ایک مشورہ

بالا صاحب دیورس راشٹریہ سوم سیوک سنگھ(آر ایس ایس )کے سرسنچالک ہیں۔ وہ اس ملک میں ہندو ازم کے احیاء کے سرگرم اور مشہور علم بردار ہیں۔

 انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (۱۶ نومبر ۱۹۸۷) کی رپورٹ کے مطابق، بالا صاحب دیورس نے جے پور میں ایک انٹرویو دیا۔ اس انٹرویو کے دوران ، اخباری رپورٹر کے مطابق، انھوں نے اقرار کیا کہ ہندو ازم میں بہت سی کمیاں ہیں ، جیسے کہ چھوت چھات اور ذات پات کا رواج :

He, however, admitted that there were many flaws in Hindusim such as the prevalence of untouchability and casteism (p.1)

اب سوال یہ ہے کہ جولوگ ہندو ازم کا احیاء کر نا چاہتے ہیں وہ کس چیز کا احیاء کر نا چاہتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب ہندو ازم کا احیاء  ہو گا تو اسی چیز کا احیاء  ہوگا جو کہ ہندو ازم میں پائی جارہی ہے۔ وہ کسی اور چیز کا احیاء  نہیں بن سکتا۔

چھوت چھات کے سلسلے میں بنیادی بات یہ ہے کہ وہ محض ایک سماجی رواج نہیں ہے۔ اس کی جڑ یہ ہے کہ چھوت چھات اور ذات پات کی تعلیم خود ہندو ازم کی مقدس کتابوں میں موجود ہے۔ اس لیےجب ہندو ازم کا احیاء کیا جائے گا تو اس کے یہ اجزاء بھی لازمی طور پر زندہ ہوں گے ۔ ان کو ہندو ازم کی احیاء کی اسکیم سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔

آپ اگر ۱۹۳۵ کے انگریزی ایکٹ کو زندہ کریں تو اسی کے ساتھ برطانوی بالا دستی بھی لگی ہوئی آئے گی ۔ یہ ناممکن ہے کہ ۱۹۳۵ کا ایکٹ زندہ کیا جائے اور اس سے عملاً موجودہ ہندستانی دستور بر آمد ہو جس میں اس ملک کا اقتدار اعلیٰ کامل طور پر ملک کے عوام کے لیے تسلیم کیا گیا ہے ۔ جب کہ ۱۹۳۵ کے ایکٹ میں ہندستان کے اقتدار اعلی کو برٹش ایمپائر کا حق بتایا گیا تھا۔

ہند و مصلحین اس معاملہ میں ایک ناقابل ِحل تضاد کا شکار ہیں ۔ اگر وہ ہندو ازم کا نعرہ  نہ لگائیں تو ان کو اندیشہ ہے کہ ہندو کسی اور مذہب یا تہذیب میں ضم ہو جائیں گے ۔ اور اگر وہ ہندو ازم کے نام پر انھیں ابھاریں تو اونچی ذات اور نیچی ذات جیسے جھگڑے نئی طاقت کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں ،کیوں کہ یہ چیزیں ہندو ازم کے ایسے لازمی اجزاء ہیں جن کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔

 مسٹرگری لال جین اور دوسرے ہندو دانشوروں نے اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ ہندو احیا پرستوں کے پاس کوئی مثبت بنیاد نہیں جس پر وہ قوم کو کھڑا کر سکیں ۔ ان کے پاس صرف ایک منفی بنیاد (مسلم دشمنی) ہے جس پر وہ قوم کو کھڑا کر سکتے ہیں۔ مگر وہ کوئی پسندیدہ بنیا د نہیں ۔

  مسٹر جین نے بجا طور پر اس کو رد کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جو چیز ممکن ہے وہ مطلوب نہیں، اور جو چیز مطلوب ہے وہ ممکن نہیں۔

 اس دو گونہ مشکل کا حل صرف ایک ہے۔ وہ یہ کہ ہند و مصلحین قومی طرز فکر کو چھوڑ کر حق پسندانہ طرز فکر کو اختیار کریں۔ اس کے بعد وہ اپنے آپ اس راستہ کو پالیں گے جس میں صداقت بھی ہو، اور جو ہر قسم کے تضادات سے خالی بھی ہو۔

اس دنیا میں آدمی کے لیے دو راستے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ تعصب کی زمین پر کھڑا ہو ۔ دوسرے یہ کہ وہ حقیقت پسندی کی زمین پر کھڑا ہو ۔ تعصب کی زمین وقتی طور پر کچھ لوگوں کو کھڑے ہونے کی زمین دے سکتی ہے ۔ مگر اس میں نہ پائداری ہے اور نہ اس سے کوئی مسئلہ حل ہوتا ہے۔ اس کے برعکس حقیقت پسندی کی زمین میں پائداری بھی ہے اور وہ ہر قسم کے تضادات سے پاک بھی ہے۔

 آدمی کو چاہیے کہ وہ تعصب اور تنگ نظری کے طریقے سے بچے اور حقیقت پسندی کی بنیاد پر اپنے مستقبل کی تعمیر کرے، کیوں کہ بالآخر جس چیز کو کامیابی ملنے والی ہے وہ حقیقت پسندی ہے نہ کہ تعصب اور تنگ نظری ۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom