اخلاقی زہر
۶جنوری ۱۹۹۰ کو دہلی (شکر پور) میں ایک دردناک واقعہ ہوا ۔ کچھ چھوٹے بچے ایک میدان میں کھیل رہے تھے ۔ وہاں ایک طرف کوڑے کا ڈھیر تھا ۔ وہ کھیلتے ہوئے اس کوڑے تک پہونچ گئے ۔ یہاں انھیں ایک پڑی ہوئی چیزملی۔ یہ کوئی زہریلی چیز تھی ۔ مگر انھوں نے بے خبری میں اس کو اٹھا کر کھا لیا۔ اس کے نتیجے میں دو بچے فورا ً ہی مر گئے ، اور آٹھ بچوں کو تشویشناک حالت میں جے پرکاش نرائن اسپتال میں داخل کرنا پڑا ۔ یہ بچے دو سال سے پانچ سال تک کے تھے۔
ٹائمس آف انڈیا (۷ جنوری ۱۹۹۰) نے صفحہ ٔاول پر اس کی خبر دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ان بچوں میں سے ایک نے وہاں ایک چھوٹا پیکٹ پایا۔ اس میں تقریباً ڈیڑھ سو گرام کوئی سفید رنگ کا سفوف تھا۔ انھوں نے غلطی سے اس کو شکر سمجھا اور آپس میں تقسیم کر کے کھانے لگے ۔ کھانے کے چند منٹ بعد ان کے ہونٹ نیلے پڑ گئے :
One of them found a small packet containing about 150 gm of white, powdery substance. They mistook it for sugar and distributed it among themselves. Within minutes of consuming it, their lips turned blue.
مادی خوراک کے اعتبار سے یہ چند بچوں کا واقعہ ہے۔ لیکن اخلاقی خوراک کے اعتبار سے دیکھئے تو آج یہی تمام انسانوں کا واقعہ ہے۔ آج کی دنیا میں تمام انسان ایسی اخلاقی غذا ئیں کھا رہے ہیں جو ان کی انسانیت کے لیے زہر ہیں، جو ان کو ابدی ہلاکت سے دو چار کرنے والی ہیں ۔
جھوٹ ، بدکاری، رشوت ، غرور ، حسد، الزام تراشی، ظلم ، غصب ، بد دیانتی، وعدہ خلافی، بدخواہی ،بے اصولی، بد معاملگی ، انانیت ، بے اعترافی ، غلطی نہ ماننا ، احسان فراموشی ، خود غرضی، انتقام، اشتعال انگیزی، اپنے لیے ایک چیز پسند کر نا اور دوسرے کے لیے کچھ اور پسند کرنا، یہ تمام چیزیں اخلاقی معنوں میں زہریلی غذائیں ہیں ۔ آج تمام لوگ ان چیزوں کو میٹھی شکر سمجھ کر کھارہے ہیں ۔ مگر وہ وقت زیادہ دور نہیں جب ان کا زہریلا پن ظاہر ہوگا۔ اور پھر انسان اپنے آپ کو اس حال میں پائے گا کہ وہاں نہ کوئی اس کی فریاد سننے والا ہوگا اور نہ کوئی اس کا علاج کرنے والا۔