انتقام نہیں

کسی کا قول ہے  ––––– "انتقام لینے سے پہلے سوچ لو کہ انتقام کا بھی انتقام لیا جائے گا" ۔ یہ زندگی کی نہایت گہری حقیقت ہے۔ اور اس حقیقت کو سمجھنے کے بعد ہی کوئی شخص موجودہ دنیا میں اپنے لیے   کامیاب زندگی بنا سکتا ہے۔

ایک شخص سے آپ کو تکلیف پہنچی ۔ آپ کے دل میں اس کے خلاف انتقام لینے کا جذبہ بھڑک اٹھا ۔ آپ چاہنے لگے کہ اس سے بدلہ لے کر اپنے سینہ کی آگ ٹھنڈی کریں۔ مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک شخص کے تکلیف دینے سے آپ کے اندر انتقام کا جذبہ بھڑک اٹھا ، پھرو ہی تکلیف جب آپ اس شخص کو دیں گے تو کیا اس کے اندر دوبارہ انتقام کا جذبہ نہیں بھڑ کے گا۔ یقیناً ایسا ہی ہوگا ۔ اور پھر برائی کا ایک چکر چل پڑے گا۔ آپ کو ایک تکلیف کے بعد دوسری تکلیف سہنی پڑے گی۔ اس لیے   عقل مندی یہ ہے کہ نظر انداز کرنے کا طریقہ اختیار کر کے بات کو پہلے ہی مرحلہ میں ختم کر دیا جائے۔

میری ملاقات ایک بار یوپی کے ایک شخص سے ہوئی ۔ اس نے ایک نیتا کی شرکت میں ایک بس خریدی، اس آدمی نے پیسہ لگایا۔ اور نیتا نے لائسنس حاصل کیا۔ لائسنس قانونی طور پر نیتا کے نام تھا۔مگر نفع میں دونوں برابر کے شریک تھے۔

کچھ دنوں کے بعد نیتا کی نیت بگڑی۔ اس نے سوچا کہ قانونی طور پر گاڑی میری ہے کیوں کہ لائسنس میرے نام ہے ۔ پھر میں اس کا نفع دوسرے کو کیوں دوں ۔ اس نے یک طرفہ طور پر گاڑی پر قبضہ کرلیا۔ اب آدمی بہت غصہ ہوا۔ اس کے اندر انتقام کی آگ بھڑک اٹھی۔ اس نے ارادہ کیا کہ نیتا کو قتل کر ڈالے۔ چنانچہ وہ اس کے قتل کا منصوبہ بنانے لگا۔ اس دوران اس کی ملاقات ایک بوڑھے تجربہ کار آدمی سے ہوئی۔ حالات سننے کے بعد بوڑھے آدمی نے کہا کہ اگر تم اپنے منصوبہ کے مطابق نیتا کو مارڈالو تو اس کے بعد اس کے بچے کیا تم کو زندہ چھوڑ دیں گے۔

یہ بات آدمی کی سمجھ میں آگئی۔ اس نے نیتا کو مارنے کا ارادہ چھوڑ دیا۔ اس کے بجائے اس نے یہ کیا کہ اس کے پاس جو رقم اب بھی باقی تھی اس سے چھوٹے پیمانہ پر بزنس شروع کر دیا۔ چند سال بعد جب اس آدمی سے میری ملاقات ہوئی تو اس نے کہا کہ میں بہت خوش ہوں۔ بس کی شرکت سے میں جتناکماتا ، اب میں اس سے زیادہ کما رہا ہوں ، اور میرا کاروبار برابر ترقی کر رہا ہے۔

جب بھی آپ کے سینہ میں کسی کے خلاف انتقام کی آگ بھڑکے تو اپنے ذہن کو ٹھنڈا کر کے سب سے پہلے یہ سوچئے کہ میرا فائدہ انتقام لینے میں ہے یا انتقام نہ لینے میں۔

ظاہر ہے کہ دوسرے کو نقصان پہنچا نا بذات خود کوئی مقصد نہیں۔ اصل مقصد جو ہر آدمی اپنےسامنے رکھتا ہے یا اس کو رکھنا چاہیے ، وہ اپنے آپ کو فائدہ پہنچانا ہے۔ اگر دوسرے کو نقصان پہنچانےکا نتیجہ یہ ہو کہ آخر میں آپ کو خود اس سے بڑا نقصان اٹھا نا پڑے، تو ایسی حالت میں عقلمندی کیا ہے۔اگر آپ ٹھنڈے دماغ سے سو چیں تو آپ یہ ماننے پر مجبور ہوں گے کہ ایسی کارروائی جو آخر میں خوداپنے خلاف پڑنے والی ہو ، وہ کسی بھی حال میں صحیح نہیں کہی جاسکتی۔ ایسی ہر کارروائی صرف بے وقوفی ہے نہ کہ وہ کام جو ایک عقلمند آدمی کو کر نا چاہیے۔

