خبر نامہ اسلامی مرکز ۶۵
۱۔ کنیز مراد صاحبہ ایک ۵۰ سالہ خاتون ہیں۔ وہ ترکی کے سلطان مراد کے خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ اس وقت وہ فرانس کے شہر پیرس میں رہتی ہیں۔ وہ فرانسیسی زبان کی مصنفہ ہیں۔ ۱۷ مئی کو وہ اسلامی مرکزمیں آئیں۔ صدر اسلامی مرکز سے انھوں نے اسلام کے بارے میں مختلف سوالات پر مفصل تبادلہ ٔخیال کیا۔ آخر میں انھیں انگریزی الرسالہ کے کچھ شمارے اور پیغمبر انقلاب (انگریزی) مطالعہ کے لیے دی گئی۔
۲۔گجرات کی ممتاز عربی درس گاہ دار العلوم بھر وچ سے ایک گجراتی ماہنامہ نکلتا ہے جس کا نام دارالعلوم ہے ۔ یہ ایک کثیر الاشاعت اور معیاری ماہنامہ ہے۔ اس نے الرسالہ کا مضمون (صاحب قرآن ) گجراتی زبان میں شائع کیا ہے۔ اسی طرح اور بھی گجراتی رسائل الرسالہ کے مضامین کبھی حوالہ کے ساتھ اور کبھی بغیر حوالہ شائع کرتے رہتے ہیں۔
۳۔مانوایکتا ابھمان (نئی دہلی) کی طرف سے لال قلعہ کے میدان میں "عید ملن" کی تقریب ہوئی۔ اس میں لوک سبھا کے اسپیکر مسٹر ربی رے، جسٹس تارکنڈے اور دوسری بہت سی ممتاز شخصیتیں شریک ہوئیں ۔ منتظمین کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس موقع پرشرکت کی اور وہاں اپنے خیالات پیش کئے۔
۴۔جنیوا( سوئٹزرلینڈ )میں ۳ مئی ۱۹۹۰ کو ایک کانفرنس تھی۔ صدر اسلامی مرکز کے نام اس کا دعوت نامہ آیا تھا اور ٹکٹ بھی آچکا تھا۔ مگر بعض اسباب سے وہ اس میں شرکت نہ کر سکے۔ مغربی ملکوں میں بڑے پیمانہ پراسلامی دعوت کے امکانات کھل گئے ہیں۔ جن کو استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔
۵۔کچھ نئی کتابیں تیار ہو چکی ہیں۔ ان میں سے ایک"راہ عمل" ہے۔ اس کتاب میں تفصیل کے ساتھ بتایا گیا ہے کہ عصر حاضر میں دعوت کا اسلوب کیا ہونا چاہیے ۔
۶۔ایک صاحب لکھتے ہیں : اس وقت رات کے ایک بج کر ۳۰ منٹ ہو رہے ہیں۔ ہاتھوں میں مارچ ۱۹۹۰ کا اردو الرسالہ لیے پڑھ رہا تھا کہ آپ کے سفرنامہ کی روداد میں جب پاکستان کے ان بزرگ کا یہ جملہ "میاں بیٹھنے کا وقت کہاں ، اب تو لیٹنے کا وقت ہے " پڑھا ، اور اس کو سن کر آپ نے جو اپنی کیفیت بیان کی تو یقین جانئے اسی وقت میں بھی تڑپ اٹھا۔ دوسرے ہی لمحہ میں نے یہ انتر دیشی نکال کر ایجنسی کے لیے آپ کو لکھنے کا تہیہ کر لیا۔ بے شک الرسالہ کا ایک ایک حرف انقلاب پیدا کر دیتا ہے دل و دماغ میں۔ میرے نام الرسالہ کے دس پرچوں کی ایجنسی جاری کر دیں۔ (سید مقصود انعام دارانجنیر ، اورنگ آباد )
۷۔ایک صاحب لکھتے ہیں : الحمد للہ اس زمانےمیں آپ کی قیادت میں الرسالہ کے ذریعہ اللہ لاکھوں انسانوں کو ہدایت سے نواز رہا ہے۔ میرے لیے تو الرسالہ اندھیرے میں جگنو کی طرح ہے۔ میں تو گویا اس کا عاشق ہوں ۔ ایک مہینہ کا پرچہ لینے کے بعد دوسراپرچہ کب ملے گا ، اسی انتظار میں رہتا ہوں (شیخ بابو میاں ، اورنگ آباد )
۸۔الرسالہ کے عربی اڈیشن کے بدل کے طور پر کچھ عرب نوجوان ایسا کر رہے ہیں کہ وہ الرسالہ کے بعض مضامین کا عربی میں ترجمہ کرواتے ہیں ۔ اور ان کی فوٹو کاپی کر کے ان کو عربوں کے درمیان پھیلاتے ہیں۔
۹۔خدا کا فضل ہے کہ ماہنامہ الرسالہ اردو پاکستان( کراچی) سے چھپنا شروع ہو گیا ہے۔ یہ کسی اضافہ یا کمی کے بغیر ہندستانی اڈیشن کی نقل ہوتا ہے۔ اس سلسلہ کا پہلا شمارہ مارچ ۱۹۹۰ میں شائع ہوا ہے۔ پاکستان کے قارئین الرسالہ کی عرصہ سے خواہش تھی کہ الرسالہ کے تعمیری اور دعوتی افکار کو پاکستان میں زیادہ سے زیادہ پھیلانے کے لیے اس کوپاکستان سے شائع کیا جائے۔ اس کے مطابق اس کا اجراء عمل میں آیا ہے۔
۱۰۔ایک صاحب لکھتے ہیں : میں الرسالہ کا مطالعہ تین سال سے کررہا ہوں ۔ اس کی تحریریں دلوں کو چھونے والی ہیں۔ اس کو پڑھنے کے بعد دل نے کہا کہ واقعی صحیح راہ یہی ہے۔ ہم لوگوں نے مل کر ایک ایجنسی بھی لے لی ہے جو کہ تمام طلبہ میں تقسیم ہوتی ہے ۔ ہماری کوشش یہ ہوتی ہے کہ الرسالہ کے مضامین زیرا کس کر اکر لوگوں میں تقسیم کر دیں۔ (اقبال الرحمٰن، علی گڑھ)
۱۱۔ایک صاحب لکھتے ہیں : الرسالہ آدمی کو سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ ۱۹۸۲ سے میں نے اسے محفوظ کرنا شروع کر دیا ہے ۔ ۸۲ ء سے اب تک کا الرسالہ ہر سال کا میں نے الگ الگ مجلد کروالیا ہے۔ سفر میں الرسالہ کی ایک جلد میرے شریک سفر رہتی ہے۔ الرسالہ کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ کچھ دنوں کے بعد کوئی سا بھی شمارہ پڑھئے ، نیا ہی معلوم ہوتا ہے۔ اور پریشانی کے عالم میں آپ کی تحریر ایک نیا حوصلہ عطا کرتی ہے۔ جیسا کہ آپ لکھتے ہیں کہ الرسالہ کی ایجنسی لینا ملت کی ذہنی تعمیر میں حصہ لینا ہے جو آج ملت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ تو پھرمیں نے بھی اس کو اسلام کی ضرورت سمجھ کر الرسالہ کی ایجنسی لے لی ۔ پہلے پانچ کا پی منگواتا تھا۔ اب پندرہ کاپی منگواتا ہوں (مظفر امام ، گیا)
۱۲۔ملک کا سنجیدہ طبقہ نہایت دل چسپی کے ساتھ الرسالہ پڑھ رہا ہے اور اکثر خط یا ملاقات کے ذریعہ اپنے تاثرات کا اظہار کرتا رہتا ہے۔ مثلاً ۱۲۸ اپریل ۱۹۹۰ کو جناب کلدیپ سنگھ گجرال (نئی دہلی )مرکز میں آئے اور دیر تک صدر اسلامی مرکز سے ملاقات کی ۔ انھوں نے کہا کہ میں نے بہت کتابیں اور میگزین پڑھی ہیں۔ مگر الرسالہ (اردو) نے مجھے کو جتنا متاثر کیا اتنا کسی نے بھی متاثر نہیں کیا۔
۱۳۔مختلف اخبارات الرسالہ کے مضامین نقل کرتے رہتے ہیں۔ اس طرح الرسالہ کا پیغام وسیع تر حلقہ میں برابر پھیل رہا ہے۔ مثلاً بمبئی کے اخبار انقلاب( ۷ اپریل ۱۹۹۰ ) نے اور اردو ٹائمز (۱۹ اپریل )نے الرسالہ کے کئی مضامین نمایاں طور پر نقل کئے ہیں۔
۱۴۔محمود حسین زیدی صاحب علی گڑھ انجنیئر نگ کالج میں استاد ہیں۔ انھوں نے ۳ مئی ۱۹۹۰ کی ملاقات میں بتایا کہ وہ گاڈار ائز زکئی بار خرید چکے ہیں مگر اب تک اس کو ختم نہ کر سکے۔ کیوں کہ جو شخص دیکھتا ہے اس کو قیمت دے کرلے لیتا ہے۔ باہر کے افراد مثلاً ناروے کے ایک پر وفیسر علی گڑھ آئے تھے ، وہ بھی اسی طرح ان سے کتاب لے گئے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جدید طبقہ میں مرکزکی کتابوں کی مانگ کتنی بڑھ چکی ہے۔
۱۵۔الرسالہ مئی ۱۹۹۰ میں جناب سید شفیع الدین صاحب کی ایک انگریزی نظم بعنوان "ذہنی سفر" صفحہ ۴۲ پر چھپی تھی ۔ اس میں غلطی سے موصوف کی تعلیمی ڈگری کے تحت M. A. (Eng), M. Ed لکھ دیا گیا تھا جب کہ اصلاً وه .M.A., M.Com ہیں ۔
۱۶۔ الرسالہ کے ہندی اڈیشن کی تیاریاں جاری ہیں۔ ان شاء اللہ جلد ہی شائع ہو گا۔