مسلمان ہے۔ اس اعتبار سے افریقہ ایک مسلم بر اعظم ہے۔ اگر چہ ایشیاوہ بر اعظم ہے جہاں سب سے زیادہ تعداد میں مسلمان آباد ہیں۔ مگر ایشیا میں مجموعی آبادی کے اعتبارسے دیکھا جائے تو یہاں نسبتاً زیادہ تعداد غیر مسلم اقوام کی ہے ۔ جب کہ افریقہ میں اسلام سب سےبڑے مذہب کی حیثیت رکھتا ہے۔ تاہم چند ملکوں کو چھوڑ کر بقیہ ممالک میں مسلمان کافی پس ماندہ ہیں۔ حتی کہ بعض ملکوں میں مسلم اکثریت کے باوجود عیسائی فرقہ حکومت کر رہا ہے۔ اس کی وجہ "عیسائی سازش "نہیں بلکہ مسلمانوں کی پسماندگی ہے۔ مسلمان ان ملکوں میں تعلیمی اعتبار سے اتنے پیچھے ہیں کہ مقابلۃ ً وہ وہاں حکمراں بننے کی پوزیشن میں نہیں۔
حکومتوں کی دعوت پر یا انٹرنیشنل کانفرنسوں میں شرکت کے لیے جو سفر ہوتے ہیں، ان میں آدمی کو مصنوعی ماحول میں رہنا ہوتا ہے۔ مثلاً کاروں کے قافلہ میں خصوصی راستوں پر سفر کر ایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس قسم کا سفر کرنے والے کسی ملک کی حقیقی تصویر کو بہت کم دیکھ پاتے ہیں۔
میں اکثران اہتمامات کو توڑ کر ملکی حالات کو جاننے کی کوشش کرتا ہوں۔ مثلاً ایک بار میں نے اپنی کار چھوڑ دی اور ایک عام بس پر بیٹھ گیا جو مطلوبہ منزل کی طرف جارہی تھی ۔ اس سفر کے دوران کئی نئی باتوں کا تجربہ ہوا۔ مثلاً میں نے دیکھا کہ عام افریقی بہت زیادہ بولتے ہیں ، اور زیادہ بولنا ہمیشہ کم سوچنے کی قیمت پر ہوتا ہے۔ ایک جگہ میں نے دیکھا کہ کئی خنزیر گھوم رہے ہیں۔ اس سے اندازہ ہوا کہ یہاں مذہبی رواداری بہت زیادہ پائی جاتی ہے۔ اسی طرح اندازہ ہوا کہ اندرونی سٹرکیں اتنی اچھی نہیں ہیں جتنی بیرونی سڑکیں اچھی ہیں۔ عام افر یقیوں کے مکان بہت معمولی نظر آئے۔ وغیرہ اسلام افریقہ میں داخل ہوا تو پہلے وہ اس کے شمالی حصہ میں پہنچا۔ کیوں کہ یہ حصہ عرب دنیا سے ملا ہو اتھا۔ مغربی افریقہ میں اسلام کسی قدر بعد میں پہنچا۔ کہا جاتا ہے کہ مغربی افریقہ کے مسلمانوں ہی نے سب سے پہلے امریکہ کو دریافت کیا ۔ وہ برازیل تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ برازیل (جنوبی امریکہ) کا نام ایک افریقی قبیلہ کے نام پر ہے جس کا واحد برزلہ اور جمع بر ازل ہے ۔ وغیرہ ایک مورخ نے مغربی غلبہ کے زمانے میں لکھا تھا کہ افریقہ میں کئی بڑے بڑے علاقے ہیں جہاں کبھی اسلامی حکومت قائم نہیں ہوئی۔ اس کے باوجود اسلام وہاں پہنچا ۔ حتی کہ اب بھی وہاں اسلام پھیل رہا ہے جب کہ وہاں کے یورپی حکمراں اس کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے میں مشغول ہیں :
There are vast regions in the continent that never knew Islamic domination, and yet Islam is spreading there even in these days inspite of the vigilance kept and obstacles set up by their Occidental masters (p. 213).
حقیقت یہ ہے کہ اسلام فطرت کا دین ہے۔ وہ جہاں بھی پھیلتا ہے ، فطرت کے زور پر پھیلتا ہے نہ کہ حکومت یا مادی طاقت کے زور پر۔
ہوٹل کے کمرہ کی میز پر ہوٹل کی طرف سے مختلف قسم کے اشتہاری کارڈ رکھے ہوئے تھے۔ ایک کارڈ پر لکھا ہوا تھا کہ نئے دن کے آغاز کے لیے اس سے بہتر طریقہ کیا ہے کہ آپ ہمارے بوفے ناشتہ سے اس کا آغاز کریں :
What better way to start a new day than our breakfast buffet?
اس کو پڑھتے ہوئے مجھے وہ حدیث یاد آگئی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جس شخص نے صبح کی نماز پڑھ لی وہ اللہ کی ذمہ داری میں آگیا ۔مَنْ صَلَّى الصُّبْحَ فَهُوَ فِي ذِمَّةِ اللهِ (صحيح مسلم،٦۵۷) گویا ہوٹل کے مالک کی سوچ یہ ہے کہ آدمی اس کے تجارتی ناشتہ سے اپنی صبح کا آغاز کرے۔ اس کے برعکس پیغمبر کی سوچ یہ ہے کہ آدمی یا دخداوندی سے اپنی صبح شروع کرے۔
ہوٹل کا مالک صلاۃ صبح سے اختلاف نہیں کرے گا۔ اسی طرح پیغمبر صبح کے ناشتہ سے کسی کو نہیں روکے گا۔ مگر ہوٹل والے کے ذہنی سانچہ میں یا دخداوند ی ثانوی چیز ہے اور پیغمبر کی فکر میں ناشتہ ثانوی چیز۔ اسی تقدیم و تاخیر کے نتیجہ میں ایک رویہ دنیا پرستی بن جاتا ہے اور دوسرا رویہ آخرت پسندی۔
۷ مئی کو صبح ۱۰ بجے کا وقت ہے۔ میں ہوٹل کے باہر کے حصہ میں ایک کرسی پر بیٹھا ہوا ہوں۔ ایک طرف ہوٹل کی بلند و بالا عمارت ہے۔ دوسری طرف سمندر حد ِنظر تک پھیلا ہوا موجیں ماررہا ہے۔ درمیان میں سبزہ اور پھول اور درخت کے مناظر ہیں۔ موسم نہایت خوش گوار ہے۔ ٹھنڈی ہواؤں کے جھونکے لمس ِربانی کی مانند ہر چیز کو چھوتے ہیں اور پھر گذ رجاتے ہیں ۔ چڑیوں کی آوازیں قدرتی نغمہ بکھیرر ہی ہیں۔
"دنیا جب اتنی حسین ہے تو آخرت کتنی زیادہ حسین ہوگی" میری زبان سے نکلا ۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ دنیا آخرت کی دنیا کا ایک ابتدائی تعارف ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں اس کے ساتھ "حزن " رکھ دیا تاکہ کوئی شخص یہاں اپنا دل نہ لگا سکے۔ آدمی سے یہ مطلوب ہے کہ وہ موجودہ دنیا کے آئینہ میں آخرت کو دیکھے ۔ لیکن اگر آدمی موجودہ دنیا ہی کو اصل سمجھ کر اس میں کھو جائے تو یہ ایسا ہی ہوگا جیسے آپ آئینہ میں ایک خوبصورت پھول دیکھیں اور اس پھول کو خود آئینہ کے اندر حاصل کرنے کی کوشش کرنے لگیں۔ (باقی )