 ہمارے سماج میں جو جھگڑے ہیں اور عدالتوں میں جو مقدمات کی بھر مار ہے وہ سب اسی انتقامی جذ بہ کا نتیجہ ہے۔ لوگ شکایت یا تکلیف کی کوئی بات پیش آنے کے بعد اس کو بھلا نہیں پاتے ۔ وہ فور اً ردعمل کا شکار ہو جاتے ہیں اور جوابی کارروائی کرنا شروع کر دیتے ہیں۔

اس طرح جوجھگڑے  اور مقدمے بڑھتے ہیں اس کا نقصان صرف فریق ثانی کو نہیں پہنچتا بلکہ اس شخص کو بھی پہنچتا ہے جس نے جوابی کارروائی کر کے دوسرے کے خلاف بدلہ لینا چاہا تھا۔

ہر آدمی سکون کی زندگی چاہتا ہے ۔ ہر آدمی یہ چاہتا ہے کہ اس کا سماج امن و امان کا سماج ہو ۔ یہ مقصد اسی وقت حاصل ہو سکتا ہے جب کہ لوگوں کے اندر بدلہ نہ لینے کا مزاج پیدا ہو جائے ۔ یہی ہمارے مسئلہ کا واحد حل ہے۔ اس سے ہر آدمی کو ذاتی سکون حاصل ہو سکتا ہے۔ اور پوراسماج بھی اسی کے ذریعہ امن و امان کا گہوارہ بن سکتا ہے۔

جب بھی آپ کسی سے انتقام نہیں تو انتقام لینے میں آپ اپنی طاقت خرچ کرتے ہیں۔ وقت اور پیسہ کی کافی مقدار خرچ کیے بغیر کوئی شخص دوسرے سے انتقام نہیں لے سکتا ۔ اگر بالفرض آدمی انتقام لینے میں کامیاب ہو جائے تب بھی انتقام لے کر اس کو جو چیز حاصل ہوتی ہے وہ صرف ایک نفسیاتی تسکین ہے۔ اس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔

لیکن یہی وقت اور یہی رقم اگر کسی مثبت چیز کو حاصل کرنے میں لگا دیا جائے تو وہ نفع کے ساتھ آدمی کی طرف لوٹتا ہے ، جیسا کہ مذکورہ شخص کے ساتھ پیش آیا ۔ انتقام لینے میں طاقت کو خرچ کر ناطاقت کو کھونا ہے ، اور ایک مثبت کام میں طاقت لگانا ، طاقت کو مزید اضافے کے ساتھ دوبارہ پالینا ہے۔ ایسی حالت میں یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ عقل مند آدمی کو دونوں میں کون سا طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔

حقیقت پسندی

کسی کا قول ہے کہ ––––––  "اپنے حق سے زیادہ چاہنا اپنے آپ کو اپنے واقعی حق سے بھی محروم کر لینا ہے"۔ کوئی آدمی جب اتنا ہی چاہے جس کا وہ واقعی طور پر حق دار ہے تو ہر چیز اس کی مانگ کی تصدیق کر رہی ہوتی ہے۔ اور جب وہ اپنے واقعی حق سے زیادہ چاہنے لگے تو ہر چیز اس کے خلاف ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پہلا آدمی ہمیشہ کامیاب ہوتا ہے ۔ اور دوسرا آدمی ہمیشہ ناکام۔

ایک بڑا ادارہ تھا۔ اس میں ایک مینجر کی ضرورت تھی۔ ایک آدمی کے اندر انتظامی صلاحیت تھی۔ چنانچہ اس آدمی کو وہاں منیجر کی حیثیت سے رکھ لیا گیا ۔ ادارہ کے ڈائر کٹر نے منیجر کے ساتھ کافی رعایت کا معاملہ کیا ۔ معقول تنخواہ ، رہنے کے لیے   مکان، آنے جانے کے لیے   ایک جیپ ، اور دوسری کئی چیزیں انھیں حاصل ہوگئیں۔

