عمل کا رخ
لندن کی لَجْنَةُ الأَقَلِّيَّاتِ الإِسْلَامِيَّةِ نے بتایا ہے کہ مختلف ملکوں میں جو مسلم اقلیتیں آباد ہیں، ان کی مجموعی تعداد ۴۰۰ ملین ہے ۔ اس طرح ساری دنیا کی کل مسلم آبادی کا ۴۰ فی صد حصہ مسلم اقلیتوں پرمشتمل ہے (صفحہ ۲)
جامعہ ازہر قاہرہ میں ایک اسلامی کانفرنس ہوئی ۔ اس موقع پر تقریر کرنے والوں میں دکتور عبدالصبور مرزوق بھی تھے ۔ انھوں نے اپنی تقریر میں بتایا کہ مسلم اقلیت کے ملکوں کے مسلمان اپنے ملک کے اکثریتی فرقہ کی جارحیت کا شکار ہو رہے ہیں۔ حتی کہ ان کے ہاتھوں موت سے دو چار ہونے والے مسلمانوں کی تعداد ۳۰ ملین تک پہونچ چکی ہے۔ انھوں نے مسلم ملکوں کے وزراء خارجہ سے اپیل کی کہ وہ مسلم اقلیتوں کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں (صفحہ ۱) اخبار العالم الاسلامی، ۲۸ رجب ۱۴۰۹ ھج ، ۶ مارچ ۱۹۸۹
یہ کسی ایک شخص کی بات نہیں ۔ موجودہ زمانے کے تمام مسلم رہنما ایک یا دوسری شکل میں اسی بات کو دہرا رہے ہیں۔ مگر اس معاملے میں ہمارے رہنما اب تک جو کچھ کرتے رہے ہیں وہ صرف ایک ہے ––––– اکثریتی فرقہ یا غیر مسلم حکومت کے خلاف فریاد اور احتجاج کرنا۔ مگر یہ معاملہ اس سے زیادہ سنگین ہے ۔ یہ ہم کو غیر مسلم طاقت کے خلاف احتجاج سے زیادہ رجوع الی اللہ کی دعوت دیتا ہے ۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ ایک چھوٹی جماعت بھی بڑی جماعت پر غالب آجاتی ہے، اللہ کے اذن سے ، اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے كَم مِّن فِئَةٖ قَلِيلَةٍ غَلَبَتۡ فِئَةٗ كَثِيرَةَۢ بِإِذۡنِ ٱللَّهِۗ وَٱللَّهُ مَعَ ٱلصَّٰبِرِينَ [البقرة: 249] یہ آیت بتاتی ہے کہ مسلمانوں کے کسی گروہ کو اگر اپنے ماحول میں غلبہ حاصل نہ ہو توا نہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ اذن اللہ سے محروم ہو گئے ہیں ۔ ایسی حالت میں انھیںفَفِرُّوٓاْ إِلَى ٱللَّهِۖ [الذاريات: 50] کے حکم خداوندی پر عمل کرنا چاہیے ۔ انھیں اللہ کی طرف دوڑ نا چاہیے ، نہ کہ وہ غیر مسلم جماعتوں یا غیر مسلم حکمرانوں کے خلاف احتجاج میں مشغول ہو کر بے فائدہ طور پر اپنا وقت اور اپنی طاقت ضائع کریں ۔