المطففين
قرآن میں حکم دیا گیا ہے کہ تم ناپ اور تول کو پوراکر و انصاف کے ساتھ ، اور لوگوں کو ان کی چیزیں گھٹا کر نہ دو اور زمین میں فساد کرتے نہ پھرو (ہود : ۸۵) جب تم ناپ کر دو تو پورانا پو اور ٹھیک ترازو سے تول کر دو۔ یہ بہتر طریقہ ہے اور اس کا انجام اچھا ہے ( بنی اسرائیل:۳۵) تم لوگ پوراپورا نا پو اور نقصان دینے والوں میں سے نہ بنو ۔ اور سیدھی ترازو سے تو لو اور لوگوں کو ان کی چیزیں گھٹا کر نہ دو اور زمین میں فساد نہ پھیلاؤ( الشعراء: ۸۳ - ۱۸۱) اللہ نے آسمان کو اونچا کیا اور اس نے ترازو رکھ دی کہ تم تولنے میں زیادتی نہ کرو، اور انصاف کے ساتھ سیدھی ترازو تو لو اور تول میں نہ گھٹاؤ ( الرحمن: ۷-۹)
ان آیتوں میں جس چیز سے روکا گیا ہے ، وہ قرآن کی زبان میں تطفیف ہے ۔ قرآن کی سورہ نمبر۸۳ میں اس کی بابت زیادہ سخت الفاظ میں حکم دیتے ہوئے ارشاد ہوا ہے کہ خرابی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کے لیے ، جن کا حال یہ ہے کہ وہ لوگوں سے ناپ کر لیں تو پورا لیں ، اور جب لوگوں کو ناپ کر یا تول کر دیں تو انھیں گھٹا کر دیں۔ کیا ایسا کرنے والے یہ نہیں سمجھتے کہ وہ اٹھائےجانے والے ہیں ، ایک بڑے دن کے لیے ۔ جس دن تمام انسان خدا وند عالم کے سامنے کھڑے ہوں گے(التطفیف: ۱ - ۶)
ويل للمطففین کی تشریح مفسر النسفی نے ان الفاظ میں کی ہے کہ وہ لوگ جو انسانوں کے حقوق کو ناپنے اور تولنے میں گھٹا دیتے ہیں (الَّذِينَ یَبْخَسُونَ حُقُوقَ النَّاسِ فِي الْكَيْلِ و الْوَزْنِ) اس آیت کا تعلق صرف ان چند افراد سے نہیں ہے جو دکانداری کرتے ہوں اور ترازو میں تول کر کوئی چیز بیچ رہے ہوں ، بلکہ اس کا تعلق تمام انسانوں سے ہے ۔ ناپ اور تول سے مراد در اصل انسانی حقوق کی ادائگی ہے۔ یہاں ترازو کی مثال سے بتایا گیا ہے کہ لین اور دین دونوں برابر رکھو ۔ جس طرح تم اپنا حق پورا لینا چاہتے ہو ، اسی طرح دوسروں کو بھی ان کا پوراحق دو۔ یہ طریقہ نہ اختیار کرو کہ اپنے لیے دوسرا باٹ اور غیروں کے لیے دوسرا باٹ۔
اس اخلاقی کمزوری کا اظہا ر سب سے زیادہ اختلاف والے معاملات میں ہوتا ہے۔ ایک شخص کا دوسرے شخص سے مال یا جائداد کا جھگڑ اہو۔ اس سے آپ بات کریں تو وہ پوری کہانی کو یک طرفہ انداز میں بتائے گا جس سے ثابت ہو کہ وہ حق پر ہے اور دوسرا شخص ناحق پر ۔ یہی تطفیف ہے جس پرویل (خر ابی ) کی خبر دی گئی ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ پورے معاملہ کو جیسا ہے ویسا (as it is)بیان کرے ، خواہ وہ اپنے موافق ہو یا اپنے خلاف۔
یہی حال تمام اختلافی امور کا ہے۔ آدمی اگر دوسرے کی زیادتی کو بتائے اور اپنی زیادتی کا ذکر نہ کرے تو وہ مطفف ہے ، اور مطفف کے لیے اللہ تعالیٰ کے یہاں نہایت برے انجام کا اندیشہ ہے۔ وہ اپنی یک طرفہ باتوں سے دنیا والوں کو دھوکے میں ڈال سکتا ہے ، مگر وہ خدا کو دھوکا نہیں دے سکتا۔
اس ذہنیت کا سب سے بڑا اظہار آج کل فرقہ وارانہ فساد کے معاملہ میں ہو رہا ہے۔ ہندستان میں پچھلے پچاس برس سے ہندومسلم فساد ہو رہے ہیں ۔ ان فسادات کی تعداد ، چھوٹے اور بڑے واقعات کو ملاکر ، ۵۰ ہزار سے کم نہیں ہوگی۔ ہر بارجب کہیں فساد ہوتا ہے تو مسلمانوں کی طرف سے اس کی رپورٹیں شائع کی جاتی ہیں۔ یہ نام نہاد رپورٹیں ، تقریباً سب کی سب ، تطفیف کی مثال ہیں۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ان رپورٹوں میں ہمیشہ فریق ثانی کی زیادتیوں کو بیان کیا جاتا ہے ۔ فریق اول نے کیا کیا ، اس کاان رپورٹوں میں کوئی ذکر نہیں ہوتا۔
مثال کے طور پر ۲۴ اکتوبر ۱۹۸۹ کو ایک شہر میں فساد ہوا ۔ اس کی ابتد ایہاں سے ہوئی کہ ہندو فرقہ کے کچھ لوگ اپنا ایک مذہبی جلوس نکال رہے تھے۔ ان کے نقشہ کے مطابق جلوس کو ایک ایسی سڑک سے گزرنا تھا جس پر مسلم محلہ واقع تھا اور مسلمانوں کی مسجدیں تھیں۔ مسلمانوں نے روٹ بدلنے پر اصرار کیا۔ دوسری طرف ہندووٴں کا اصرار تھا کہ وہ اسی روٹ پر جائیں گے۔
اس واقعہ کے صرف ایک ماہ بعد ۲۲، نومبر ۱۹۸۹ کو ملک کا جنرل الیکشن ہونے والا تھا۔ حکمراں پارٹی کو دونوں فرقہ کا دوٹ لینا تھا ، اس لیے وہ نہ ہندوؤں کو ناراض کرنا چاہتی تھی اور نہ مسلمانوں کو ۔ چنانچہ حکومت نے یہ انتظام کیا کہ جلوس کو پولیس کے خصوصی بندوبست کے تحت نکا لا جائے۔
جلوس اس طرح چلتا ہو امسلم محلہ والی سڑک پر پہنچا۔ بھاری تعداد میں پولیس کی موجودگی اس بات کی ضمانت تھی کہ جلوس کے لوگ خواہ الٹے قسم کے نعرے لگا ئیں مگر وہ مسلمانوں کے خلاف کوئی عملی تشدد نہ کر سکیں گے۔ مگر مسلمانوں نے ناقابلِ فہم نادانی کے تحت یہ کیا کہ وہ اپنے محلہ والی سڑک پر جمع ہو گئے اور جلوس کو روک دیا ۔ اس طرح کئی گھنٹے تک جلوس وہاں رکا رہا۔ جب جلوس والے واپسی پر راضی نہ ہوئے تو مسلمانوں نے دوسری نادانی یہ کی کہ اپنے گھروں کی چھتوں سے جلوس پر بم پھینکے حتی کہ انھوں نے مبینہ طور پر پولیس کو بھی اپنے بم کا نشانہ بنایا۔
یہاں پہنچ کر سارا معاملہ بالکل بدل گیا۔ بم اور پتھراؤ سے پہلے سارامعاملہ انتظام کا معاملہ تھا،اب وہ غصہ اور انتقام کا معاملہ بن گیا۔ اس سے پہلے ایک طرف پولیس تھی اور دوسری طرف جلوس کے ہندو ۔ مگر اب پولیس اور ہندو ایک طرف ہو گئے اور مسلمان دوسری طرف ۔ جن مسلمانوں کی حیثیت پہلے زیر ِحفاظت فرقے کی تھی ، ان کی حیثیت اب زیر انتقام فرقے کی بن گئی۔ پولیس نے اور ہندوؤں نے مشتعل ہو کر مسلمانوں کو مارنا اور پھونکنا شروع کر دیا جس کی تفصیل اخبارات میں آچکی ہے ۔ جب آدمی غصہ میں آجائے تو وہ اس وقت وہ سب کچھ کرتا ہے جو اس کے بس میں ہو ۔ چنانچہ ہندو اور پولیس والے جب غصہ میں آگئے تو انھوں نے وہ سب کچھ کیا جو وہ کر سکتے تھے۔
۲۴ اکتوبر کے اس فساد پر مسلم رہنماؤں اور مسلم دانشوروں کی طرف سے سیکڑوں "رپورٹیں" اخبارات ورسائل میں آچکی ہیں۔ مگر یہ تمام کی تمام ر پور ٹیں تطفیف کی مثال ہیں۔ ان میں واقعہ کے نصف ثانی کو بیان کیا گیا ہے ، مگر واقعہ کے نصف اول کا ان نام نہاد رپورٹوں میں کوئی ذکر نہیں۔
جو لوگ اس قسم کی رپورٹیں یا" آنکھوں دیکھا حال "بیان کرتے ہیں۔ وہ وہی ہوتے ہیں جو فساد کا واقعہ ہو جانے کے بعد سفر کر کے وہاں پہنچتے ہیں۔ مثلا ً فساد کا آغاز اگر ۲۴ اکتوبر کو ہوا اور اس کا سلسلہ کچھ دنوں تک جاری رہا تو ایسے لوگ ہمیشہ فساد کے بعد مثلاً ۱۰ نومبر کو فسادزدہ مقام پر پہنچیں گے ۔ اس وقت جو منظر ان کی آنکھوں کے سامنے ہوگا، بس وہ اسی کو جذباتی انداز میں بیان کرنا شروع کر دیں گے۔ یعنی وہ اپنی رپورٹ ۱۰ نومبر سے شروع کریں گے نہ کہ ۲۴ اکتو بر سے۔ اس قسم کی رپورٹیں یا اس قسم کے بیانات مکمل طور پر تطفیف کی مثال ہیں۔ یہ اپنے آپ کو اخفاءِ واقعہ کے باٹ سے تو لنا ہے اور فریق ثانی کو اظہارِ واقعہ کے باٹ ہے ۔ اور قرآن کا فیصلہ ہے کہ جو لوگ تطفیف کا طریقہ اختیار کریں ان کے حصہ میں( ویل )خرابی لکھی جائے نہ کہ اصلاح اور کامیابی۔
پچھلے پچاس برس کی تاریخ قرآن کے ان الفاظ کی تصدیق کرتی ہے ۔ اس مدت میں مسلم رہنماؤں اور دانشوروں کی طرف سے لاکھوں کی تعداد میں رپورٹیں اور بیانات شائع کئے گئے ہیں ۔ مگران رپورٹوں اور بیانات کا ایک فیصد فائدہ بھی ملت کو نہیں ملا ، حتی کہ اتنا فائدہ بھی نہیں جتنا ان کے چھاپنے اور تقسیم کرنے پر خرچ کیا جاتا رہا ہے۔ فسادات، اپنی کیفیت اور کمیت دونوں اعتبار سے برابر جاری ہیں بلکہ اور بڑھتے جا رہے ہیں ۔
مسلم رہنما اگر ایسا کرتے کہ وہ فرقہ وارانہ فساد کا نصف ثانی بتانے کے ساتھ ، اس کا نصف اول بھی بتاتے تو انہیں اللہ کی مدد حاصل ہوتی اور یقینی طور پر اب تک اس قسم کے فساد کا خاتمہ ہو جاتا۔
موجودہ قسم کی رپورٹیں اور بیانات کو پڑھ کر ہر جگہ کے مسلمانوں میں صرف غصہ اور نفرت کےجذبات پیدا ہو رہے ہیں۔ اور غصہ اور نفرت یقینی طور پر اصل مسئلہ کو مزید بڑھانے والا ہے ، وہ ہرگز اس کو کم کرنے والا نہیں۔
اس کے برعکس اگر ہماری رپورٹوں اور بیانات میں واقعہ کا نصف اول بھی پوری طرح بیان کیا جاتا تو اس کے بعد مسلمانوں میں یہ احساس ابھرتا کہ اگر انھوں نے غلطی کی تو ہم نے بھی غلطی کی تھی۔ دونوں میں مقدار کا فرق تو ضرور ہے ، مگر دونوں میں نوعیت کا کوئی فرق نہیں ۔ یہ معاملہ یک طرفہ معاملہ نہیں ہے ،بلکہ وہ دو طرفہ معاملہ ہے۔
اس احساس کا ایک تعمیری فائدہ یہ ہوتا کہ مسلمانوں میں خود احتسابی کا جذبہ ابھرتا ۔ انھیں نظر آتا کہ فسادات کی شدت کے باوجود، ان کا ایک آسان حل بھی یہاں موجود ہے ۔ وہ یہ کہ ہم اپنے حصہ کی غلطی کو ختم کر دیں ۔ اس طرح قانون ِقدرت کے تحت ، ہم یہ امید کر سکتے ہیں کہ ان شاء اللہ دوسرےکی غلطی کا بھی خاتمہ ہو جائے گا۔
اس طرح کے مواقع پر بہترین حل یہ ہے کہ جب بھی کسی مقام پر فرقہ وارانہ تناؤ پیدا ہو تو مسلمان مقامی ذمہ داروں اور پولیس کے اعلیٰ افسران سے ربط قائم کر یں۔ وہ منصوبہ بند طور پر اس بات کی کوشش کریں کہ معاملہ پولیس اور جلوس کے درمیان رہے۔ مگر مسلمان اپنی بے صبری سے خود ہی اقدام کر بیٹھتے ہیں۔ اس طرح بے بنیاد طور پر مسئلہ مسلمانوں اور پولیس کا بن جاتا ہے۔ مسلمان اگر اس راز کو جان لیں تو اس کے بعد ۹۹ فیصد فسادات کا علاج اپنے آپ ہو جائے گا۔