مگر  کچھ دنوں کے بعد اس آدمی کے ذہن میں زیادہ کی حرص پیدا ہوگئی ۔ " مینجر" کی حیثیت اس کو کم لگی ، اس نے چاہا کہ ڈائرکٹر کی سیٹ پر قبضہ کر لے۔ اب منیجر نے چپکے چپکے ڈائرکٹر کے خلاف منصوبہ بنایا۔ مگر منصوبہ کی کامیابی سے پہلے ڈائرکٹر کو اس کی خبر ہوگئی ۔ اس نے فوری کارروائی کر کے اس آدمی کو منیجر کی پوسٹ سے ہٹا دیا ۔ مکان اور جیپ وغیرہ بھی چھین لی گئی۔ ان کو ذلت کے ساتھ ادارہ سے باہر نکال دیا گیا۔

 یہ وہی چیز ہے جس کو اخلاقی زبان میں قناعت اور حرص کہا جاتا ہے۔ اپنی واقعی حیثیت پر راضی رہنے کا نام قناعت ہے۔ اور اپنی حیثیت سے زیادہ چاہنے کا نام حرص ۔ مذکورہ آدمی اگر قناعت کا طریقہ اختیار کر تا تو وہ نہ صرف کامیاب رہتا بلکہ مزید ترقی کرتا۔ مگر حرص کا طریقہ اختیا ر کر کے اس نے اپنے پائے ہوئے کو بھی کھو دیا، اور آئندہ جو کچھ وہ پاسکتا تھا اس کو بھی۔

جب آپ اپنے حق کے بقدر چاہتے ہیں تو آپ وہ چیز چاہ رہے ہوتے ہیں جو واقعۃ ً آپ کی ہے ، جو از روئے انصاف آپ ہی کو ملنا چاہیے  ۔ مگر جب آپ اپنے واقعی حق سے زیادہ چاہیں تو گویا آپ ایسی چیزچاہ رہے ہیں جو از روئے انصاف آپ کی چیز نہیں ہے، بلکہ دوسرے کی چیز ہے۔ پھر دوسرا شخص کیوں آپ کو اپنی چیز دینے پر راضی ہو جائے گا۔

 جب بھی آدمی اپنے حق سے زیادہ چاہے تو فوراً  اس کا ٹکراؤ دوسروں سے شروع ہو جاتا ہے۔ دوسرے لوگ اس کی راہ میں رکاوٹ بن کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اب کش مکش اور ضد اور مزاحمت وجود میں آتی ہے ۔ دونوں ایک دوسرے کے حریف بن جاتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آدمی اصل سے زیادہ کی طلب میں اصل کو بھی کھو بیٹھتا ہے۔

اپنے حق سے زیادہ کی طلب کرتے ہی یہ ہوتا ہے کہ آدمی تضاد میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ وہ اپنےحصہ کی چیز لینے کے لیے   ایک دلیل دیتا ہے، اور دوسرے کے حصہ کی چیز پر قبضہ کرنے کے لیے   دوسری دلیل استعمال کرتا ہے۔ اس طرح وہ اپنے مقدمہ کو خود ہی کمزور کر لیتا ہے۔ وہ اپنی نفی آپ کر دیتا ہے۔ دو قسم کی دلیلوں سے وہ ثابت کرتا ہے کہ پہلی چیز اگر اس کی ہے تو دوسری چیز اس کی نہیں ہے، اور اگر دوسری چیز اس کی ہے تو پہلی چیز اس کی نہیں ہوسکتی۔

 ایسے آدمی کے اوپر وہ مثال صادق آتی ہے کہ جو شخص دو خرگوشوں کے پیچھے دوڑے وہ ایک کو بھی پکڑ نہیں سکتا۔ اسی طرح جو شخص اپنے اصل حق کے ساتھ مزید کا طالب بنے ، وہ اصل کو بھی کھو دے گااور اسی کے ساتھ مزید کو بھی۔

ہر آدمی جو دنیا میں پیدا ہوتا ہے وہ خاص صلاحیت لے کر پیدا ہوتا ہے ۔ ہر آدمی کو اس کے پیدا کرنے والے نے اسی لیے     پیدا کیا ہے کہ وہ ایک کامیاب زندگی حاصل کرے ۔ مگر ہر آدمی کی ایک حد ہے۔ اور ہر آدمی کو چاہیے   کہ وہ اپنی حد کو جانے ۔ جب آدمی اپنی حد کے اندر رہے تو دنیا کی تمام طاقتیں اس کو کامیاب بنانے کے لیے   اس کی پشت پر آجاتی ہیں اور جب وہ اپنی حد سے آگے بڑھنے لگے تو ہر چیز اس کا ساتھ چھوڑ دیتی ہے۔ ایسے آدمی کے لیے   ناکامی کے سوا کوئی اور انجام اس دنیا میں مقدر نہیں۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom