کامیاب مقابلہ
مولانا ثنا اللہ امرتسری (۱۹۴۸ - ۱۸۶۸) اپنے وقت کے مشہور مناظر تھے ۔ ایک بار دہلی میں ان کا مناظرہ آریہ سماج کے ایک ہندو عالم سے ہوا۔ اس زمانہ میں مولانا ثناء اللہ کے ایک مخالف نے ان کے بارے میں ایک اشتہار شائع کیا تھا۔ اس اشتہار میں مولانا ثناء اللہ کی طرف کچھ ایسی باتیں منسوب کی گئی تھیں جس سے ان کا اسلام ہی مشکوک قرار پارہا تھا۔
یہ اشتہار آریہ سماجی مناظر کو مل گیا ۔ وہ عربی اور فارسی زبانیں جانتا تھا اور عقیدہ اور عمل کے بارے میں علماء اسلام کے اختلافی مسائل سے بخوبی آگاہ تھا۔ اس نے مذکورہ اشتہار کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ۔ چنانچہ دونوں فریق جب مناظرہ کے اسٹیج پر آئے تو آریہ سماجی مناظر نے پہلا کام یہ کیا کہ وہ اپنی جگہ سے اٹھا۔ اس کے ہاتھ میں مذکورہ اشتہار تھا ۔ اس اشتہار کو اس نے مجمع کے سامنے لہراتے ہوئے کہا :
حضرات ، میں تو یہاں کسی مسلمان عالم دین سے مناظرہ کرنے کے لیے آیا ہوں ۔ مگر مولانا ثناء اللہ امرتسری اس صف میں شامل نہیں۔ مولانا صاحب ایک انسان کی حیثیت سے میرے لیے قابل احترام ہیں۔ لیکن اس اشتہار کو دیکھئے ۔ اس کے مطابق خود اسلامی جماعت کے لوگ ان کے اسلام کو تسلیم نہیں کرتے۔ پھر میں کیسے انھیں مسلمان سمجھوں اور اسلام کے بارے میں ان سے مناظرہ کروں۔
مولا ناثناء اللہ امرتسری نے اس پر کسی منفی رد عمل کا اظہار نہیں کیا ۔ وہ اطمینان کے ساتھ مسکراتے ہوئے اپنی جگہ سے اٹھے اور کہا ۔ حضرات، میرے دوست نے ٹھیک کہا۔ مگر آپ سب جانتے ہیں کہ اسلام میں داخل ہونے کے لیے کلمہ ٔشہادت پڑھنا کافی ہے ۔ کلمہ پڑھ کر اسلام میں داخل ہوا جاتا ہے ۔ میں آپ تمام حاضرین کو گواہ بنا کر آپ کے سامنے کلمۂ شہادت پڑھتا ہوں اور اسلام قبول کرتا ہوں۔ اَشهَدُ أن لا إله إلا الله وَحدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ انْ مُحَمَّداً عَبْدُهُ وَرَسُوله ۔ اب تو میرے اسلام میں کوئی شک نہیں رہا۔ آئیے ، اب مناظرہ کیجئے۔
مولانا ثنا اللہ امرتسری اگر اشتہار کے مضمون پر کلام کرتے اور اپنے آپ کو مسلمان ثابت کرنے لگتے تو بات کبھی ختم نہ ہوتی۔ وہ عقیدہ و عمل کے پیچیدہ بحثوں میں الجھ کر رہ جاتے ۔ ہندومناظر اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاتا ۔ مگر مذکورہ انداز اختیار کر کے انھوں نے ایک منٹ میں سارا مسئلہ ختم کر دیا۔