عبرت ناک
محمود عالم صاحب (سرینگر) نے اپنا ایک واقعہ شائع کیا ہے ۔ اس کا خلاصہ انھیں کے لفظوں میں اخبار دعوت(۱۰ اپریل ۱۹۹۰) سے یہاں نقل کیا جاتا ہے :
"ہم چند احباب ایک ہوٹل میں بیٹھے محو گفتگو تھے ۔ یہ ہوٹل ادیبوں ، شاعروں اور صحافیوں کے لیے ایک کلب کا کام کرتا تھا۔ روزانہ شام کو اس کے ہال میں جمع ہو کر لوگ ایک کپ گرم چائے کے ساتھ عالمی سیاست سے لے کر ملکی مسائل پر گرما گرم بحث کر سکتے تھے۔ ہم میں سے ہر ایک وہاں اپنی خطابت کا جو ہر دکھاتا تھا۔ جس طرح مداری کی ڈگڈگی پر مجمع لگ جاتا ہے ، ہماری شیریں بیانی سے لوگوں کی بھیڑ جمع ہونے لگی۔ آج ہماری گفتگو کا موضوع عرب اور اسرائیل کے درمیان ہونے والی جنگ تھی۔ ہم جوش و جذبہ سے اپنی معلومات پیش کر رہے تھے ۔ ہمارے ایک فاضل دوست نے اپنے اندیشوں کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر مسلمانوں کی حالت یہی رہی تو بیت المقدس کی بازیابی کا معاملہ تو دور رہا، عجب نہیں کہ خانہ کعبہ پر بھی غیروں کا قبضہ ہو جائے ۔ ابھی ہمارے دوست نے جملہ پورا نہیں کیا تھا کہ ایک دیہاتی مسلمان بگڑ گیا ۔ "قرآن پڑھا ہے آپ نے ، معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے قرآن کو نہیں پڑھا"۔ اس نے تیز و تند لہجہ میں کہا ۔ ہم زیر لب مسکرانے لگے۔ حاضرین کو دیہاتی کی یہ مداخلت مضحکہ خیز معلوم ہوئی ۔ لیکن دیہاتی کے اگلے جملہ نے ہمارے ہوش اڑا دیے" آپ نے سورہ فیل پڑھی ہے ۔أَلَمۡ تَرَ كَيۡفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِأَصۡحَٰبِ ٱلۡفِيلِ کو جانتے ہیں آپ "۔ ہمارے سر جھک گے اور ہماری زبانیں گونگی ہوگئیں۔ کتنی سیدھی اور سچی بات تھی۔ ہم خاموشی سے اٹھ گئے ۔ اور ہمیں احساس ہوا کہ ہم نے اب تک کچھ نہیں پڑھا۔ پڑھ لکھ کر بھی ہم جاہل رہ گئے "۔
موجودہ زمانہ کی مسلم تحریکوں کا یہ نہایت صحیح نقشہ ہے ۔ جن چیزوں کی ذمہ داری خدانے لے رکھی ہے، ان کے نام پر وہ ہنگامہ کرنے میں مصروف ہیں، اور جس چیز کی ذمہ داری خود ان پر ڈالی گئی ہے ، اس کے لیے یہ تحریکیں کچھ نہیں کرتیں۔
"اسلام اور شعائر اسلام پر حملہ "جیسے موضوعات پر ہر آدمی جوش دکھا رہا ہے ، حالاں کہ ان کے تحفظ کا ضامن خود خدا ہے۔ اور اسلام کی دعوت کے میدان میں کوئی سرگرم نہیں ہوتا ، جب کہ مسلمانوں کا اصل کام یہی ہے اور اسی کے لیے وہ اللہ تعالیٰ کے یہاں جواب دہ ہوں گے۔